• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلی بالآخر تھیلے سے باہر آگئی، متحدہ اپوزیشن نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف 86ارکان کے دستخطوں سے اسپیکر آفس میں تحریکِ عدم اعتماد جمع کرا دی ہے۔ یہ کسی بھی وزیراعظم کے خلاف چھٹی تحریکِ عدم اعتماد جمع کرائی گئی ہے۔ پچھلے 74سال میں 30 وزرائے اعظم بر سر اقتدار آئے جن میں 7نگران وزرائے اعظم بھی شامل ہیں، بیشتر وزرائے اعظم کو برطرف کر دیا گیا یا انہیں مستعفی ہونے پر مجبو کردیا گیا۔ چوہدری محمد علی کوتحریک عدم اعتماد کے ذریعے نکالا گیا جب کہ دو وزرائے اعظم تحریکِ عدم اعتماد پیش ہونے پر مستعفی ہوگئے۔ لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیر اعظم تھے جنہیں کمپنی باغ (جس کا بعد ازاں لیاقت باغ نام رکھ دیا گیا) میں شہید کر دیا گیا یہی وہ مقام ہے جہاں سابق وزیر اعظم محترمہ بےنظیر بھٹو کو دہشت گردی کے ایک واقعہ میں شہید کر دیا گیا۔ 1951سے لے کر 1958تک 6وزرائے اعظم برسرِ اقتداررہے۔ محمد علی بوگرہ کا دور حکومت کم و بیش اڑھائی سال رہا 8ستمبر 1956کو ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی تو انہوں نے استعفیٰ دینے میں ہی عافیت جانی۔ابراہیم اسماعیل چندریگر(آئی آئی چندریگر) کوبھی تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹایا گیا۔ ملک فیروز خان نون 16دسمبر 1957سے 7اکتوبر 1958 تک بر سر اقتدار رہے، ان کوا سکندر مرزا نے 8اکتوبر 1958ء کو مارشل لا نافذ کرکے گھر بھجوا دیا۔ 1971میں پاکستان کے دولخت ہونے سے چند روز قبل صدر جنرل یحییٰ خان نے نور الا مین کو متحدہ پاکستان کا آخری وزیر اعظم نامزد کیا ان اکا دور حکومت 7دسمبر 1971سے 20دسمبر 1971ء تک رہا وہ صرف13روز تک ہی اس منصب پر فائز رہے۔ پاکستان میں 50کے عشرے میں گورنر جنرل کے ہاتھوں وزرائے اعظم کھلونا بنے رہے جس وزیراعظم کو ہٹانا مقصود ہوتا اس کے خلاف تحریک عدم اعتماد لے آتے یا پھر گورنر جنرل لا محدوداختیارات کو بروئے کار لا کر وزرائے اعظم کو برطرف کر دیتا ۔ 1973ء کے آئین کے تحت ذوالفقار علی بھٹو وزیر اعظم بنے تو وہ بھی جنرل ضیاالحق کے مارشل لا کے تحت نہ صرف برطرف کئے گئے بلکہ انہیں تختۂ دار پر چڑھا دیا گیا۔ محمد خان جونیجو کو فوجی حکمران نے وزیر اعظم بنایا اور پھر اسی حکمران نے پالیسی پر اختلاف پر گھر بھجوا دیا۔بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی دو بار برطرفی ہوئی۔ بے نظیر بھٹو کے خلا ف تحریک ناکام ہوگئی تو پھر غلام اسحٰق خان نے آئین کے آرٹیکل58ٹو-بی کے تحت ان کی حکومت برطرف کر دی فارق احمد خان لغاری نے یہی اختیار استعمال کیا غلام اسحق نے نواز شریف کی حکومت برطرف کی تو سپریم کورٹ نے بحال کر دی لیکن اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ نے ان کی حکومت چلنے نہیں دی۔ غلام اسحٰق خان اور نواز شریف دونوں کو جانا پڑا نواز شریف دوسری بار برسر اقتدار آئے تو پرویز مشرف نے جمہوریت کی بساط ہی لپیٹ دی ظفر اللہ خان جمالی کو بھی استعفیٰ لے کر گھر بھجوا یاگیا شوکت عزیز بقیہ مدت وزیر اعظم رہے ان کے خلاف بھی تحریک عد م اعتماد آئی لیکن کامیاب نہ ہوسکی شوکت عزیز کے قومی اسمبلی کے رکن بننے تک چوہدری شجاعت حسین اڑھائی ماہ تک وزیر اعظم رہے۔ یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف کو جس طرح اقتدار سے نکالا گیا وہ بھی تاریخ کا سیاہ باب ہے۔ ان کی جگہ علی الترتیب پرویز اشرف اور شاہد خاقان عباسی وزیر اعظم رہے۔ یوںپاکستان کے کسی وزیر اعظم نےآج تک اپنی5 سال کی آئینی مدت پوری نہیں کی۔

