• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عہدہ صدارت سے سبکدوشی سے تین دِن قبل صدر زرداری نے وزیر اعظم میاں نواز شریف کی جانب سے دیئے گئے ظہرانے میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اپنی دھرتی اور آنے والی نسلوں کو بچانے کیلئے ہمیں ایک ساتھ کھڑا ہونا پڑے گا،پاکستان کو مفاہمت کی شدید ترین ضرورت ہے ، اس مفاہمت کے قیام کیلئے اگلے پانچ سال ہم میاں صاحب کی حکومت کو مضبوط کریں گے، پانچ سال بعد جب میاں صاحب نئے انتخابات کا اعلان کریں گے تو ہم دوبارہ سیاست شروع کریں گے۔ قبل ازیں مذکورہ تقریب میں وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا کہ پاکستان کی چھیاسٹھ سالہ تاریخ میں آصف علی زرداری پہلے منتخب صدر ہیں جو اپنا آئینی عہدہ مکمل کر کے ایک باوقار انداز سے رخصت ہو رہے ہیں۔ وہ پہلے صدر ہیں جنہیں وزیر اعظم ہاؤس میں الوداعی دعوت دی جا رہی ہے ۔ یہ اعزاز تاریخ کا حصہ بن رہا ہے اور جمہوری صدر کو الوداع کہنا میرے لئے باعث فخر و سعادت ہے ۔استقبالیہ تقریب میں ہر دونوں رہنماؤں کی تقاریر ایک دوسرے کیلئے تعریف و توصیف کی طویل کہانی تھیں۔ ماضی کی تلخ یادوں اور مستقبل کے مضبوط، توانا اور ترقی یافتہ پاکستان کو چند لمحوں کے لئے بھلا دیا جائے تو دونوں رہنماؤں کی تقاریر سن کر چند لمحوں کے لئے تو آدمی تصور ہی تصور میں محسوس کرتا ہے کہ وہ مسائل زدہ پاکستان میں نہیں کسی مہذب و ترقی یافتہ ، مضبوط جمہوری ملک میں آ گیا ہے اور ہم خوش قسمتی کے ہمالیہ پر پہنچ گئے ہیں۔ جہاں ایک ترقی یافتہ ، دفاعی و معاشی طور پر مضبوط و مستحکم پاکستان ہماری نظروں کے سامنے تھا۔ مختصر یہ کہ ہر جانب خوشحالی و ہریالی نظر آ رہی تھی خوردبین لگا کے بھی دیکھنے سے کوئی مسئلہ نظر نہیں آتا تھا۔
چند لمحوں کے لئے ہم بھی تصوراتی دنیا میں پہنچ گئے تھے مگر جسم کو خوب جھنجھوڑ کے تصورات کی دنیا سے اپنے آپ کو واپس لائے تو 2008ء کی یادیں تازہ ہو گئیں جب صدر زرداری نے ایسی ہی مفاہمانہ سیاست کا اعلان کیا تھا ۔ پھولوں کے گلدستے لے کر کبھی ایک دروازے اور کبھی دوسرے پر پہنچ رہے تھے۔ نامعلوم قبروں پر تختیاں لگ گئی تھیں اور صدر مخالفین کے عزیزوں کی قبروں پر پہنچ کر فاتحہ خوانی کے ذریعے دلوں میں موجود کدورتوں کو ختم کرتے نظر آ رہے تھے۔ میاں صاحب اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی تمام مخالفتیں ختم کر کے تیار کئے گئے میثاق جمہوریت کا پاس کرتے ہوئے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ( ن ) کی اتحادی حکومتوں کا قیام اور پھر چند ماہ میں اس مفاہمت میں واضح دراڑیں ساری قوم نے دیکھیں اِدھر اتحادی حکومت کے خاتمے کا اعلان ہوا اور اُدھر ہر دو پارٹیوں کے رہنماؤں میں الفاظ کی جنگ نے شِدت اختیار کر لی۔ ہم نے دیکھا کہ بند کمروں میں قرآن پر حلف اور پھر اُس کا پاس نہ کرنے کے قصے بھی سامنے آئے۔ صدر صاحب نے اپنی حیثیت اور منصب جلیلہ پر متمکن ہونا بھلا کر میاں صاحب پر طالبان نواز اور نہ جانے کیا کیا الزامات لگائے ۔ میاں نواز شریف اوران کے برادرِ خورد نے ہزاروں کے مجمعوں میں ملک کے سب سے باوقار مقام پر بیٹھے سربراہ ریاست کو علی بابا چالیس چوروں کا ٹولہ اور نہ جانے کیا کیا قرار دیا۔ ابھی چار ماہ قبل انتخابات میں تقاریر اور اشتہار بازی کے ذریعے ” کپڑے “ سر بازار دھونے کے قصے کس عاقل و بالغ کے ذہن سے محو ہو سکتے ہیں؟ ماضی اور مستقبل کو بھلا کر کوئی انسان ، قوم اور ملک آگے نہیں بڑھ سکتا۔ جمہوری ملکوں میں پوائنٹ اسکورنگ اور خواہ مخواہ کی تنقید کے بجائے پالیسیوں اور کارکردگی کی تعریف یا تنقید حزب اختلاف حکومتوں پر کرتی ہے ۔ گزشتہ پانچ سالوں میں مسلم لیگ (ن) پر مخالفین یہ الزام دھرتے رہے کہ وہ فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی ہے اور یہ کہ ہر دو پارٹیوں نے اندرون خانہ گٹھ جوڑ کر کے ” باریاں “ طے کر رکھی ہیں۔
