• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئندہ ہفتے کے اختتام پر ہائبرڈ نظام کی حامل ’’سلیکٹڈ‘‘ حکومت غالباً منہدم ہونے جارہی ہے۔ وہ ہائبرڈ نظام جو کافی سیاسی اور انتخابی انجینئرنگ کے بعد مسلط کیا گیا تھا اب اپنے اندرونی تضادات کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہا ہے، کیونکہ اس کے شرمندہ معماروں نے ’غیرجانبداری‘ کے پیچھے عارضی پناہ لینے کا انتخاب کیا ہے، حالانکہ جو ایک مستقل آئینی تقاضا ہے۔ جس بنیادی سوال پر سبھی کو سانپ سونگھ گیا ہے۔

وہ یہ ہے کہ مقتدرہ کی ’’غیر جانبداری‘‘ کے عوض مستقبل کے سیاسی بندوبست پر کیا ’’سمجھوتہ‘‘ کیا گیا ہے ؟ بلاشبہ وزیراعظم عمران خان کی ایک قدامت پسند، پاپولسٹ اور آمرانہ حکومت اپنے جھوٹے مگر ولولہ انگیز وعدوں کو پورا کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔ 

اس نے سیاسی مخالفین کو انتقامی غضب کا نشانہ بنایا، میڈیا کی آزادی کو ختم کیا، پارلیمنٹ کو پس پشت ڈالا، احتساب کو سیاسی انتقام اور سماجی و سیاسی ماحول کو خراب کرتے ہوئے ایک مکروہ سیاسی کلچر متعارف کرایا۔

مذہبی انتہا پسندی کو روکنے اور دہشت گردی پر قابو پانے میں ناکامی کیساتھ عمران خان نے ناسمجھی میں پاکستان کو تنہا اور سی پیک کو غیر فعال کر دیا اور یوں اس کے اناڑی پن نے پاکستان کو اندرونی اور بیرونی طور پر تباہی کے دہانے پر دھکیل دیا۔

بجائے اس کے کہ سخت دبائو کا شکار ہوئی پارلیمانی اپوزیشن ہائبرڈ حکومت کو اپنے قدرتی انجام تک پہنچنے کا انتظار کرتی، حالات نے اسے عمران حکومت پر حملہ کرنے پر مجبور کردیا۔ 

ایک ہائبرڈ نیم سویلین سیاسی ڈھانچے کے اندرونی بحران، اتحادی شراکت داروں سے نا چاقی، پی ٹی آئی کے قانون سازوں میں بے اعتمادی، عوام کی حمایت میں کمی اور مہنگائی و بیروزگاری کے خلاف بڑھے ہوئے عوامی غصے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپوزیشن نے عدم اعتماد کا ووٹ پیش کر دیا ہے جو ان کا آئینی استحقاق ہے۔ 

اگرچہ پی ٹی آئی حکومت کے اتحادیوں کا اپوزیشن بنچوں پر منتقل ہونا ایک جائز پارلیمانی روایت ہے لیکن پارلیمانی بنچوں کے اطراف میں کسی بھی قسم کی ہارس ٹریڈنگ مکمل طور پر ناجائز ہے۔ تاہم، اپنے ضمیر کی پکار پر، پارٹی منحرفین اپنی پارٹیوں سے مستعفی ہونے اور کسی مخصوص پارٹی کے ٹکٹ پر جیتی ہوئی نشستوں کو چھوڑنے کے لیے آزاد ہیں۔ لیکن، آئین کے تحت، انہیں ووٹ دینے سے روکا نہیں جا سکتا یا پارلیمنٹ کے کسی اجلاس میں شرکت سے منع نہیں کیا جا سکتا لیکن وزیراعظم، ان کی جماعت اورا سپیکر کسی بھی طرح کی مہم جوئی پہ تلے نظر آتے ہیں۔

جمہوری کلچر کے فقدان اور بڑھتے ہوئی سیاسی محاذ آرائی کے پیش نظر، ایسی تمام کوششوں سے گریز کیا جانا چاہیے جو جمہوری پارلیمانی عمل کو پٹری سے اتار سکتے ہوں اور ان کی مذمت کی جائے۔ 

ہارس ٹریڈنگ، تشدد اور تصادم کی مخالفت کی جانی چاہیے اور مخالفین کے مابین تصادم سے بچنا چاہیے۔ جمہوریت کے تسلسل کے مفاد میں پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم دونوں کو دارالحکومت میں اپنی اپنی عوامی ریلیاں معطل کردینی چاہئیں لیکن بدقسمتی سے 6 جنوری کو امریکہ میں کیپٹل ہل پر حملے کی طرح پاکستانی ٹرمپ پورے جمہوری نظام پہ حملہ آور ہونے کا سوچ رہے ہیں، جس کا تدارک ضروری ہے۔ 

