• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سب کچھ لٹا کے ہوش میں آئے تو کیا کِیا

یہ ایک عام روش ہم سب نے اختیار کر لی ہے کہ زبانی طور پر کوئی کام بڑے زور شور سے شروع کرتے ہیں لیکن جلد ہی رنگیلا بادشاہ بن جاتے ہیں جس کا سارا دار و مدار اپنی کنیزوں کی اطلاع پر ہوتا تھا۔ وہ جب کہتیں ہیں بادشاہ سلامت سانپ نکل آیا تو وہ فرماتے کسی مرد کو بلائو، کوئی شوخ کنیز کہتی آپ بھی تو مرد ہیں تو پھر کہتے ڈنڈا لائو اور اتنے میں سانپ اپنا کام کرکے غائب ہو چکا ہوتا۔ ہم میں من حیث القوم یہ وائرس کہاں سے آیا، تو واضح بات ہے برائی اوپر سے نیچے آتی ہے اور وائرل ہو جاتی ہے، ہم سب کو علاج کی ضرورت ہے، یہ وائرس ضمیر کو نشانہ بناتا ہے اور یوں نشان تک مٹ جاتا ہے، ہمارا ملک خدا کا شکر ہے موجود ہے مگر ہم ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے کا مصداق بن چکے ہیں، ہم شاید شور میں سوئے ہوئے ہیں، خاموشی میں جاگ جاتے ہیں، تب تک پلوں سے بہت سا پانی گزر چکا ہوتا ہے، اس عالم میں ہمارا پارا چڑھتا ہے اور مرض لاعلاج ہو جاتا ہے، اس صورتحال کا شکار کئی دہائیوں سے ہیں۔ الغرض اب عوام کا یہ شکوہ بجا ہے کہ؎

آئی حکومت، گئی وعدۂ فردا لے کر

اب اسے ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لےکر

٭٭٭٭

میرے ساتھ جو کیا اپنوں نے کیا

جو چند ایک وفادار وزرابچے تھے انہوں نے اپنی جدا جدا بولیوں سے ان کو بھی بھگا دیا جو کچے دھاگے سے سرکار کے ساتھ بندھے تھے، ہر ’’باتدبیر‘‘ نے منہ سے آگ نکالنے کا ایسا مظاہرہ کیا کہ حکومت رانی کے تن نازک پر گھائو پڑ گئے، سچ کہا عندلیبِ شیراز حافظِ لسان الغیب نے؎

من از بیگانگاں ہرگز نہ نالم

کہ بامن ہرچہ کرد آں آشنا کرد

(مجھے غیروں سے کوئی گلہ نہیں کہ میرے ساتھ جو کیا اپنوں نے کیا)

رنگ ماسٹر نے تو ایسی بازی گری دکھائی کہ سارا تمبو ہی تماشائیوں سے خالی ہو گیا، ڈیل کارنیگی نے ایک کتاب ’’میٹھے بول میں جادو ہے‘‘ لکھی مگر اس دانشمندی کا کیا کیا جائے کہ کڑوے کیسلے بولوں نے ’’بولو رام‘‘ کردیا، ابتداہی سے خوش اخلاقی اور شب خون کارروائیوں سے پاک اندازِ حکمرانی اختیار کیا گیا ہوتا تو آج یکسر پیٹنے کی نوبت نہ آتی، جیو سے گلہ تھا کہ سچ کیوں کہتا ہے آج سارا میڈیا جیو بن گیا ہے، آخر یہ تقلید کن بڑبولوں کے باعث پیدا ہوئی، تاریخ بتاتی ہے کہ حق گوئی و بے باکی کا گلا گھونٹنے سے کتنے ہی بڑے بڑے برج الٹ جاتے ہیں، اصلاحات کا طوفان، اخلاقیات سے پہلے لانا کبھی کارگر ثابت نہیں ہوتا، آج جو فضا پورے ملک میں پیدا کردی گئی ہے اس سے تو ہر گھر خطرے میں ہے، عدم اعتماد کو بہ تکلف کمایا گیا ہے ورنہ حکمت سے چلے ہوتے تو یوں کشتی میں سو جگہ سوراخ نہ ہوتے۔ اب اس میں طوفانِ نوح سے بچنے کیلئے کون بیٹھے گا؟

