عہدِ حاضر میں تو نہیں مل رہے وہ عوام اور قائدین جو دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں۔ کیا ایسا ممکن بھی ہے؟ دیکھئے انیس بیس کے فرق کے ساتھ دوسری اور تیسری صف کے سب سیاست دان ایک ہی سے ہیں۔ سیاست کے اماموں میں شاید بڑا فرق مل جائے مگر وہاں بھی خوبیاں اور خامیاں جمع کرنے کے بعد مجموعی مقدار سے تقسیم کریں گے، تو کافی کچھ ملتا ملاتا ہی ملے گا۔ اسی لیے ہم سیاست دانوں کی تر دامنی دیکھ کر اس تقاضے میں نہیں پڑتے کہ ان کے بدن کو نچوڑ کر دیکھیں کہ فرشتے وضو کرتے ہیں یا بھاگ جاتے ہیں!
جب کبھی آتش پر جوانی تھی تو یہ وکالت کرتا پھرتا تھا ’’بوڑھوں کو نوکریوں میں ریٹائرمنٹ کے بعد توسیع کیوں مل جاتی ہے؟ یہ جوانوں کا حق مارتے ہیں، یہ انتہائی غلط ہے!‘‘ جب آتش اور آتش کدہ راکھ کا ڈھیر ہوا، تو کہنے لگے: ’’ تجربے کا کوئی نعم البدل نہیں !‘‘ بس انہی تضادات میں شب بیت گئی اور چراغِ سحر ہونے کے درپے ہے۔ کبھی روس زہر اور امریکہ امرت دھارا لگتا تھا، ابّا کہتے روس گرم پانیوں تک رسائی چاہتا ہے سو افغانستان پر قبضے کا خواہاں، اس ضمن میں امریکہ دوست ہے اور مسیحا بھی، حالانکہ ابّا یہ بھی کہتے بھٹو کو امریکہ نے تخت سے تختہ دار تک پہنچایا۔ پتہ نہیں ابّاکہا غلط تھے یا صحیح، پھر ابا کو لگا کہ، ضیائی دور میں ضیائی تالیف ہے سو ضیا مومن مگر بھٹو بھٹو تھا۔ یہاں بھی سلسلہ ٹوٹا نہیں تھا درد کی زنجیر کا، اور ابّا کو مشرف کی روشن خیالی پر پیار آنے لگا اور ہم ابّا جی کے تجزیوں ہی پر اکتفا کرنے لگے، ابّا کے ووٹ ہی میں سب کا ووٹ ہوتا تھا، کیونکہ اس وقت کسی کا ابا جماعت اسلامی کا رکن ہو یا جیالا یا پاکستان بنانے والا اس کے مقابلے پر کوئی عمران خان نہیں ہوتا تھا جو غلام احمد بلور کا پوتا دن بھر گھر میں بلے پر مہر لگانے کے معصوم نعرے لگاتا پھرے۔ ہمارے بھول پن اور بانکپن کا ابّا ہی ابّا ہوتا تھا اور یہ ایک غیر سیاسی و اصولی فیصلہ ہوا کرتا تھا، رفتہ رفتہ سیاسی ارتقاء بیالوجیکل ابّا سے سرکا اور سیاسی ابّا تک جا پہنچا۔ یوں سیاست دان نے جسے ابّا مانا کارکنان کو بھی وہی ابّا، ابّا ابّا سا لگنے لگا کیونکہ سیاست میں پھل اس آبا پَرَسْتی ہی میں لگنے لگا تھا۔
اب جب ہم ابّا ہیں تو کھلا یہ راز کہ، مشرف گر ضیائی دور میں ہوتا تو مومن مومن سا ہوتا، اور ضیاء مشرف دور میں ہوتا تو روشن خیال ہوتا۔ یعنی گلوبل ویلیج ہو کہ پنڈ اپنا سیاسی معاملہ ’’ضروریاتی‘‘ زیادہ ہوتا ہے نظریاتی کم لیکن یہ ہمارا ابّاازم مانتا کون ہے؟ ابّا تو وہی ہوتا ہے جو اقتدار دلوائے یا بچائے۔ گھر کا ابّا ذائقے میں دال برابر، اگر تھوڑی بہت عزت بچی ہوئی ملے تو سمجھئے معاشی طور سے ابّا اے ٹی ایم مشین برابر، وہ بھی ہر ابّا کی قسمت میں کہاں ہے اے ٹی ایم ہونا ! یونہی سمجھ لیجئے ،سیاسی ابّا کا جہاں اور ہے معاشی ابّا کا جہاں اور !