عدم اعتماد کے ووٹ کی کامیابی یا شکست سے قطع نظر آئینی تقاضوں اور بہترین پارلیمانی روایات پر عمل کیا جانا چاہیے، چاہے تحریک عدم اعتماد منظور ہو یا ناکام ہو، ایک وفاقی وزیر کی نتخابی اصلاحات، انتخابات کے شیڈول اور عبوری حکومت سے متعلق تجاویز سے اتفاق کرنے کی بجائے عمران خان اپنی کشتیاں جلا کر ایک جارحانہ حکمت عملی پہ چل نکلے ہیں جس کے سنگین نتائج ہوسکتے ہیں۔

اپوزیشن کی تمام جماعتوں، خاص طور پر پی ڈی ایم ْ مسلم لیگ ن، جمعیت علمائے اسلام (ف)، پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی سے پوچھا جائے اور ان سے تقاضا کیا جائے کہ وہ اگر متبادل حکومت بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہیں تو درج ذیل مسائل پر پاکستانی عوام کے ساتھ ان کا کیا عہد نامہ ہے: 

1) اس عبوری دور کی مدت کیا ہوگی؟ جو کہ پانچ ماہ سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے کیونکہ بقایا مدت پوری کرنے کا عوامی منڈیٹ انہیں حاصل نہیں ہے۔ 

2) قبل از وقت انتخابات نومبر 2022 سے پہلے کرائے جائیں۔ 

3) آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کو یقینی بنانے کیلئے اتفاق رائے سے انتخابی اصلاحات؛ 

4) لیکشن کمیشن کو انتظامی، مالیاتی اور عدالتی طور پر مضبوط تر کیا جائے۔ 

5) آزادی اظہار اور میڈیا پہ عائد تمام پابندیاں ختم کی جائیں، کالے قوانین ختم اور خفیہ ہاتھوں کی مداخلت کاری کا نظام بند کیا جائے۔ 

6) آل پارٹیز کانفرنس اور پی ڈی ایم کی طرف سے جاری کردہ 26 نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈز اور پی ڈی ایم کی طرف سے جاری کردہ 12 نکاتی چارٹر آف پاکستان، میثاق جمہوریت، بلااستثنیٰ اور منصفانہ احتساب کیلئے واضح قانون اور شفاف ادارہ بنایا جائے۔ 

7) آئین کے تقاضوں اور روح کے مطابق سول ملٹری تعلقات کی از سرِ نو تنظیم نو کیلئے آئینی، اداراتی اور انتظامی اصلاحات کی جائیں اور سلامتی کے اداروں کو پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ کیا جائے۔ نیز خفیہ ایجنسیوں کی سیاست، صحافت اور سول معا ملات میں مداخلت بند کی جائے۔ 

8) آٹھویں ترمیم کو مزید مستحکم کرتے ہوئے صوبوں سے بااختیار مقامی حکومتوں کو اختیارات کی منتقلی کو آئینی اور انتظامی طور پر یقینی بنایا جائے۔

9) بلوچ شورش کا سیاسی تصفیہ، باہمی جنگ بندی اور مِسنگ پرسنز کی بازیابی اور انکے لیے انصاف۔ 

10) شہری، انسانی، معاشی، سماجی، صنفی اور اقلیتوں کے حقوق کی ضمانت دی جائے اور قانون سازی کی جائے جو اقوامِ متحدہ کے انسانی و شہری و صنفی اور مذہبی حقوق کے اعلامیوں، معاہدوں اور قراردادوں کی روح کے مطابق ہوں۔ 

11) ریاستی اداروں کا استثنیٰ ختم کرکے تمام لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے ٹھوس اقدامات۔ 

12) پاکستان کے محنت کش عوام اور ہمارےنوجوانوں کے مفاد میں جاری خواص دوست اقتصادی، سلامتی اور خارجہ پالیسیوں پر نظر ثانی کرتے ہوئے انسانی سلامتی و خوشحالی کیلئے پائیدار اور جامع لائحہ عمل۔ 

13) غریب اور کم آمدنی والے گروپوں کے لیے فوری اور جامع ریلیف، افراط زر اور روپے کی قدر میں کمی کے تناسب سے کم از کم اجرت کا تعین جو پچاس ہزار روپے سے کم نہ ہو۔ 

14)بلا استثنیٰ اور شفاف احتساب کے نظام کا قیام اور انتظامی و عدالتی اصلاحات کا پروگرام۔ 

15) امن دوست اور معاشی تعاون کی خارجہ پالیسی اور تمام پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا اور خطے اور دنیا میں امن و باہمی تعان کا فروغ۔ 

دیکھتے ہیں کہ جمہوری عمل آئینی پٹری پر رہتا ہے یا کسی آمرانہ کھائی میں گرتا ہے؟

تازہ ترین