• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پچھلے دو ہفتوں سے ملکی سیاسی صورت حال لمحہ بہ لمحہ تبدیل ہو رہی ہے۔ تحریکِ عدم اعتماد کے حوالے سے موجود غیریقینی صورت حال ختم ہونے کے بارے میں اس وقت واضح اشارے ملنے لگے جب پی ٹی آئی کے کم و بیش دو درجن ’’منحرف‘‘ اراکین نے سندھ ہائوس میں پناہ لے لی۔ 

’’منحرف‘‘ اراکین نے ہر قیمت پر وزیراعظم کے خلاف ووٹ ڈالنے کا اعلان کر دیا ہے، ادھر حکومت نے بھی ’’منحرف‘‘ اراکین کے خلاف کارروائی کے لیے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ 

شیخ رشید احمد سندھ میں گورنر راج لگوانا چاہتے تھے لیکن حکومت کو ہمت ہی نہ ہوئی، وزیراعظم اور ان کے ترجمانوں کی فوج ظفر موج میچ جیتنے کے دعوے کر رہی تھی اب وہ بوکھلاہٹ میں ’’منحرف‘‘ اراکین کو وزیراعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد میں ووٹ دینے پر سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔

چوہدری برادران نے پچھلے ہفتے سے اسلام آباد میں ڈیرے ڈال رکھے تھے، ’’چوہدری ہائوس‘‘ میں رونقیں لگی ہوئی تھیں، صبح و شام اپوزیشن اور اتحادی جماعتوں کے قائدین کی آمد و رفت کا سلسلہ جاری تھا اگرچہ سیاسی جماعتوں کے رہنما چوہدری شجاعت حسین سے مذاکرات کرنے آتے تھے لیکن پارٹی نے تمام فیصلوں کا اختیار چوہدری پرویز الٰہی کو دے رکھا ہے۔

چوہدری پرویز الٰہی پچھلے دو ہفتوں سے انتہائی خاموشی سے حکومت اور اپوزیشن سے اپنے مطالبات پر بات چیت کر رہے تھے انہوں نے وزیراعظم کو بڑا فیصلہ کرنے کا مشورہ دیا لیکن وزیراعظم نے مسلم لیگ( ق) کے پی ٹی آئی میں ادغام کو چوہدری پرویز الٰہی کو وزارتِ اعلیٰ دینے سے مشروط کردیا جسے مسلم لیگ (ق ) نے مسترد کردیا۔ 

مسلم لیگ (ق) چوہدری برادران کی شناخت ہے، وہ کس طرح اپنی شناخت ختم کر سکتے ہیں؟ اس دوران مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت نے بھی نہ صرف چوہدری پرویز الٰہی کو وزارتِ اعلیٰ کی پیشکش کردی بلکہ صوبائی حکومت فوری طور پر ختم کرنے پر بھی تیار ہوگئی۔ 

چوہدری پرویز الٰہی نے اس انکشاف کہ ’’تحریک عدم اعتماد پر اتحادی جماعتوں کا 100فیصد جھکائو اپوزیشن کی طرف ہے‘‘ نے حکومتی حلقوں میں کھلبلی مچا دی۔ 

چوہدری پرویز الٰہی کے اِس انٹرویو سے حکومتی حلقوں میں سراسیمگی پھیل گئی لیکن اگلے ہی روز چوہدری پرویز الٰہی سے ایک فرمائشی بیان جاری کرایا گیا جس میں انہوں نے عمران خان کی تعریف کی اور کہا کہ ہم نے حکومت چھوڑی نہیں اور اپوزیشن بھی جوائن نہیں کی تاہم ان کے بیان میں وزیراعظم کی حمایت کے لیے ایک لفظ نہیں تھا، یہ بات بھی سننے میں آئی ہے کہ چوہدری مونس الٰہی کی گرفتاری کے احکامات جاری کر دیے گئے تھے بعد ازاں حکومت نے اس خبر کی تردید کر دی۔