25جو لائی2018ء کے متنازع انتخابات کے نتیجہ میں عمران خان کی حکومت بر سر اقتدار آئی۔ اپوزیشن پارلیمنٹ میں بیٹھ تو گئی لیکن شروع دن سے عمران خان کی حکومت کو تسلیم کیا اور نہ ہی عمران خان نے اپوزیشن سے تعلقات کار بہتر بنانے کی کوشش کی، پچھلے پونے چار سال سے عمران خان اپوزیشن کو دیوار سے لگانے کی کوشش کر رہے ہیں تو اپوزیشن نے بھی حکومت کو لوہے کے چنے چبا نے پر مجبور کر دیا ہے عمران خان بھی تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لیے سرگرم عمل ہیں وہ لاہور میں چوہدری برادران کے ہاں حاضری دے چکے ہیں کراچی میں ایم کیو ایم سے بھی مدد مانگی ہے شنید ہے جی ڈی اے نے وزیر اعظم سے ملاقات کرنے سے گریز کیا ہے اور کہا ہے کہ ’’وہ تحریک عد م اعتماد کے سلسلے میں براہِ راست پیر صاحب پگاڑا سے بات کریں لیکن پیر صاحب کی ناسازی طبع کے باعث ان کی ملاقات نہ ہوسکی۔ مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم دونوں جماعتوں نے وزیر اعظم سے ملاقاتیں تو کی ہیں لیکن ابھی تک انہوں نے کھل کر وزیر اعظم کے ساتھ کھڑا ہونے کا اعلان نہیں کیا۔ چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی نے بھی اسلام آباد میں ڈیرے ڈال لیے ہیں، ان سے آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن کی ملاقاتیں ہو چکی ہیں طارق بشیر چیمہ کی بھی اڑھائی منٹ عمران خان سے ملاقات ہوئی ہے چوہدری برادران کی رہائش گاہ پر رونقیں لگ گئی ہیں سر دست بلوچستان عوامی پارٹی کے تیور بھی بدلے بدلے نظر آرہے ہیں بلوچستان عوامی پارٹی کے وفد نے خالدمگسی کے بغیر وزیر اعظم سے ملاقات کرنے انکار کر دیا ہے اسپیکر آفس نے تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ اور بحث کے لئے قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا تاہم اسپیکر کر کام 22مارچ 2022ء تک ہر صورت تحریک عدم اعتماد پر کارروائی پوری کرنی ہوگی، حکومت نے تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے روز پارلیمنٹ ہائوس کے باہر اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کرنے کا اعلان کر دیا ہے پی ٹی آئی کی قیادت نے فیصلہ کیا ہے اس کا ایک رکن تحریک عدم اعتماد کے روز اجلاس میں شرکت کرے گا باقی ارکان کو اجلاس میں شرکت سے روک دیا جائے گا اس طرح تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کی کوشش کی جائے گی عمران خان تحریک عدم اعتماد پر خاصے مشتعل ہیں انہوں نے آصف علی زرداری کو اپنی بندوق کی نوک پر رکھنے کا اعلان کیا۔ پارلیمنٹ لاجز میں پولیس اور جے یو آئی کے کارکنوں میں تصادم ہو چکا ہے، ووٹنگ کے روز ارکان قومی اسمبلی کو روکنے کی کوشش میں شدید تصادم کا امکان ہے اس صورت حال میں تیسری قوت کی مداخلت ہو سکتی ہے۔

تازہ ترین