• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فیض احمد فیض نے کہا تھا

نثار میں تیری گلیوں پہ اے وطن کہ جہاں

چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے

جھوٹ اور جبر کے سامنے سر جھکانے کی رسم تب بھی رائج تھی جب فیض کو جھوٹ اور ظلم کے خلاف مزاحمت کرنے کے جرم میں سزائے موت ہوئی تھی۔۔۔تاریخ کے سینے میں ایسی ہزاروں داستانیں محفوظ ہیں۔۔۔جن میں مزاحمت کی صحافت پر یقین رکھنے والوں کو نشان عبرت بنانے کےلئے ریاستی طاقت کا غیر آئینی استعمال کرتے ہوئے جمہوری اقدار کی نفی کی جاتی رہی۔۔۔

فیض احمد فیض سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ آج بھی پورے شدومد کے ساتھ جاری ہے۔۔۔

بہت طویل سفر ہے سچائی کا راستہ چننے والوں کے لئے، کبھی نہ ختم ہونے والا راستہ۔۔۔پر خار اور پر خطر راستہ۔۔۔جہاں ہر قدم پر بھیڑیوں کا سامنا ہوتا ہے لیکن منزل کا کچھ پتہ نہیں ہوتا۔۔۔فیض کے بعد اس سیدھے لیکن پر خطر راستے پر ناصر زیدی، نعیم ہاشمی، اقبال جعفری اور مسعود اللہ خان کو مزاحمتی صحافت کا راستہ چھوڑنے سے انکار پر ایک راہزن کی حکومت نے قید اور کوڑوں کی سزائیں دیں۔۔۔پھر یہ سلسلہ اسی انداز میں چلتا رہا۔۔۔جو صحافت کی تاریخ میں بدترین مثال کے طور پر رقم رہے گی۔۔۔حکومتیں بدلتی رہیں لیکن حکمرانوں کے اطوار نہیں بدلے۔۔۔

عہد حاظر کی تاریخ کے اوراق پر حامد میر، طلعت حسین، نصرت جاوید، عمر چیمہ، سلیم صافی، ابصار عالم، مطیع اللہ جان، احمد نورانی، فخر درانی، عامر میر، عمران شفقت، اسد طور، عجیب علی لاکھو، شاہزیب گیلانی، محسن بیگ، میر شکیل الرحمان اور مبشر زیدی سے ہوتا ہوا عاصمہ شیرازی تک جا پہنچتا ہے۔۔۔ جس کا بولنا اور لکھنا حکمران طبقہ کو مواقف نہیں کیونکہ وہ مزاحمتی صحافیوں کے قافلے میں شامل ہے۔۔۔عاصمہ شیرازی کا شمار ان منفرد اور صاحب کمال صحافیوں کے کنبے میں ہوتا ہے۔۔۔جو بے خوف و خطر سچ کے ساتھ کھڑا ہونا عبادت سمجھتا ہے۔۔۔حکمران طبقہ جھوٹ کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کو اپنا اور اپنے عارضی اقتدار کا دشمن تصور کرتا ہے۔۔۔اور انہیں ریاستی طاقت کے ذریعے دبانے اور خاموش کرنے کےلئے ان کے خلاف صف آراء ہو جاتا ہے۔۔۔ان کی سوشل میڈیا بریگیڈ اور ترجمانوں کا گروپ حرکت میں آ جاتا ہے اور ہر جائز ناجائز، ہر قانونی اور غیر قانونی، ہر مہذب اور غیر مہذب اور ہر اخلاقی اور غیر اخلاقی ذریعہ استعمال کرتے ہوئے اس کے خلاف 'فیک نیوز پھیلانا شروع کر دیتے ہیں۔۔۔یہی کچھ انہوں نے عاصمہ شیرازی کے خلاف بھی کیا اور معاشرے میں بدنام کرنے کےلئے کوئی کثر نہیں چھوڑی۔۔۔اسے ٹیلیفونک دھمکیوں کے ذریعے ہراساں کرنے کے ساتھ ساتھ سرکاری فورمز سے پریس کانفرنسوں میں اسے گناہگار قرار دیا۔۔۔اور اپنے مقاصد حاصل کرنے کےلئے اقلیتی فرقوں کو اکسایا۔۔۔اور انہیں گمراہ کرنے کی کوشش کی۔۔۔عاصمہ شیرازی کا یہ تھا اس نے میاں نواز شریف اور مریم نواز کا انٹرویو کیا تھا جو حکومت کے لئے قابل قبول نہیں تھا اور اسے ریاستی طاقت کے ذریعے رکوا دیا گیا تھا۔۔۔

ہر دور میں مزاحمت کاروں کی زبانیں کاٹی جاتی رہی ہیں۔۔۔یہ سلسلہ طویل عرصہ سے جاری ہے اور آخری فرعون کے آخری سانس تک جاری رہے گا۔۔۔ہر دور میں سچ کا ساتھ دینے والوں کی زبان بندی کے لئے ڈریکونین لاء بنتے رہے۔۔۔انہیں ان جابرانہ قوانین کے تحت سزائیں دی جاتی رہیں اور انہیں مٹانے کی کوششیں کی جاتی رہیں۔۔۔لیکن انہیں مٹانے والے خود مٹ گئے۔۔۔یہی نظام قدرت ہے۔۔۔

پھر وہ وقت بھی آگیا جب ریاست کے چوتھے ستون کی اس طرح تذلیل کی گئی کہ انہیں دہشت گرد تصور کرتے ہوئے انہیں انسداد دہشت گردی ڈیپارٹمنٹ (CTD) کے ذریعے اٹھوایا گیا اور دہشتگردی کی عدالتوں میں ان کے مقدمات کی سماعت ہوئی۔۔۔

ہر دور کا حکمران اپنے منشور پر عمل پیرا ہوتا ہے لیکن اس منشور میں اپنے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو ریاستی طاقت کے زور پر دبانے پر گزرے ہوئے حکمرانوں سے متفق ہوتا ہے۔۔۔ہر حکمران سمجھتا ہے کہ اقتدار ان کی دائمی ملکیت ہے لیکن یہ صرف کل جہانوں کے رب کی صفت ہے۔۔۔ وہی مالک و مقتدر و مختار ہے۔۔۔تہمت لگانا اس کے نزدیک بدترین فعل ہے۔۔۔

تازہ ترین