• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جب یورپ اپنے صدیوں پر محیط سیاہ دور سے نشاة ثانیہ کا سفر طے کر رہا تھا تو وہاں علم کی عزت اور توقیر شروع ہو رہی تھی اور ہمارے ہاں علم کی بے توقیری بڑھ رہی تھی۔ انگلستان کی آکسفورڈ یونیورسٹی1157ء اورکیمبرج یونیورسٹی 1207ء کو قائم کی جا چکی تھیں اور ان یونیورسٹیوں کی علمی خدمات نے نہ صرف انگلستان بلکہ پوری دنیا کا نقشہ بدل کے رکھ دیا۔ یونیورسٹیوں کے ساتھ ساتھ کتب خانوں کا قیام سولہویں صدی عیسوی سے شروع ہو چکا تھا ۔1598ء میں ویل باؤرن کے قریب فرانسس ٹرائج لائبریری قائم ہوئی۔ 1608ء کو ناروچ سٹی لائبریری قائم ہوئی۔ اس کے بعد چھوٹی بڑی لائبریریوں کا سلسلہ پورے انگلستان میں پھیل گیا۔ علم کی قدر اور فروغ کا عمل انگلستان کے عالمی طاقت بننے سے کئی صدیوں پہلے شروع ہو چکا تھا۔اٹلی میں پہلی لائبریری میلاٹیسٹا 1452ء میں قائم ہو چکی تھی۔جب یورپ کی سفید فام نسل نے امریکہ ، کینیڈا ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ آباد کئے تو وہاں بھی فوری طور پر لائبریریوں اور یونیورسٹیوں کا ایک سلسلہ شروع کیا۔1636ء میں امریکہ میں ہارورڈ یونیورسٹی کا سنگِ بنیاد رکھا گیا تو 1779ء میں کینیڈا کی پہلی لائبریری کیوبک سٹی میں قائم کی گئی جبکہ اسی عرصہ میں برصغیر میں کوئی بڑی اور قابلِ ذکر یونیورسٹی اور لائبریری تعمیر نہیں ہوئی۔ علم و تحقیق سے جیسے ہمارے ان حکمرانوں کا کوئی واسطہ ہی نہ تھا۔ سولہویں اور سترہویں صدی میں یورپ اور برصغیر میں جو ترجیحات متعین ہو چکی تھیں ان کا لازمی نتیجہ یورپ کی دنیا پر حکمرانی اور برصغیر اور اس کے حکمرانوں کی رسوائی کی شکل میں نکلنا تھا۔ جیسے سولہویں اور سترہویں صدی کی ترجیحات نے اکیسویں صدی میں ہماری قسمت کا فیصلہ لکھا، اسی طرح اکیسویں صدی کی ہماری ترجیحات چوبیسویں اور پچیسویں صدی میں ہماری نسلوں کے مستقبل کی بنیاد رکھ رہی ہیں۔ اگرچہ ایشیاء میں بھی ہمیں ایک نشاة ثانیہ کی لہر نظر آ رہی ہے اور صدیوں کی غلامی کے بعد اب ایشیاء دنیا میں برابری کی سطح پر ابھر رہا ہے بلکہ ایشیاء کے بعض ممالک اور قومیں تو عالمی طاقت کے طور پر سامنے آ رہی ہیں لیکن ہمارے ہاں ایشیاء کی اس نشاةثانیہ کا کوئی اثر نہیں ہوا اور نہ ہی ہمارے اندر ایسی کوئی تحریک یا لہر نظر آ رہی ہے جس سے امید کی کرن پیدا ہو سکے لیکن ہماری حالت یہ ہے کہ ہمیں احساس تو کیا احساسِ زیاں تک نہیں ہے۔
دنیا کی واحد سپر پاور امریکہ میں اس وقت تقریباً ایک لاکھ تئیس ہزار سے زیادہ عوامی کتب خانے ہیں اور بڑے کتب خانوں میں کتابوں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ امریکہ کی دس بڑی لائبریریوں میں کتابوں کی تعداد بارہ کروڑ سے زیادہ ہے۔ سب سے بڑی لائبریری کانگرس کی لائبریری ہے جس میں سوا تین کروڑ کے قریب کتب موجود ہیں۔ اس لائبریری کا سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ امریکہ کے منتخب نمائندوں کے پاس یہ سہولت ہونی چاہئے کہ اگر انہیں دنیا کی کسی بھی کتاب کی ضرورت پڑ جائے تو انہیں فوری طور پر دستیاب ہو سکے اور ماشاء اللہ ہمارے بیشتر منتخب نمائندوں کو تو کتابوں کی ضرورت ہی نہیں پڑتی ۔ ہمارے منتخب نمائندوں کو تو کام چلانے کیلئے ایس ایچ او، پٹواری اور دو چار سرمایہ لگانے والے رفقاء ہی کافی ہیں۔چین میں اس وقت اکاون ہزار سے زیادہ پبلک لائبریریوں میں پینتالیس کروڑ سے زیادہ کتب موجود ہیں۔ چین کی سب سے بڑی لائبریری نیشنل لائبریری آف چائنا میں دو کروڑ ساٹھ لاکھ کتب موجود ہیں۔ جاپان میں کل پبلک لائبریریوں کی تعداد بتیس سو سے زیادہ ہے اور ان میں بتیس کروڑ سے زیادہ کتب موجود ہیں۔ 