• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریک عدم اعتماد کے نتائج تین صورتوں میں سامنے آ سکتے ہیں، یا تو عدم اعتماد کا ووٹ کامیاب ہوگا یا ناکام یا پھر یہ عمل ہی سوالیہ نشان بن کر رہ جائے گا۔ہمارے وزیر اعظم اور اُن کے معاونین کی اب تک کی تقاریر اور ردِ عمل(جس میں سیاسی درجہ حرارت میں تیزی سے اضافہ بھی شامل ہے) اِس بات کا طرف اشارہ کرتاہےکہ وہ نہ تو اعتماد کی پوزیشن میں ہیں اور نہ ہی مضبوط پوزیشن میں، گزشتہ روز ہی وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا بیان سامنے آیا ہے کہ اگر اپوزیشن عدم اعتماد کا ووٹ واپس لیتی ہے تو حکومت بھی مفاہمت کی طرف آ سکتی ہے۔عمران خان جانتے ہیں کہ اُن سے اختلاف رکھنے والے بھی پارٹی میں موجود ہیں (جو عمران خان کی اپنی پالیسیوں کی وجہ سے ہی اُن سے اختلاف کرتے ہیں) اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ان کے سب سے بڑے اتحادیوں نے بھی ان کے ساتھ کھڑے ہونے کی کوئی ضمانت نہیں دی۔اگر عمران خان واقعی پُراعتماد ہوتے تواب تک یہ خاک چھان لی جاتی اور عدم اعتماد کا ووٹ بھگتا لیا گیا ہوتا ۔ وہ پہلے کسی ایسی جنگ سے پیچھے نہیں ہٹے جس کے بارے میں انہیں یقین تھا کہ وہ جیت جائیں گے، سینیٹ کے چیئرمین کا عدم اعتماد کا ووٹ یاد ہے؟

حکومت کی موجودہ حکمت عملی اِس عمل پر سوالیہ نشان اُٹھانے یا اسے تاخیر کا شکار کرنا نظر آتی ہے۔اگر عدم اعتماد ہوجاتا ہے تو حکومت اُسے جیتنے کے تمام ممکن جتن کرے گی ،اور اگر ہار بھی گئی تو نتائج کو قبول کرنے سے احتراز کے طریقے تلاش کرے گی۔ایسی صورت میں آئینی بحران نوشتہ دیوار ہے۔

حکومت کوشش کرے گی کہ اس عمل کو زیادہ سے زیادہ دیر تک موخر کیا جائے اور اس دوران اپنے اتحادیوں اور ناقدین کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کی جائے ۔تاہم، کیونکہ ووٹ کو ایک مقررہ مدت کے اندر پارلیمنٹ میں جانا ہوتا ہے، اگر حکومت عدم اعتماد جیت جاتی ہے، چاہے وہ کسی بھی قیمت پر جیتتی ہے تو حکومت نے پہلے ہی اپنے عزائم سے آگاہ کر دیا ہے کہ وہ انتقام لینے کی کوشش کرے گی، اگر پیکا آرڈی نینس میں ہونے والی ترمیم آنے والے دِنوں میں ہونے والی چیزوں کا کوئی ٹریلر تھا ،تو آنے والے دِنوں میں کچھ بھی اچھا نہیں ہونے جا رہا۔اِس لیے عدم اعتماد میں حکومت کی جیت کی صورت میں بھی ملک، جمہوریت ، صحافت اور آزادیٔ اظہارِ رائے کیلئے ایک نیا خطرناک موڑ آ سکتا ہے۔اب حکومت کے لیے دوسرا مسئلہ یہ درپیش ہے کہ اگر وہ عدم اعتماد کے ووٹ سے بچ بھی جاتی ہے تو پھر بھی کوئی ایسا طریقہ نہیں کہ وہ ڈیڑھ سال کے اندر جادوئی طور پر عوام کو کچھ ڈیلیور کر سکے یا اپنی کارکردگی بہتر بنا سکے جو وہ پچھلے ساڑھے تین سال میں نہیں کر سکی۔وہ صرف اپوزیشن کو نیست و نابود کرنے کی کوشش کرے گی، یا شہباز شریف کے الفاظ میں وہ اپوزیشن کو ’’دیوار میں چنوا دیں گے‘‘۔ لیکن، طاقتور حلقوں کے تعاون کے بغیر یہ اتنا آسان نہیں ہوگا جتنا پہلے تھا، اس لیے چیزیں پہلے سے کہیں زیادہ غیر مستحکم ہوں گی۔

