• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بات اصطلاح سے چلی، جماعت اسلامی کے ایک لیڈر پوچھنے لگے ’’کنگ میکر سے بڑی کوئی اصطلاح ہے؟‘‘ ہم نے پوچھا ماجرا کیا ہے؟ بولے ’’زرداری صاحب نے پارلیمانی سیاست میں وہ ہلچل مچادی کہ کنگ میکر سے بڑی کوئی اصطلاح درکار ہے!‘‘۔

سیاسی یا لسانی علوم کے طالب علم سے کوئی استادوں والی بات پوچھے تو عموماً وہ خود بڑا ہی استاد ہوتا ہے۔ پس جواب نہ دیتے تو اپنے خلاف احتجاج کا دریچہ کھولنے میں مدد ہوتی۔ بس اتنا کہہ دیا کہ ’’کسی بڑے آدمی اور نظریاتی مخالف نے زرداری صاحب کو مردِ حُر کہا تھا، ہم اسی پر سیاسی اکتفا کیے ہوئے ہیں‘‘۔ ہم کہاں کے دانا تھے، کس ہنر میں یکتا تھے کہ جماعتِ اسلامی والوں کا مسئلہ حل کرتے۔ ہمیں اندازہ ہی کہاں ہوتا ہے کہ جماعتِ اسلامی کا اپنا کھیل کیا ہے اور اصطلاحات سے ناتا کیسا۔ خیر، وہ لفظ جو کسی شعبۂ علم میں کچھ خاص اور جدا ہی اظہار رکھے اور روزمرہ زندگی میں بھی بولا جائے۔ وہ الگ بات کہ کچھ لوگ اس کے معانی کچھ مختلف طے کر لیں۔ ایک معروف کھلاڑی جان کولنز کہتا ہے کہ ’’ہر کوچ اپنی مختلف اصطلاحات رکھتا ہے مگر امریکی سیاستدان ڈان کرینشا کے مطابق اصطلاح کا استعمال کسی سیاستدان کو ایک خاص پوشاک پہنانے کے مترادف ہوتا ہے، فکشن اور سائنس کی قلم کاری والے ایلن ڈین فوسٹر (نیویارک) کہتے ہیں کہ اصطلاح سائنس اور جادو کے درمیان والی ایک قابلِ غور کیفیت ہوتی ہے۔ ویسے ایک پتے کی بات یہ بھی کہ کبھی کبھی اصطلاحی الجھاؤ اورسیاسی الجھاؤ کو بھی جنم دیتا ہے! ایسا معاملہ مردِ حُر کے ساتھ بھی ہے اور خوب ہے! ہم اکثر یہ کہتے ہیں کہ حُسن وہ جس کا سوتنیں بھی اعتراف کریں اور یہ اعزاز بھی زرداری نے خوب پایا جو کبھی ٹین پرسنٹ گردانے جاتے رہے اور کبھی ’’پیٹ پھاڑتے‘‘ رہے، وہ بھی کبھی قلندر تو کبھی سکندر کہنے پر مجبور ہوئے۔ نہیں معلوم کب یہ سب دل سے کہتے ہیں اور کب کدورت میں لیکن وہ دن دور نہیں جب قبلہ عمران خان بھی سابق صدر آصف علی زرداری کیلئے کسی مثبت اصطلاح کو بروئے کار لائیں گےیا زرداری کو کسی نئی اصطلاح سے نوازیں گے۔ یہی اصطلاحیں کبھی تشبیہات تو کبھی استعارے بھی بن جایا کرتی ہیں باوجود اس کے کہ ’’اصطلاحی الجھاؤ سیاسی الجھاؤ کو بھی جنم دیتا ہے‘‘!

عدم اعتماد کے اس موسم میں جمہوریت کو نوچنے اور تقویت بخشنے کی کاوشیں اپنی اپنی بساط کے مطابق جاری ہیں، ایسے موسم میں اصطلاحوں پر زرخیزی کا ہونا فطری ہے، ہر یوٹربر اور تجزیہ کار اپنی اپنی بولی بول رہا ہے۔ عدم اعتماد کی تحریک کو چار چاند جانے لگیں یا نہ لگیں تاہم عدم برداشت پر جو شباب ہے، کاش سوشل سائنٹسٹ اور سیاسیات کا طالب علم اسے اصلی نیوٹرل ایمپائر کی طرح دیکھے اور انگلی کا مناسب استعمال عمل میں لائے، جو جو سوالات اٹھ رہے ہیں اور جو جو انگلی جس جس پر اٹھائی جارہی ہے یہ وہ مکمل تحقیق ہے جو آنے والی نسلوں اور جمہوری عمل کے بناؤ اور بگاڑ میں رہنمائی کے در وا کرے گی۔ جو ہوگا سو ہوگا، اس عدم اعتماد اور عدم برداشت میں اپنے حصہ میں تو عدمؔ کا یہ شعر ہی آتا ہے:

