• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بالآخر کراچی میں ایک ٹارگٹڈ آپریشن کی ذمہ داریاں پاکستان رینجرز کے سپرد کی گئیں۔ بنیادی طور پر یہ ذمہ داری سندھ پولیس کی تھی۔ اس میں دو رائے نہیں کہ جس طرح سرحدوں کی حفاظت میں مسلح افواج کا متبادل کوئی اور فوج نہیں ہوتی، بالکل اسی طرح شہروں میں امن و امان کے قیام اور جرائم پیشہ افراد کی بیخ کنی کے لئے پولیس سے زیادہ موزوں کوئی فورس نہیں ہو سکتی۔ کراچی کے معروضی حالات کو سامنے رکھتے ہوئے وفاقی حکومت، صوبائی حکومت، انٹیلی جنس ادارے اور سیاسی ادارے اس نکتے پر متفق ہیں کہ اغوا برائے تاوان کے ملزمان، بھتہ خور اور نشانہ لگا کر قتل کرنے والوں کے خلاف کارروائی پاکستان رینجرز کرے گی۔ اس میں دو آراء موجود ہیں۔ پاکستان رینجرز اگر کامیاب بھی ہو جائیں اور امید ہے وہ کامیاب ہوں گے پھر بھی دائمی امن کے لئے ہمیں پولیس پر ہی انحصار کرنا ہو گا۔ شہروں میں پولیس کا مخبری کا نظام بڑا موٴثر ہوتا ہے جس کی بنیاد پر وہ بہتر انداز میں کارروائی کر سکتے ہیں لیکن تمام اکابرین سیاست اور اربابِ اختیار نے یہ ذمہ داری پاکستان رینجرز کے کاندھوں پر ڈال دی ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ 9,000 کے لگ بھگ پولیس اہلکار اور 3,000 رینجرز کے سپاہی 500گاڑیوں کے ہمراہ VIPs کی حفاظت پر مامور ہیں۔ یہ کراچی جیسے شہر میں ایک بہت بڑی تعداد ہے جو اپنے بنیادی کام سے ہٹ کر اشرافیہ کی حفاظت کے فرائض انجام دے رہی ہے۔ یہ وہ اشرافیہ ہے جو اپنے ذاتی خرچ پر بھی اپنے تحفظ کا بندوبست کر سکتی ہے لیکن وہ بھی حکومتی وسائل پر انحصار کر رہی ہے۔ اگر اس اقدام کے ساتھ ساتھ وفاقی اور صوبائی حکومتیں پولیس کے مورال کو بلند کرنے کے لئے کچھ لازمی اقدامات اٹھا لیتیں تو صورتحال میں کچھ بہتری کے امکانات روشن ہو جاتے۔ مثال کے طور پر پولیس اہلکاروں کی تنخواہوں میں خاطرخواہ اضافے کے ساتھ ساتھ علاج معالجے کی بہتر سہولتیں اور ان کے بچوں کی تعلیم کے لئے بھی اسکیمیں متعارف کرائی جاتیں تو یہ بھی امن کے راستے میں ایک اہم سنگ میل ہو سکتا تھا۔ بہرحال اب انتظار کرنا ہو گا کہ پاکستان رینجرز جو اب تک پولیس کی معاونت کر رہی تھی، اب اس آپریشن کی ڈرائیونگ سیٹ پر ہے۔ نتائج کچھ عرصے میں سامنے آنا شروع ہوجائیں گے۔ ہوسکتا ہے کہ ملزمان گرفتار بھی ہوجائیں لیکن تاوقتیکہ ایک تیز رفتار عدالتی نظام کے ذریعے اس بات کا فیصلہ نہیں ہوجاتا کہ گرفتار ملزمان ملزم ہیں یا مجرم، اس وقت تک جرم و سزا کا تصور قائم نہیں ہو سکتا۔ اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ گرفتار افراد زیادہ دیر تک مقدمہ چلائے بغیر جیل کی سلاخوں کے پیچھے نہ رہیں وگرنہ یہ آپریشن بھی متنازع ہو جائے گا۔ حکومت وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس امر کو یقینی بنائے کہ استغاثہ اس طریقے سے چالان ترتیب دیں کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔ کراچی کی بدامنی کے دو بڑے پہلو ہیں۔ ایک جانب اغوا برائے تاوان، ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری جیسے سنگین جرائم ہیں جس میں سیاسی مداخلت کی نشاندہی اکثر اوقات کی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک پہلو اسٹریٹ کرائم کا بھی ہے۔ اس کو اسی نقطہ نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے اور معاشرے سے سماج دشمن عناصر کے خاتمے کے لئے انہی جہات پر ہمیں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ رینجرز کو آپریشن کا اختیار دینے کے لئے کوئی سیاسی سرگرمی کراچی میں وزیراعظم کی موجودگی میں برپا ہوئی تو اس کو بحیثیت مجموعی مثبت کہا جا سکتا ماسوائے اس ایک واقعے کے جو ڈاکٹر فاروق ستار کو وفاقی کابینہ کے خصوصی اجلاس میں شرکت کی دعوت دے کر واپس لی گئی۔ بہتر یہ ہوتا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اپنے اتحادیوں، اپنی علاقائی قیادت اور سندھ حکومت سے مشاورت کے بعد فاروق ستار کو دعوت دینے کا فیصلہ کرتی کیونکہ اب ہرزہ سراؤں کو یہ موقع دستیاب ہوچکا ہے کہ وہ یہ لکھ رہے ہیں کہ سیکورٹی ایجنسیاں فاروق ستار کی موجودگی میں حقائق بتانے سے ہچکچاتی ہیں اور اس جیسے کئی ان گنت خیالی پلاؤ پکنا شروع ہو گئے ہیں جس سے سیاسی ہم آہنگی کو نقصان پہنچا۔
گو کہ ایم کیو ایم نے اس پر اپنے شدید ردعمل کا اظہار کیا لیکن اسے انا کا مسئلہ نہیں بنایا اور وفاقی حکومت کی جانب سے انتہائی مختصر نوٹس پر بلائی جانے والی APC میں بھی شرکت کی، رینجرز کی قیادت میں ہونے والے آپریشن کی بھی حمایت کی لیکن بہتر ہوتا کہ فاروق ستار کو دعوت سوچ سمجھ کر دی جاتی۔ بعض مبصرین پاکستان مسلم لیگ (ن) کی اس دعوت کو جو فاروق ستار کو وَن آن وَن ملاقات کے لئے دی گئی تھی، اسے مستردکرنے پر بھی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ ان کی خدمت میں عرض ہے کہ ایک استاد نے کلاس روم میں بچوں سے دریافت کیا کہ عقل کہاں ہوتی ہے؟ کسی نے کہا دل میں تو کسی نے کہا دماغ میں۔ کوئی کہہ بیٹھا کہ یہ گھٹنوں یا ٹخنوں میں ہوتی ہے لیکن استاد نے بچوں کی اصلاح کرتے ہوئے کہا کہ عقل چار افراد کے بیچ میں ہوتی ہے۔ اسی کلیے کو اختیار کرتے ہوئے ایم کیو ایم نے اس وَن آن وَن ملاقات کو مسترد کیا۔ بہرحال آپریشن شروع ہوچکا ہے، نتائج جلد یا بدیر سامنے آجائیں گے لیکن اس کے ساتھ ساتھ کراچی کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کے مسائل پر بھی توجہ دی جائے۔ ماس ٹرانزٹ پروگرام، سرکولر ریلوے، زیر زمین میٹرو سروس اور بڑی شاہراہوں کو سگنل فری کرنے کے منصوبے فوری طور پر شروع کئے جائیں۔ صوبے کو متفقہ بلدیاتی نظام دے کر فوری بلدیاتی انتخابات منعقد کراکے اختیار عوام کے سپردکیا جائے۔ ذرائع ابلاغ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ لسانی و نسلی بنیادوں پر مرنے والوں کی شناخت پنجابی، پٹھان، سندھی، بلوچ، مہاجر، سرائیکی سے کرانے کے بجائے مرنے والے کی شناخت ایک مظلوم اور بے گناہ پاکستانی کہہ کر کرائے کیونکہ ایسے معاملات جلتی پر تیل کا کام کرتے ہیں۔ شہر میں موجود نو گو ایریاز کا کم و بیش تعین ہوچکا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے خواہ وہ رینجرز ہوں یا پولیس، وہ اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرتے ہوئے مختصر ترین مدت میں اپنی کارروائی مکمل کرکے معاملات عدالت کے سپرد کریں اور رائج عدالتی نظام کے تحت ملزمان کا فیصلہ بھی ایک محدود مدت میں کیاجائے، تب جا کر ہم کراچی کے زخموں پر مرہم رکھنے میں کامیاب ہوسکیں گے۔
تازہ ترین