٭٭٭٭

پیوٹن تھیوری چلنے کی نہیں

جس روس کو پائوں پر کھڑا کرنے کیلئے پیوٹن نے کامیاب محنت کی تھی وہ اکارت گئی، یوکرین کو گفت و شنید اور کامیاب ڈپلومیسی سے سمجھایا جاسکتا تھا کہ روس کو خدشات و تحفظات ہیں، مگر طاقت کے بھر پور استعمال نے خود روسی فوج کے بھی اوسان خطا کر دیے۔ جہاں بھی فرد واحد نے عقل کل ہو کر آمرانہ فیصلے کئے منہ کی کھائی۔ قرآن کہتا ہے ’’اور ان کی حکمرانی باہمی مشاورت سے چلتی ہے‘‘۔ ہم نے بھی مشاورت کو کب کا چھوڑا، دَیر میں بیٹھے قشقہ کھینچ کر ترک اسلام کیا، نظام بدلنے کو آئے تھے رزقِ جام ہوئے۔ بہرحال روس کے صدر کی سنت پر جو بھی چلے گا، بے مرام لوٹےگا، اس دنیا میں زندگی کے پل پل سے فائدہ اور آسائش کشید کرنا ہی عقلمندی ہے، یہ فوری ری ایکشن، لیتھل ہوتا ہے، کوئی تنہا سڑک پر نکل کر لیتھل نہیں ہو سکتا، جب بھی غصہ آتا ہے عقل کی بتی بجھا کر آتا ہے اور گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ایسی لیتھل ٹکر لگتی ہے کہ اٹھتے اٹھتے جہان اٹھ جاتا ہے۔ تدبر، تحمل سے لئے گئے فیصلوں میں جان ہوتی ہے، بے جان فیصلے تو جان ہی لے لیتے ہیں، اب روسی صدر اپنی ضد میں آکر اپنی جواں سال اکانومی کو زندہ درگور کر رہے ہیں، اگرچہ فردِ واحد کا فعل پوری دنیا پر تیسری بڑی آفت لے آئے تو کچھ بعید نہیں، پیوٹن نہایت زیرک انسان ہیں مگر وہ خواجہ غلام فریدؒ نے کہا ہے :’’تے بھُل گئے کئی سُگھڑ سیانڑے اویار‘‘۔ بولتا سچ ہے کہ اس پر ضرور کان دھرنا چاہیے، اگر اقتدار جاتا تو پھر بھی آسکتا ہے، مگر جب ایک بار انسان اپنی شخصیت مسخ کربیٹھےتو اس کی سرجری ممکن نہیں ہوتی، بالخصوص جہاںِ سیاست میں۔

٭٭٭٭

میری سنو جو گوشِ نصیحت نیوش ہے

...oبلاول: عمران خان تیسری قوت کو اکسا رہے ہیں۔

’’ایں خیال است و محال است و جنوں‘‘

یہ خیالِ محال اور دیوانگی ہے۔

...oچوہدری شجاعت حسین کی بات مان لینی چاہیے۔

میری سنو جو گوشِ نصیحت نیوش ہے۔

...oاگر واقعتاً گھڑ فروشی ہو رہی ہے تو عدالتوں کے دروازے کھلے ہیں ناقابلِ تردید شواہد سامنے رکھیں اور پہلے آئو پہلے پائو سے مستفید ہوں یہ کیاکہ دیواریں پھلانگنے لگے۔

...oگورنر راج لگانا شاید آخری بڑی غلطی ہو، اس کے لئے ایک مخصوص ماحول درکار ہوتا ہے جبکہ سندھ حکومت کے گھوڑے صحیح چل رہے ہیں، جن کے ’’گوڈے‘‘ فیل ہو جائیںان کا مداوا کرنے کیلئے ہی گورنر راج لگایا جاتا ہے، یا عدم اعتماد لایا جاتا ہے۔

تازہ ترین