2010ء میں پانچویں جماعت تک کے جاپانی بچے نے ان لائبریوں میں سے اوسطاً چھبیس کتابیں دیکھیں۔ بھارت میں 1957ء میں ڈاکٹر اے پی سنہا کی سربراہی میں ایڈوائزی کمیٹی آف لائبریریز بنی۔ حالیہ اندازوں کے مطابق بھارت میں تیس ہزار سے زیادہ پبلک لائبریریوں میں چار کروڑ کے قریب کتب موجود ہیں۔ اب ذرا دل تھام لیجئے،پاکستان میں کل چار سو پبلک لائبریریوں میں ساڑھے آٹھ لاکھ کے قریب کتب ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ایک عام پڑھا لکھا پاکستانی اسکول میں غلط سلط اور تنگ نظری پر مبنی جو تصورات بنا لیتا ہے ان میں پھر ساری زندگی بہتری کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔
جہاں امریکی کانگریس کی لائبریری میں دنیا جہان کی سیکڑوں قوموں کی ہزاروں زبانوں میں لکھی جانے والی کروڑوں کتب موجود ہیں وہیں مجھے پاکستان کے ایک انتہائی اہم مدرسے کے مفتی صاحبان کا کتب خانہ دیکھنے کا موقع ملا۔ مجھے تو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔ عالمی استعماری اور طاغوتی طاقتوں کو شکست دینے کیلئے فکری جہاد جاری رہتا ہے،اس متعلقہ کتب خانے میں چند سو سے زیادہ کتابیں موجود نہیں تھیں۔ میرے اندازے کے مطابق امریکی کانگریس کی لائبریری میں اس درس گاہ کے مفتی صاحبان کے کتب خانے میں موجود اسلام پر مستند ترین کتابوں سے ہزاروں گنا زیادہ کتابیں موجود ہوں گی۔ اسلام آباد میں کتب خانوں کی حالت اتنی ناگفتہ بہ ہے کہ بیان سے باہر ہے۔ پاکستان کے دارالحکومت میں ایک نیشنل لائبریری آف پاکستان ہے جس میں تقریباً ایک لاکھ تیس ہزار کے قریب کتب موجود ہیں۔ یہ لائبریری پاکستانی معیار کے مطابق مناسب سہولتوں سے آراستہ ہے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے یہ ایک قومی سطح کی لائبریری ہے لیکن پاکستان کے دارالحکومت کی پبلک لائبریریوں کی مجھے بڑے عرصے سے تلاش تھی۔ آج تک پبلک لائبریری تو نہیں ملی لیکن کچھ روز پہلے مجھے معلوم ہوا کہ اسلام آباد میں پانچ چھ چھوٹی چھوٹی کمیونٹی لائبریریاں موجود ہیں، یہ جان کر بہت خوشی ہوئی۔سو اپنے گھر کے قریب ایف الیون کی لائبریری دیکھنے چلا گیا۔ لائبریری کیا ہے، ایک چھوٹا سے ہال ہے جس میں چارپانچ ہزار کے قریب کتب بے ترتیبی سے پڑی ہیں۔ نہ کوئی کیٹلاگ، نہ کوئی ڈھنگ کی بیٹھنے کی جگہ۔کچھ کمپیوٹر ڈبوں میں بند پڑے ہیں۔ پنکھا چلانے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ 2010ء سے اس کی بجلی ٹرانسفارمر جلنے کی وجہ سے منقطع ہے اور پانی یا گیس کا تو کبھی کنکشن ملا ہی نہیں۔ ایک اسسٹنٹ ڈائریکٹر لائبریرین ہے جو خود ہی اسٹاف بھی ہے، نائب قاصد بھی، صفائی کرنے والا بھی اور چوکیدار بھی۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ پچھلے مہینے قریبی مزار کے لوگ آئے تھے اور لائبریری خالی کرنے اور چابی ان کے حوالے کرنے کی فرمائش کرنے لگے کہ ان کے بقول وہ سرکاری جگہ ان کی ملکیت بن چکی تھی۔ لائبریری کے سامنے اپنے گیٹ بھی نصف کر چکے تھے اور قبضہ تقریباً مکمل تھا کہ سی ڈی والے ایک دن ان کا گیٹ اکھاڑ کر چلے گئے۔اس لائبریری کے اوسط قارئین کی تعداد پانچ چھ کے قریب ہے۔ مزید معلوم ہوا کہ جی ایٹ اور آئی ٹین کی کمیونٹی لائبریریوں کی بجلی بھی اسی طرح منقطع ہے۔
آنے والی صدیوں میں ہمارے ساتھ کیا ہونے والا ہے، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ ذرا سوچئے کیا ہم اس طرح کے مستقبل کو تسلیم کر سکتے ہیں۔ عظیم قوم بننے کاخواب دیکھنا ہمارا حق ہے کہ خواب ہمیشہ بڑے دیکھنے چاہئیں لیکن یہاں تو صرف قوم بننے کا خواب بھی بہت بڑا معلوم ہوتا ہے۔عظیم قوم بننے کا راستہ ہمارے لئے صدیوں سے کھلا ہے، صرف ہمیں اپنی ترجیحات کے بارے میں فیصلہ کرنا ہے۔
تازہ ترین