تحریکِ انصاف کے ’’منحرف‘‘ اراکین کی جانب سے سیکورٹی خدشات کے پیش نظر سندھ ہائوس اسلام آباد میں پناہ لینے پر حکومتی حلقوں میں ’’چیخ و پکار‘‘ ہو رہی ہے کہ بڑے پیمانے پر ہارس ٹریڈنگ ہورہی ہے اگرچہ ’’منحرف‘‘ اراکین کی تعداد کے بارے میں مختلف دعوے کیے جارہے ہیں تاہم راجہ ریاض نے کہا ہے کہ ان اراکین کی تعداد 24سے زیادہ ہے جب کہ رمیش کمار کا دعویٰ کہ یہ تعداد 33ہے جن میں 3وفاقی وزرا بھی شامل ہیں۔ 

حکومت سندھ نے ’’منحرف‘‘ اراکین کی حفاظت پر پولیس کے کمانڈوز تعینات کر دیے ہیں، اتنی بڑی تعداد میں پی ٹی آئی کے اراکین کی ’’بغاوت‘‘ سے حکومت اکثریت سے محروم ہو گئی ہے، شنید ہے وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت اجلاس میں وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے سندھ میں گورنر راج کی تجویز پیش کی تو کچھ وزرا نے کہا کہ سندھ میں گورنر راج کے نفاذ پر شدید ردِ عمل ہوگا۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ سندھ میں گورنر راج کے نفاذ پر سندھ کے عوام ایسا جواب دیں گے جس کی مثال نہیں ملے گی۔ 

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں گزشتہ ہفتے غیرمعمولی پیشرفت ہوئی ہے، مولانا فضل الرحمٰن نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی تصدیق کر دی ہے، مولانا صاحب نے ملاقات کے بعد معنی خیز گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’اتنا جانتا ہوں معاملات طے ہو گئے ہیں، ٹکرائو ہوا تو ذمہ دارحکومت ہوگی‘ ہمیں 10ووٹوں کی ضرورت تھی ہمارے پاس اس وقت 30سے زیادہ ووٹ ہیں، 182سے لے کر 190تک ووٹ تحریک عدم اعتماد کے حق میں ڈالے جائیں گے‘‘۔

وفاق اور پنجاب میں پی ٹی آئی کے اراکین میں ’’بغاوت‘‘ کے بعد آزاد جموں و کشمیر میں ’’کھسر پسر‘‘ شروع ہو گئی ہے۔ پی ٹی آئی کے بعض اراکینِ اسمبلی نے وزیراعظم آزاد جموں و کشمیر کو آنکھیں دکھانا شروع کر دی ہیں۔ 

آزاد جموں و کشمیر کی سیاست پر قبائلی عصبیت کی چھاپ نمایاں نظر آتی ہے۔ بظاہر آزاد جموں و کشمیر میں خاموشی ہے، کہیں ’’بغاوت‘‘ کے آثار نظر نہیں آتے لیکن اندر ہی اندر لاواپک رہا ہے جو کسی بھی وقت دھماکے کی صورت میں پھٹ سکتا ہے۔ 

بعض اراکین کے بدلے تیور اس بات کی عکاسی کر رہے ہیں کہ موجودہ حکومت ان کی توقعات پر پورا نہیں اتر رہی۔ 9ماہ بعد ہی شکایات کے دفتر کھول دینے سے بعض اراکین کے سیاسی عزائم بےنقاب ہو رہے ہیں۔ 

تحریک انصاف کے رکن اسمبلی جاوید بٹ نے مظفرآباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عبدالقیوم نیازی کو ہٹانے کا مطالبہ کر دیا اور کہا کہ حکومت چلانا عبدالقیوم نیازی کے بس کی بات نہیں۔ 

پی ٹی آئی کے بعض اراکینِ اسمبلی کو شکایت ہے کہ وزیراعظم آزاد جموں و کشمیر مبینہ طور پر ان کے حلقوں میں خالی اسامیوں پر اپنے حلقے کے لوگوں کو بھرتی کر رہے ہیں۔ 

پاکستان میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے نتائج آزاد جموں و کشمیر کی سیاست پر بھی مرتب ہوں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعظم عمران بظاہر ہاری ہوئی جنگ کس طرح جیتتے ہیں یا اپوزیشن کے ہاتھوں تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں۔

تازہ ترین