• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نہ گل کھلے ہیں، نہ ان سے ملے، نہ مے پی ہے
عجیب رنگ میں اب کے بہار گزری ہے
چمن پہ غارت گلچیں سے جانے کیا گزری
قفس سے آج صبا بے قرار گزری ہے
کراچی میں ہونے والے آپریشن کی خبریں اخبارات میں پڑھ کر اور الیکٹرونک میڈیا میں دیکھ کر فیض احمد فیض کے یہ اشعار یاد آگئے سوچا قارئین کی نذر کردوں۔ دو روز قبل ہی بچوں کی طرف سے سیاستدانوں کے نام پیغام چل رہا تھا کہ کیا آپ ہم سے ناراض ہوگئے ہمیں روز اسکول جانا پڑ رہا ہے اور پھر دیکھا کہ آناً فاناً اسکولوں کی چھٹی ہوگئی اور بچے خوش ہوگئے۔ بچے معصوم ہوتے ہیں اور ہمیشہ نہیں تو اکثر ان کی چھوٹی چھوٹی خواہشات بہت جلد پوری ہوجاتی ہیں آل پارٹیز کانفرنس کے بعد صرف ایک دن کراچی میں ایسا آیا جس دن شہر کے کسی کونے سے کوئی نعش ملنے کی خبر نہیں ملی اس کے بعد سلسلہ دوبارہ شروع ہوگیا اور جاری ہے۔ شہر میں پولیس افسران کے تبادلوں سے یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ اب پولیس کی کارکردگی بہتر ہوجائے گی۔ ہماری دعا ہے کہ یہ تاثر سچا ثابت ہو اور پولیس کے نئے افسران ثابت قدم رہیں اور اپنی فورس کونئی سوچ دے کر کوئی نئی حکمت عملی اپنائیں جس سے سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ اگر پڑھے لکھے افسران غور و خوض کے بعد اپنی فورس کی صحیح سمت میں میرٹ پر رہنمائی کریں تو یہ کام کوئی مشکل نہیں ہے۔ آخر یہی پولیس پہلے بھی اس شہر کو چلاتی رہی ہے۔ نہ کوئی بھتہ تھا اور نہ کوئی مافیا۔ عام روزمرہ کے جرائم تھے اور وہ بھی جلد یا بدیر ملزم گرفتار ہوجاتے تھے اور قانونی چارہ جوئی ملزمان اور استغاثہ کی طرف سے ہوتی رہتی تھی۔ اب گزشتہ چند سالوں سے سارا نظام ہی تبدیل ہوگیا ہے پولیس کی قیادت جرائم کی سرکوبی کے لئے پس پشت چلی گئی ہے یا دوسرے لفظوں میں سوگئی ہے اور انگریزی میں کہتے ہیں ”فری فار آل“ یعنی جس کی جو مرضی ہے وہ کرے۔ اس کلچر نے گزشتہ چند سالوں میں جرائم کی دنیا سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو مالی طور پر بہت مضبوط کردیا ہے اور ان کے وسائل میں بے پناہ اضافہ کردیا ہے۔ اب نہ صرف ان کے پاس قیمتی گاڑیاں اور اسلحہ موجود ہے بلکہ ان کے پاس ان کی دولت کی وجہ سے افرادی قوت کی بھی کمی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ گھر بیٹھے اپنی فیلڈ فورس سے جرائم کا ارتکاب کرواتے ہیں۔ انہیں ہر طرح کا تحفظ دیتے ہیں۔ انہیں مالی اور سیاسی طور پر مضبوط کرتے ہیں اور گرفتاری کی صورت میں جیل میں تمام آسائشیں بشمول موبائل فون وغیرہ مہیا کی جاتی ہیں۔ جرم جرم نہیں رہا۔ کاروبار یا انڈسٹری بن گیا ہے۔ میں روزمرہ کی زندگی میں دیکھتا ہوں کہ گزشتہ دور میں نیب کی عدالتوں سے سزا یافتہ لوگ آج بڑی باعزت زندگی گزار رہے ہیں اور وہ تمام سوشل سرکلز میں نہ صرف موجود ہوتے ہیں بلکہ ان کو پذیرائی مل رہی ہوتی ہے کیونکہ اب بھی ان کے پاس دولت اور وسائل کی کوئی کمی نہیں۔ اگر سزا یافتہ ہیں تو کیا ہوا یہاں کون پوچھتا ہے۔ جب عزت کا معیار دولت بن جائے تو جرم کاروبار بن جاتا ہے اور ہر شخص کو کاروبار کی آزادی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ آج شاید میرا دل دکھا ہوا ہے میں نے خواہ مخواہ تلخ اور بور باتیں لکھنی شروع کردی ہیں حالانکہ میں ایسی باتیں عموماً نہ کرتا ہوں نہ لکھتا ہوں۔ بہرحال انسان تو انسان ہے کبھی اور کہیں تو سچ بولنا ہی پڑتا ہے سو میں نے بھی غیردانستہ طور پر سچ لکھ دیا۔
بقول مرزا غالب#
جوئے خوں آنکھوں سے بہنے دو کہ ہے شام فراق
میں یہ سمجھوں گا کہ دو شمعیں فروزاں ہوگئیں
میں چمن میں کیا گیا، گویا دبستاں کھل گیا
بلبلیں سن کر مرے نالے، غزل خواں ہوگئیں
کراچی میں ہونے والے آپریشن میں فی الحال گرفتاریاں تو روز ہورہی ہیں میں اپنی پرانی بات پھر دہرانا چاہتا ہوں کہ صرف گرفتاریوں سے کچھ نہیں ہوتا۔ ملزموں کو مقدمہ چلا کر قرار واقعی سزا ملنی چاہئے تاکہ جرائم اور مجرم کی سرکوبی ہو۔ صرف گرفتاری اور پھر اس کے بعد رہائی تو ملزم کو بہادر اور ہیرو بنادیتی ہے۔ اس کے بھتے کا ریٹ بڑھ جاتا ہے اور اس کے پیرو کاروں میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔ کچھ قانون سازی عدالتی نظام کے بارے میں کی جائے۔ مقدمات کے جلد فیصلوں کے لئے قانون میں ضروری ترامیم کرکے پیروی کا آسان بنایاجائے اور طریقہ کار کو سادہ اور زود اثر بنایا جائے۔ میں نے تو فوجی عدالتیں بنانے کا مشورہ بھی دیا ہے اگر وہ مشکل ہے تو کوئی ملی جلی عدالتیں بنالیں جس سے فیصلے جلدی ہوجائیں۔ آپ لندن میں ہونے والے ہنگاموں کی مثال لے لیں وہاں تین دن میں رات کے وقت عدالتوں نے فیصلے کئے اور ہنگامے ختم ہوگئے۔ میری تجویز ہے کہ موجودہ عدالتی نظام ہی کو موثر بنا کر سمری ٹرائل کا سسٹم متعارف کروایا جائے تاکہ عدالتوں پر کام کا بوجھ بھی نہ بڑھے۔ ایسی قانون سازی مشکل ضرور ہے ناممکن نہیں۔ آخر میں حسب عادت شعر قارئین کی نذر کرتا ہوں ۔
مجروح سلطان پوری کا شعر ہے
پارہ دل ہے وطن کی سرزمین مشکل یہ ہے
شہر کو ویراں کہیں یا دل کو ویرانہ کہیں
تازہ ترین