• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

روس اور یوکرین کی جنگ نے آج کئی نئے سوالات کو جنم دیا ہے، جس میں اہم سوال یہ ہے کہ کیاہم اکیسویں صدی کے آخر تک اس کرہ ارض پرانسانی زندگی کو بچا پائیں گے؟ایک طرف جنگوں کی وجہ سے ہتھیاروں کی نئی دوڑ شروع ہو گئی ہے۔دوسری طرف ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے نئی نئی بیماریں جنم لے رہی ہیں۔ تیسری جانب دنیا کے ممالک کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے، وہاں ریاستیں اسکول، اسپتال، ٹرانسپورٹ کا نظام، گھر اور ان افراد کو نوکریاں دینے کے قابل نہیں ہیں۔ یوں ان ممالک میں بیماریاں، غربت اور ناداری روز بروز بڑھ رہی ہے۔یہ سارے مسائل ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ انکا حل بھی مربوط طور پرتلاش کیا جائے ۔ آج اقوامِ متحدہ کے پانچ مستقل ممالک دنیا میں چھوٹے ہتھیاروں کے سب سے بڑے ایکسپورٹرز ہیں۔ اس وقت دنیا میں تقریباً 639 ملین چھوٹے ہتھیار استعمال ہو رہے ہیں جن میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، یعنی ہر دس آدمیوں میں ایک کے پاس ہتھیار موجود ہے جن سے ہر سال تقریباً تین لاکھ لوگ مارے جاتے ہیں جن میں زیادہ تر عورتیں اور بچے ہوتے ہیں۔ ویتنام اور دوسرے ممالک کی جنگ میں لینڈ مائنز اور کلسٹر بم کے استعمال کی وجہ سے زمین کا بہت بڑا حصہ زراعت کے قابل ہی نہ رہا۔ یاد رہے کہ 1990کی گلف جنگ کے دوران ایک سو پچاس ملین بیرل تیل ضائع ہوا۔اس جنگ میں تلف شدہ یورنیم سے بنے ہوئے ایسے شیل استعمال ہوئے کہ اس ماحول میں سانس لینے سے کینسر کا مرض لاحق ہو جاتا ہے۔اگریہی پیسہ کسی ایک بین الاقوامی بہبودی ادارے کے ذریعے خرچ کیا جائے تو پوری دنیا کے لوگوں کے بیشتر مسائل حل ہو سکتے ہیں۔یاد رہے کہ چین نے نوے کی دہائی میں اپنے چالیس ملین افرادکو غربت سے نکالا۔قوموں کو اکیسویں صدی میں اپنا دفاع خود کرنا ہوگا نہ کہ اسلحےکے ذخائر بڑھا کر۔اسکے لیے ہمیں بین الاقوامی سیاسی نظام کی ایک نئے سرے سے جانچ پڑتال کرنا ہوگی اور مطلق العنان قومی خودمختاری کے تصور کا دوبارہ تجزیہ کرنا ہو گاجس طرح یورپ نے اپنی سرحدیں ختم کر کے یورپی یونین کو اختیارات دیے ہیں، اسی تصور کر پوری دنیا پر لاگو کرنا ہوگااور اقوام متحدہ کو وہ قوت دینی ہوگی کہ وہ تمام ممالک کے درمیان حتمی فیصلے کر سکے تاکہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق پوری دنیا کا ایک قانون بن سکے جہاں انسانی حقوق کے تحفظ کا پہلے ہی قانون موجود ہے، بین الاقوامی کریمنل کورٹ کو پوری دنیا کے مسائل کو حل کر نے کیلئے استعمال کیا جائے۔ یورپی یونین کے علاوہ دنیا میں ایسے بہت بڑے بڑے ممالک اور تنظیموں کی مثالیں موجود ہیں جن میں مختلف رنگ و نسل، مختلف زبانوں اور کلچر کے ہوتے ہوئے بھی ایک فیڈریشن میں مختلف قومیں امن سے رہتی رہی ہیں۔ ان میں ہنسیاتک لیگ، یونیورسل پوسٹل یونین، آسٹریلیا، برازیل، جرمنی، ریاست ہائے امریکا، کینیڈاکی فیڈریشنز شامل ہیں۔اسی تصور کو آج اکیسویں صدی میں لاگو کرنا ہوگا، گو کہ اس تصور پر عمل در آمد اتنا آسان نہیں لیکن یہ ناممکن بھی نہیں ہے۔ دوسری طرف سرمایہ داری نظام کی بنیاد ی شرط کرہ ارض کی حقیقتوں سے مطابقت نہیں رکھتی کیونکہ کرہ ارض پر تیل، معدنیات اور جنگلات لا متناہی نہیں ہیں بلکہ وہ جیالوجی اور دوسرے سائنسی اصولوں کے پا بند ہیں۔آپ اندازہ لگائیں کہ اگر سرمایہ داری نظام کو بچانے کیلئے چار فیصد سالانہ گروتھ کی ضرورت ہو تو ایک صدی میں یہ ترقی پچاس گنا بڑھ جائے گی اور یوں پانچ صدیوں میں اکتیس کروڑ گنا ہو جانی چاہیے جس کا تصور ہی محال ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے باوجود انسان کا اس کرۂ ارض پر ہمیشہ کیلئے نیچر سے ہم آہنگی کے ساتھ رہتے ہوئے انسانی بقا کیلئے نئے راستے تلاش کر نا بہت ضروری ہے کیونکہ دیوہیکل ڈائنو سارز اور دوسرے جاندار جو نیچر سے ہم آہنگی پیدا نہیں کر سکے، ہمیشہ کیلئے ناپید ہو گئے۔اس کیلئے سب سے ضروری بات یہ ہے کہ دنیا کے تمام ممالک اس کرہ ارض پر زندگی کو بچانے کیلئے بین الاقوامی ماحولیات کے تمام مسائل اقوام متحدہ کو سپر د کر دیں جس کے فیصلے ہر فرد اور ہر قوم پر واجب ہوں۔ایسی دنیا بسانے کیلئے ہمیں اپنی تمام توانائیاں ایک ایسے انسانی کلچر کو فروغ دینے پر خرچ کرنا ہوں گی جس میںہر انسان کی بین الاقوامی شہریت ہو،جو رفتہ رفتہ ایک گوبل اخلاقیات کو جنم دے۔ دنیا میں ایسے ہی کلچر اور تہذیب کو فروغ د ے کرہم گلوبل تعاون اور اخلاقیات کا ماحول اپنا سکیں گے تا کہ دنیا کے تما م وسائل ’’جس کو جتنی ضرورت ہے‘‘کے اصول پر استعمال کر سکیں۔ آج ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا ہم سائنس کو استعمال کر کے تباہی اور بربادی کیلئے نئے ہتھیار پیدا کریں اور جنگلات اور معدنیات کا اتنابے دریغ استعمال کریں کہ یہ دنیا تباہ و برباد ہو جائے؟اس کیلئے ہمیں جنگ پھیلانے کے جذبوں اور رویوں کو ہمیشہ کیلئے خیر بادکہنا ہوگا اور انڈسٹریل سوسائٹی سے واپس ایسی سو سائٹی میں آنا ہوگا جہاں کلچر، تہذیب و تمدن، موسیقی، آثار قدیمہ کی کھوج، زراعت اور کھیلوں میں نئی نئی وسعتیں پیدا کرکے ایک نئے بین الاقوامی سوشل کلچر کو فروغ ملے جو امن اور سب کی خوشحالی کا ضامن ہو۔

تازہ ترین