لیکن اگر عمران خان ہار جاتے ہیں تو کیا ہوگا؟وزیر اعظم کے ارادے صاف دکھائی دے رہے ہیں، وہ ڈی چوک کے باہر بڑی ریلیاں اور دس لاکھ لوگوں کا اجتماع کرنا چاہتے ہیں(جس کا مقصد یہ باور کروانا ہے کہ حکومت سے نکالے جانے کے باوجود لوگوں کی اکثریت میرے ساتھ ہے)جیسا کہ عمر ان خان کی باتوں اور انداز سے ظاہر ہوتا ہے، اگر وہ پُرامن طریقے سے نہ جانے کا انتخاب کرتے ہیں اور اقتدار کی پُرامن منتقلی نہیں ہوتی،تو یہ صورتحال آئینی بحران کا باعث بن سکتی ہے جو پہلے سے ہی کمزور جمہوری عمل کو مزید کمزور بنا اور پٹڑی سے اتار دے گا۔بالکل ویسے ہی جیسے ڈونلڈ ٹرمپ نے 2020کا الیکشن ہارنے کے بعد جنوری 2021میں کرنے کی کوشش کی تھی۔ وہ وقت امریکی جمہوری تاریخ کا سیاہ ترین دور تھا، اور یہ ہمارے لیے بھی ایک ایسا ہی وقت ثابت ہو سکتا ہے۔گزشتہ ایک دہائی کے دوران پاکستان میں جمہوری طاقت میں پہلے ہی کمی آئی ہے اور اس سے معاملات مزید خراب ہوں گے۔ دوسری طرف پُرامن طریقے سے اقتدار چھوڑنے کا کریڈٹ وزیراعظم گیلانی اور نواز شریف دونوں کو جانا چاہیے۔اسی طرح، اگر سپیکر قومی اسمبلی پی ٹی آئی کے اراکین کے ووٹوں کی گنتی نہ کرنے کا انتخاب کرتے ہیں جیسا کہ وفاقی وزراء کی طرف سے اشارہ دیا گیا ہے، تو یہ عدالتوں میں طویل لڑائی لڑنے کا باعث بنے گا اور بصورت دیگر جمہوری عمل کو ایک بار پھر کمزور کر دے گا۔لیکن اِس حوالے سے تازہ ترین خبر یہ ہے کہ قومی اسمبلی کے لیگل ڈپارٹمنٹ نے کہا ہے کہ ایسے تمام ووٹ گنتی میں شامل کیے جائیں گے اور ایسے اراکین کیخلاف تب تک کوئی کارروائی نہیں کی جا سکتی جب تک وہ حکومت مخالف ووٹ نہیں ڈالتے۔

ہمیں اِس سے بھی سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، وزیر اعظم نے اقتصادی اور خارجہ دونوں محاذوں پر جو عدم اعتماد کے ردِ عمل کے طور پر اقدامات کیے ہیں وہ ہمیں برسوں تک نقصان پہنچاتے رہیں گے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمیں آئی ایم ایف کی ضرورت ہے ، پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں کمی، ایک اور ایمنسٹی اسکیم، معاشی قرضے اور امدادی ریلیف واضح طور پر آئی ایم ایف پروگرام اور اس کے لیے ہماری قربانیوں سے متصادم ہے۔ہم نے صرف چند سال پہلے ہی ایسا کیا تھا جس کی ہمیں بھاری قیمت ادا کرنا پڑی، اس بار یہ قیمت ہماری معیشت اور ساکھ دونوں کے لیے بہت زیادہ ہوگی۔ اِسی طرح ہم عوامی اور سیاسی تحریکوں کو اپنی خارجہ پالیسی پر اثر انداز نہیں ہونے دے سکتے۔عوامی جلسوں میں مغرب مخالف بیان دے کر عوام میں پہلے سے موجود منفی جذبات کو اپنے حق میں استعمال کرنا خارجہ پالیسی کے اصولوں کے خلاف ہے۔

جمہوری دنیا میں عمومی طور پر عدم اعتماد کے ووٹ کی قیمت حکومت اور وزیر اعظم کو اقتدار سے محرومیت کی شکل میں چکانا پڑتی ہے لیکن یہاں لگتا ہے کہ حکومت اور وزیر اعظم کی وجہ سے ہم سب کوجمہوری عدم استحکام، کمزور معیشت اور ناقص خارجہ پالیسی کی صورت میں یہ بھاری قیمت چکانا پڑے گی جس پر حکومت اور وزیراعظم کا شکریہ!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین