• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عام لوگوں کا خیال ہے کہ اسلام آباد جو ملک کے سب سے طاقتور سیاسی حکمرانوں اور افسران کا شہر ہے میں قانون کی پابندی سب سے زیادہ کی جاتی ہے۔ یہ خیال کسی حد تک درست ہے۔مگراسی وفاقی دارالحکومت میں ہی سب سے زیادہ غیر قانونی کام جن میں بھر پور رشوت موجود ہوتی ہے بھی کئے جاتے ہیں۔ ان میں بہت سے تو ہم سب کی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔ کچھ تھوڑی بہت کی سن گن مل جاتی ہے ۔ تاہم اس شہر میں کچھ غیر قانونی کام ایسے ہیں جو سالہا سال سے سب کے سامنے جاری ہیں مگر ہر ایک نے اپنا سر ریت میں چھپا رکھا ہے اور اپنی قانونی اور آئینی ذمہ داری پوری کرنے کیلئے تیار نہیں۔ وہ ہے مسئلہ سرکاری زمین پر تجاوزات کا جو نہ صرف قانون بلکہ اس کے نافذ کرنے والوں اور بلند و بانگ نعرے لگانے والوں کا منہ چڑا رہے ہیں۔ کبھی کبھار بددلی سے تجاوزات کے خلاف آپریشن کیا جاتا ہے مگر صرف آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے اصل لینڈمافیا جسے کوئی بھی نہیں چھیڑ سکتا اپنے غیر قانونی دھندے میں زور و شور سے مصروف رہتی ہے۔ اسلام آباد کے 2سیکٹرز ایف 12اور جی 12لے لیں۔ کئی دہائیاں قبل کپیٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی( سی ڈی اے) نے اسے ایکوائر کیا اور زمین کے مالکان کو معاوضہ بھی دے دیا ۔ تاہم کچھ تنازعات باقی تھے جن کو حل کرنے میں مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا گیا لہٰذا مسئلہ لٹکتا رہا اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ سی ڈی اے نے ان سیکٹروں کو بالکل بھلا کر ناجائز قابضین کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ اب اسلام آباد کے ماتھے پر ایف 12اور جی 12تجاوزات کے اعلیٰ شاہکار بن چکے ہیں جہاں تیزی سے تعمیرات ہو رہی ہیں جو شاید ہی اسلام آباد کے کسی حصہ میں ہوں۔ یہ تجاوزات کوئی عام آدمی نہیں کر رہا ہے بلکہ ایک منظم مافیا ہے جو سارے کھیل کے پیچھے ہے اسے کوئی روکنے کا سوچتا بھی نہیں ۔
سی ڈی اے کی بے بسی کا عالم دیکھئے کہ اس نے ایف 12کاقبضہ نہ حاصل کر کے ایف سیریز کو ایف 11سے اسلام آباد کو آگے بڑھانے کا پلان سرے سے ہی ترک کر دیا ہے جی سیریز کے بارے میں بھی اس کی پالیسی اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ مجرمانہ غفلت کا ارتکاب کیا گیا ہے تاہم اس ادارے کا محاسبہ نہیں کیا گیا۔ گزشتہ تیس سال کے عرصہ میں ایک درجن سے زیادہ چیئرمین آئے مگر کسی نے بھی ایف 12اور جی 12میں غیر قانونی تجاوزات کو ختم کر کے قبضہ لینے کی کوشش نہیں کی۔ مزے سے سرکاری وسائل کا استعمال کرتے رہے اور معمولی قیمت پر اپنے نام پلاٹ الاٹ کراتے رہے جومارکیٹ میں کروڑوں میں فروخت کرتے رہے ۔ نہ صرف یہ بلکہ وفاقی حکومت کے فیصلہ ساز اعلیٰ بیوروکریٹس یعنی فیڈرل سیکرٹری صاحبان بھی ایک ایک نہیں بلکہ دو دو پلاٹ اسلام آباد میں لیتے رہے مگر کسی کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ ایف 12اور جی 12کو بھی غیر قانونی قبضہ سے واگزار کرائے ۔ اپنی ناکامی کے بعد سی ڈی اے نے ان دونوں سیکٹروں کو لینڈ مافیا کے قبضہ میں ہمیشہ کیلئے چھوڑ کرکچھ سال قبل جی 13اور جی 14کو ترقی دے کر ان میں پلاٹ الاٹ کر دیئے۔ اس طرح ایف 11 اور جی 11سے آگے کم سے کم 2 مربع کلومیٹر کا علاقہ ناجائز قابضین کے پاس ہی رہنے دیاگیا۔اب خصوصاً جی 12میں بڑے بڑے محلات اور پلازے بن چکے ہیں اور ہر روز نئی تعمیرات جاری ہیں کوئی روکنے والا نہیں ۔جن کو بجلی اورگیس جیسی سہولتیں بھی میسر ہیں ۔ ان محکموں کا بھی احتساب ضروری ہے کہ کیسے انہوں نے غیر قانونی قابضین کو یہ کنکشن دے دیئے۔
اسلام آباد کے باخبر باسیوں میں کسی کو کوئی شک نہیں کہ وفاقی دارالحکومت میں تجاوزات کے پیچھے سی ڈی اے اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ان سیکٹروں کی ڈیولپمنٹ نہ ہونے کی وجہ سے اسلام آباد شہر اس طرح ترقی نہیں کر سکا جس طرح کہ اس کو پلان کیا گیا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق اگر سی ڈی اے ان سیکٹرز کو واگزار کرا لے تو اسے ایک سو ارب روپے (تقریباً ایک بلین ڈالر)کے لگ بھگ فنڈ مل سکتے ہیں۔ سی ڈی اے کی مالی حالت اتنی خراب ہے کہ اسے چند ماہ بعد ترقی یافتہ سیکٹروں میں بچے کھچے رہائشی اور کمرشل پلاٹ نیلام کر کے ہزاروں ملازمین کی تنخواہوں کا بندوبست کرنا پڑتا ہے۔ عملاً یہ ادارہ جو کہ سونے کا انڈہ دینے والی مرغی تھی بینکرپٹ ہو چکا ہے۔ سی ڈی اے کے نئے چیئرمین ایک نیک نام افسر ہیں مگر ابھی تک ان کی طرف سے بھی کوئی ہل جل سامنے نہیں آئی جس سے یہ پتہ چلے کہ وہ ایف 12اور جی 12کو ناجائز قابضین سے واگزار کرانا چاہتے ہیں۔یہ مکمل طور پر ان کے بس میں ہے اگر ان میں مصمم ارادہ ہو اور وہ مشکل کام کرنے کی نیت کر لیں۔ وزیراعظم نوازشریف جو مشکل فیصلے اور وہ کام کر گزرتے ہیں جن سے عام حکمران جان چھڑاتے ہیں کو چاہئے کہ وہ مداخلت کریں اور اسلام آباد کی ترقی بھی اسی طرح ہی کرنے میں دلچسپی لیں جس طرح انہوں نے لاہور شہر میں لی تھی۔ ان دونوں سیکٹروں کو ناجائز قابضین سے چھڑانے کیلئے وزیراعظم کو صرف چیئرمین سی ڈی اے کو نہ کہ اس ادارے کے دوسرے افسران اور عملے کو جو کہ ان تجاوزات کے جرم میں مکمل شریک ہیں کو حکم دینا چاہئے کہ وہ اس غیر قانونی کام کو ختم کرائیں۔اس کے ساتھ ساتھ وزیراعظم کو اسلام آباد کے منتخب نمائندے جن میں ایم این ایز اور سینیٹرز شامل ہیں کو بھی اس کام میں شریک نہیں کرنا چاہئے ورنہ وہ روڑے اٹکائیں گے۔ اگر ان دو سیکٹروں کو ناجائز قابضین سے خالی کرا لیا جائے تو شاید اسلام آباد میں بہت سے بڑے بڑے ترقیاتی منصوبے متعارف کرانے کی ضرورت ہی نہ رہے۔ اپنی پالیسی اور مزاج کے مطابق وزیراعظم کو اس بڑے کام کو کرنے کے لئے ایک مخصوص ٹیم جس میں ڈیلیور کرنے کی صلاحیت ہو بنانی چاہئے اور اسے وہ ایک خاص ٹائم فریم بھی دیں تو وہ اس کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکتے ہیں ۔ایسی ٹیم کوان سیکٹرز کا تمام ریکارڈ اپنے قبضے میں لینا چاہئے۔ پہلے مرحلے میں غیر قانونی قابضین سے بات کر ے اور پھر تمام قانونی اور ریاستی مشینری کو استعمال کرتے ہوئے ان سیکٹرز کو خالی کرائیں۔ اسلام آباد شہر میں ان تجاوزات کو جو میلوں میں پھیلی ہوئی ہیں کو بغیر تاخیر کے ختم کر دینا چاہئے۔
یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ وزیراعظم کی دعوت پر ملک کی تمام بڑی اور چھوٹی سیاسی جماعتوں نے آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کی اور انتہائی قابل ستائش متفقہ قرارداد منظور کی جس کی باٹم لائن طالبان سے مذاکرات کرنا ہے تاکہ ملک سے دہشت گردی کو ختم کیاجاسکے۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان جو حکومت کی ہر پالیسی پر نکتہ چیں رہتے ہیں ،نے بھی مکمل اعتماد کا اظہار کیا اور حمایت کی یہ ان کی سیاسی بلوغت کا اظہار ہے۔ اب مسئلہ اس قرارداد پر عمل درآمد ہے۔ ماضی میں بھی کئی ایسی کئی قراردادیں منظور کی گئیں مگر وہ صرف کاغذ کے ٹکڑے ہی ثابت ہوئیں۔ موجودہ قرارداد میں ڈرون حملوں کی سخت مذمت کی گئی ہے یہ پاکستانی قوم کی آواز ہے۔اقوام متحدہ میں اس مسئلے کو لے جانے سے پہلے پاکستان کو کئی بار ٹھنڈے دل سے سوچنا ہو گا کہ کیا وہ اس کے خلاف وہاں سے قرارداد منظور کرا سکے گا۔ اے پی سی کو احسن طریقے سے منعقد کرنے میں وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا اہم کردار رہا جو قابل ستائش ہے۔
تازہ ترین