مخالفین کے الزام کے حق اور مخالفت میں رائے دی جا سکتی ہے مگر یہ بات سچ ہے کہ ماضی کی نسبت گزشتہ پانچ سالوں میں کسی نہ کسی سطح پر جمہوری ادارے مضبوط ہوئے ہیں اس میں سیاسی قیادت کی بالغ نظری کے ساتھ ساتھ ان ” اداروں کا زیادہ کمال “ ہے جنہوں نے ” برداشت “ کے ذریعے جمہوری نظام کو چلنے دیا۔ دوسری طرف گزشتہ ایک عشرے بالخصوص گزشتہ پانچ سالوں میں جس بڑے پیمانے پر بدیانتی کے ہوشربا حقائق سامنے آئے اور کھربوں روپے کی لوٹ مار ہوئی اُس کوکیسے بھلایا جا سکتا ہے؟ کھربوں روپے کے سوئس کیس بند کر دیئے گئے ۔ قانون کی عملداری ختم کر کے رکھ دی گئی۔کراچی جیسے شہر میں شرفاء کا جینا دوبھر کر دیا گیا ہر جانب قبضہ اور بھتہ مافیا کا راج تھا۔ ماضی کے روشنیوں کے اِس شہر سے ایک ایک دن میں 70 کروڑ کے بھتہ کی کہانیاں، جی ایچ کیو ، مہران نیول بیس ، کامرہ ایئر بیس پر حملہ، ایبٹ آباد میں امریکی مداخلت اور آئے روز کے ڈرون حملے اِس سارے ماحول میں صدر زرداری کی مفاہمت کی بات تو سمجھ آتی ہے کہ وہ مفاہمت کا تاثر دے کر حکومت کو خاموش کرنا چاہتے ہیں تاکہ پانچ سال میں جو کرپشن ہوئی اُس پر کوئی مقدمہ بازی اور سنجیدہ قانونی کارروائی نہ ہو سکے ۔
پیپلز پارٹی اگر حقیقی جمہوری پارٹی ہوتی تو اُس کے جناب زرداری کبھی یہ نہ کہتے کہ ہم پانچ سال بعد جب میاں صاحب انتخابات کا اعلان کریں گے تو دوبارہ سیاست شروع کریں گے ۔ جمہوریت کی گاڑی کو پٹڑی پر رکھنے میں حکومت سے زیادہ حزب اختلاف کا کردار ہوتا ہے،حزب اختلاف چوکنا چوکیدار کے طور پر حکومت کی ہر کارروائی پر نظر رکھتی ہے اور اُسے ہر وقت توجہ اور تنقید کا نشانہ بنا کر غلط سمت جانے سے روکتی ہے۔ ملک کو توانائی ، معیشت اور دفاع و سلامتی کے حوالے سے شدید چیلنجز کا سامنا ہے۔ میاں صاحب آپ نے عوام کے سامنے جو وعدے کئے تھے کہ لوٹ مار کے حامل افراد کے پیٹوں سے ملکی خزانے کی پائی پائی واپس لائیں گے۔ جن کو آپ نے علی بابا قرار دیا وزیراعظم ہاؤس پہنچتے ہی جناب میاں نواز شریف آپ آج اُن کو مفاہمت کا بادشاہ اور اُن کی رخصتی کو تاریخی طور پر باوقار قرار دے رہے ہیں ۔ ہمارا مذہب ہمیں صبر، برداشت اور عفو و درگزر کا درس دیتا ہے۔ انفرادی طور پر ایک مومن کا کردار وہی ہونا چاہئے جو جناب صدر اور وزیر اعظم آپ نے اپنے خیالات میں کیا مسئلہ ذات کا ہو تو معافی و درگزر ہی کا رویہ اپنانا چاہئے مگر کسی صدر اور وزیراعظم کو مذہب اور ہمارا آئین ہرگز اجازت نہیں دیتا کہ قومی اداروں کی تباہی اور لوٹ مار پر مفاہمت کے نام پر وہ ایک دوسرے کو معاف کرتے پھریں۔ ہم ملک کے وزیراعظم صاحب سے نہایت ادب سے گزارش کریں گے کہ وہ انتقام یا اجتماعی عفو و درگزر کے بجائے قومی مجرموں کو قانون کے شکنجے میں کس کے قوم سے کئے گئے وعدے پورے کریں۔ پیپلز پارٹی کے رہنما جناب آصف علی زرداری سے بھی گزارش ہے کہ وہ ”مفاہمت کے نئے نظرےئے “ کو متعارف کرانے اور فرینڈلی اپوزیشن کے بجائے اپنی پارٹی کے رہنماؤں کو فعال اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کی ہدایات جاری کریں کیونکہ جناب زرداری کی یہ پالیسی مثبت جمہوری پیشرفت نہیں بلکہ ملک کی تباہی کا باعث بن سکتی ہے۔
تازہ ترین