آج کل چمن میں تحریکِ عدم اعتماد کے پھول کھلنے کے درپے ہیں، نہیں معلوم یہ تحریکِ عدم اعتماد کی کلیاں اور شگوفے چٹخ کر پھول بنتے ہیں یا نہیں کیونکہ : کہاں قسمت میں اس کی پھول ہونا / وہی دل کی کلی ہے اور ہم ہیں۔ چلو کوئی شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین، پرویز الٰہی، علیم خان یا مولانا سا شگوفہ چٹخ کر پھول بن بھی جائے تو ہر پھول کی قسمت میں کہاں نازِ عروساں؟ علوم ابّا شناسی کے تناظر میں، کچھ پھول تو کھلتے ہیں مزاروں کے لیے ! اس تحریکِ عدم اعتماد کو جانے چشم فلک دیکھنے میں کامیاب ہو نہ ہو مگر تحریکِ عدم برداشت کو دیکھ لیا۔
سیاست دانوں پر الزام ہے کہ یہ حرص و ہوس کے پجاری ہیں، بدعنوان ہیں اور جانے کیا کیا، مگر ہم نے ان گنہگار آنکھوں سے دیکھا جنہوں نے عمران خان کے دھرنے، سول نافرمانی کے اعلان، ٹائیگر فورس کی حرکتوں، بلوں کے جلانے اور پارلیمنٹ پر حملے کو عبادت اور سعادت قرار دیا، انہوں نے مولانا فضل الرحمٰن کے احتجاج، پارلیمانی لاجز میں داخلے اور رضاکاروں کو گناہ کبیرہ قرار دیا۔ اور یہ عوام ہی تھے! سچ بتائیے ہم عوام قلابازیوں اور من پسند اصولوں میں سیاستدانوں سے کم ہیں؟ صدقے جائیں جنابِِ شیخ کی دھرنا فرمانیوں پر اور اب پھر صدقے جائیں جنابِِ شیخ کی بطورِ وزیر شعلہ بیانیوں پر۔ اجی ہمیں بھی کوئی سیدھا الٹا کا صحیح رخ بتائے گا؟ جنابِِ شیخ کی اداؤں پر اپنے آپ ہی پر درد کا یہ شعر پہن لیں:
تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں
جو تر دامنی ہم مُرشدوں میں دیکھنے نکلے تھے وہ تو کہیں نہیں ملی۔ زرداری کا بیٹا ’’کانپیں ٹانگ‘‘ پر آ جائے تو بلاول کے ابّا کو وزیر اعظم کہتے ہیں بچے کی ’’اڑدو‘‘ ٹھیک نہیں۔ کیا سمجھے کوئی اس دور کے زبان و بیاں اور دستورِ زباں بندی کو؟ گر زرداری نے وزیراعظم سے سیاسی یا گھریلو ٹوٹکا کی پاداش میں ابّاازم اور فرزندانِ توحید کا پوچھ لیا تو ؟ یا حلف کے دن کے روزِ قیادت اور روزِ قیامت میں فرق کا پوچھ بیٹھے تو طبع نازک پر کیا گزرے گی ؟
74 برسوں سے دائروں کا سفر ہے پولیٹکل سائنس ہو یا سائنس و ٹیکنالوجی 'تعلیم بڑھ گئی مگر ریسرچ پیوندِ خاک ہوگئی۔ گلوبل ایمرجنگ ٹرینڈز فراموش کر کے ہمارے وزیراعظم اور اپوزیشن قیادت خود احتسابی، انجینئرنگ و سائنس و ٹیکنالوجی اور سوشل سائنسز کے جنازے پر اِملا کی تختی لکھ رہی ہے۔ جن اقوام نے قیادت کے قول و فعل کا محاسبہ کیا وہی بدعنوانی کا تدارک اور جمہوریت کو کانٹوں سے بچا پائیں جہاں عوام کے دامن نچوڑنے پر فرشتے وضو کریں وہیں قیادت کے دامن نچوڑنے پر فرشتے وضو کرتے ہیں۔انسانیت ہو تو فرشتگی بھی قدم چومتی ہے، سب تبدیلیاں اور سب اعتماد و عدم اعتماد اس وقت تک محض راگ راگنی اور درباری راگ ہیں جب تک قوم اور قیادتیں اپنا قبلہ درست اور حقیقی جمہوریت کا تعین نہیں کرتیں!