دل ابھی پوری طرح ٹوٹا نہیں

دوستوں کی مہربانی چاہئے

جو سیاسی منظرنامہ اب ہے وہ کبھی ماضی میں دیکھا نہ سنا۔ مانا کہ سیاست کا ہر نواز اور اصطلاح کا ہر اعزاز سبھی کیلئے دلنواز نہیں ہوتا، اپنے اپنے اناڑی، کھلاڑی اور کپتان ہیں مگر یہ فراموش کرناجذبہ حب الوطنی کے منافی ہوگا کہ جمہوریت کے دل نشین اور دلربا نظامِ حکومت کو آئین کی سربلندی، انسانی حقوق کی علمبرداری اور ریاست کی سرداری کو اپنے اپنے تئیں مستحکم نہ بنایا جائے۔ وہ الگ بات کہ ہم آج کل عالم کا ایک نیا عجوبہ دیکھ رہے ہیں کہ سربراہ حکومت اسمبلی کے اندر، اسمبلی کے باہر اور کوچہ و بازار میں احتجاج کر رہے ہیں۔

جانے پھر بھی ایک امید ہے کہ خان اس بات کو کسی بھی وقت ذہن میں لا سکتے ہیں کہ انہوں نے 4مارچ 2021کو اعتماد کے ووٹ کے حصول سے دو دن قبل قوم سے خطاب میں ارشاد فرمایا تھا کہ اسمبلی میں اعتماد کا ووٹ کسی کو بھی ڈالنا اراکین کا حق ہے، وہ کسی کو بھی ووٹ ڈالیں، ان کی عزت کروں کا۔ اراکینِ اسمبلی اگرانہیں اعتماد کا ووٹ نہیں دیں گے تو وہ اپوزیشن میں چلے جائیں گے! ممکن ہے ابھی اصطلاحات میں ترجیحات کہیں کھوئی کھوئی ہوں اور جونہی کپتان کو تاریخ اور تحریک کی روح کا احساس ہو تو وہ ایک گیند سے تین وکٹیں لینے والے ’’محاورے‘‘ اور اصطلاح کی جگہ کہہ دیں کہ جب بلے کا ایج لگ گیا ہو اور بلے باز کو کیچ ہونے سے قبل ہیپویلین کی طرف بڑھ جانا چاہیے اور اگلی اننگ کو جاندار بنانے کی پلاننگ کرنی چاہیے۔

ڈسکہ کے دھند زدہ الیکشن، واوڈا جی کی بوٹ نمائی اور ان کی کراچی والی سیٹ چھن جانے ہی سے کفاروں کی ادائیگی کی رت شروع ہو چکی تھی اور حکومت کو اپوزیشن کو درست کرنے کے بجائے اپنا قبلہ درست کرنے آغاز کرنا چاہیے تھا مگر شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں نے جمہوری زندگی جینے نہ دی۔ ورنہ گلشن میں علاج تنگیٔ داماں بھی تھا۔ خان وطن عزیز کا انمول اثاثہ ہیں اور اصطلاحاً نہیں حقیقتاً اثاثہ ہیں سو شیخ رشید، فواد چوہدری اور اسد عمر اپنے محسن کا جمہوری اور سیاسی سر خود ہی نہ لیں، پہلی ہی دفعہ خان نے بطورِ کھلاڑی ورلڈ کپ نہیں جیت لیا تھا، جمہوری کپ کی فتح کے مواقع اور بھی ہیں گویا عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔ اگلی دفعہ نیوٹرل ایمپائرنگ میں شاید سسلین مافیا کی اصطلاح کا مس یوز کارگر نہ ہو لہٰذا جو اقتدار میں رہ کر کھویا اور پایا ہے اس میں سے اپنی مفید اصطلاحیں اور راہیں نکالیں، ہیرو تو ہیں مگر فاؤل پلے سے جمہوری ہیرو کون بنتا ہے؟

وہ جسے مردِ حُر کہا جاتا ہےاور ٹین پرسنٹ بھی، اس نے سیکھا اور سکھایا ہے تب ہی مصالحت کا شہنشاہ اور پارلیمانی بادشاہ کہلایا، 18ویں ترمیم میں اس کے پاس سادہ اکثریت تھی مگر پوری اسمبلی سے مشترکہ اعتماد پا کر ترمیم کو منظور کروایا، سنٹ پرسنٹ ڈیمو کریٹ کہلوایا۔ پھر سیاسی ایکو سسٹم کو ایک میثاقِ جمہوریت سی اصطلاح اور جمہوری نباہ کی ضرورت ہے!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین