• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہوسکتاہے کہ صدر باراک اوباما شام پر فوجی حملے کیلئے کانگریس کی منظوری حاصل کرلیں چاہے اس کی رائے دہی اس بابت تھوڑی ہی موافق ہو، کیونکہ کئی کانگریسی اراکین نے اس حوالے سے فیصلہ نہیں کیا ہے تاہم چند ممالک کی حمایت کے سوا امریکہ بین الاقوامی برادری کی حمایت سے محروم ہے۔ امریکی وزیر خارجہ کا دعویٰ ہے کہ اس حوالے سے حمایت کو تقویت مل رہی ہے تاہم اس کا خاطر خواہ حد تک جانا ابھی باقی ہے۔ اس کے ٹھوس ردعمل کے مطالبے سے حقیقت تبدیل نہیں ہوتی حالانکہ کچھ ممالک فوجی حملے کی حمایت کررہے ہیں۔ خصوصاً اقوام متحدہ کی منظوری کے بغیر فوجی حملے کی ضرورت کے عذر سے اوباما کی دانشمندی کو اپنے عوام کی جانب سے شکوک و شبہات کا سامنا ہے۔حالیہ ہفت روزہ ریڈیو نشریات میں انہوں نے شک میں مبتلا اپنے عوام کو یہ یقین دلانے کی سعی کی کہ شام پر فوجی حملے کے نتائج عراق اور افغانستان جیسے نہیں ہوں گے۔ امریکی اس رائے عامہ جائزوں کے مطابق وہاں عوامی اکثریت شام پر حملے کے خلاف ہے۔پیو پول کے مطابق صرف 29 فیصد امریکیوں نے فوجی حملے کے حق میں رائے دی ہے۔ اے بی سی واشنگٹن پوسٹ کے سروے کے 59 فیصد شرکاء نے شام پر فوج کشی کی مخالفت کی۔فوجی مداخلت کے خلاف دنیا بھر کی مخالفت اور بھی زیادہ ہے۔ گزشتہ ہفتے ہونے والے جی 20 کانفرنس میں ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک کے اس گروہ نے اپنی رائے کا وزن شام کے مسئلے کے فوجی حل کے مخالف پلڑے میں ڈالا۔ سینٹ پیٹرزبرگ کے مقام پر دنیا کے بیشتر قائدین امریکہ کی فوجی کارروائی کے خلاف تھے۔
جس سے سفارتی طور پر اوباما تنہائی کا شکار نظر آئے اور کانفرنس کے اختتام پر ان کے ہاتھ مضبوط ہونے کے بجائے کمزور ہوگئے۔ اگر شام پر بمباری کے منصوبے کیلئے وہ فرانس ، کینیڈا، ترکی اور عرب ملکوں کے علاوہ کسی اور ملک کی تائید کیلئے پُرامید تھے تو ایسا ہونے والا نہیں تھا اور اس نکتے پر صدر ولادی میر پیوٹن نے کہا کہ ’روس جیسا ملک فوجی کارروائی کے خلاف ہے‘۔ کانفرنس میں شام کے موضوع پر گھنٹوں غیر رسمی بحث کے بعد یہ واضح تھا کہ آراء کا توازن جنگ کی وکالت کرنے والوں کیلئے دھچکا ثابت ہوا۔ عیسائیوں کے روحانی پیشوا پوپ نے کانفرنس میں اپنے پیغام میں بین الاقوامی برادری کو خبردار کیا کہ فوجی حل بے سود ہے۔ پورپی نمائندے کی طرح اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری نے بھی دوبارہ سیاسی حل کا مطالبہ کیا۔
جی 20 کانفرنس جہاں آراء کی خلیج ختم نہ کر سکی اور فوجی کارروائی کیلئے سرگرم ہوتے ہوئے ماحول کو اقوام متحدہ کے رکے ہوئے جنیوا امن کانفرنس کے سفارتی عمل کے ذریعے خوشگوار نہ بنا سکی وہیں اس سفارتی عمل میں تھوڑی جان ڈال کر امریکہ سے عسکری راستہ ترک کرانے کی امیدیں بھی بر نہ آسکیں۔ ایسی صورتحال متحارب فریقین کی جانب سے اقوام متحدہ کے عہدیداروں کی اس دائمی شکایت کی غمازی کرتی ہے جس کے مطابق یہ معاملات مذاکرات سے طے کرنے کی خواہش نہیں رکھتے، یہ ایک ایسا رویہ ہے جس نے امن کانفرنس کے اجلاس کے انعقاد کو روکا ہوا ہے۔
اقوام متحدہ کی اجازت کے بغیر مذکورہ اقدام کے غیر قانونی ہونے کی اور عراق پر حملے جیسی حماقت کی وجہ سے دنیا بھر کے جذبات طاقت کے استعمال کے خلاف ہیں جو کہ صدام حسین کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی غلط خفیہ اطلاعات پر کیا گیا تھا۔ شام پر فوجی حملے کے مخالفین کی رائے کو اس لئے تقویت حاصل ہوئی کیونکہ انہوں نے یہ مدنظر رکھا کہ فوجی حملہ پہلے سے ابتری کے شکار خطے میں بڑے تنازع کو طول دینے کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔ بین الاقوامی برادری میں امریکہ کے محتاط اور انتہائی محدود پیمانے پر فضائی حملوں کی دلیل کے حامی چند ایک ہی ہیں۔ شام کی فوجی استعداد کو کمزور کرنے کیلئے مختصر حملے کا موقف اس اقدام کو قانونی نہیں بنا دے گا اور نہ ہی خطے کو خانہ جنگی کا شکار ہونے سے روک سکے گا۔ بے تاب کردینے والا تصور یہ ہے کہ بمباری کی غیر یقینی کے نتیجے میں جن افراد کو خاموشی سے ضرب لگے گی وہ جوابی کارروائی نہیں کرسکیں گے اور ایسی کارروائی کے ضمن میں انہیں ہمسایہ ممالک سے بھی مدد نہیں ملے گی۔
اس کارروائی کے نتائج تذویری ابتری کے تصور سے کہیں زیادہ ہونگے۔ جیسا کہ چین کے نائب وزیر خزانہ نے جی 20 کانفرنس میں خبردار کیا تھاکہ فوجی کارروائی کی وجہ سے تیل کی قیمتیں بڑھ سکتی ہیں جس کی وجہ سے عالمی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اور وہ زبوں حالی کی جانب گامزن ہو سکتی ہے لہٰذا عالمی استحکام کیلئے اس کارروائی کے معاشی اثرات بھی اتنے ہی نتیجہ خیز ہیں جتنے کہ اس کے سیاسی اثرات ہو سکتے ہیں لیکن امریکہ کی قومی سلامتی کی ٹیم نے کانگریس کے اراکین کے روبرو فوجی کارروائی کے مطالبے کو جب پیش کیا تو انہوں نے اس ضمن میں ہونے والے غوروفکر کو رد یا ایک طرف کردیا۔ اسے ان سینیٹرز کے سامنے فوجی حملے کے بعد کی صورتحال جیسے کڑے سوالات کا سامنا رہا اور امریکی انتظامیہ کے عہدیداران سے ان کی پیشکش کے اور مدلل جوابات طلب کئے گئے۔ امریکی انتظامیہ کی دلیل یہ تھی کہ ان کے نزدیک کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے قانون کا نفاذ اہم ہے جس کا استعمال بین الاقوامی قوانین کے تحت ممنوع ہے۔ امریکہ کے قابل بھروسہ ہونے کی بات کو اس دلیل کا مرکز بنایا گیا کہ اگر امریکہ اپنے صدر کے قول کو وفا نہ کرے جیسا کہ انہوں نے کہا تھا کہ امریکہ کی ساکھ کو سنگین دھچکا لگے گا۔ اس سے ایسا لگتا ہے کہ محض امریکہ کی ساکھ کو بچانا دوسرے ملک پر بمباری کرنے کی معقول وجہ اور فضائی حملوں کے نتیجے میں لازمی طور پر ہونے والی خونریزی کا جواز ہے۔ درحقیقت امریکی رہنما اپنے اور دوسروں کے سامنے غلط راستے کی پیشکش کررہے ہیں کہ صرف واحد راستہ ہاتھ گھماکر فوجی کارروائی اور پھر کپڑے جھاڑ کر کھڑے ہوجانا ہے، دوسرے لفظوں میں انہوں نے یہ دلائل دیئے کہ واحد ردعمل عسکری ہی ہے تاہم یہ دلیل حقیقت سے کوسوں دور ہے، مفلوج اور قتل ہونے کے مابین راستے کا کوئی انتخاب نہیں ہے، ایک دفعہ اگر یہ مکمل طور پر ثابت ہوجائے کہ بشارالاسد نے واقعتاً کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا ہے تو ان کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے حوالے سے قوانین پر عملدرآمد کیلئے کئی غیر عسکری راستے موجود ہیں۔ جن میں سخت سفارتی اور معاشی پابندیاں، ہتھیاروں کی خریداری پر پابندی، سلامتی کونسل کی جانب سے مذمت کیا جانا، شام کیلئے خصوصی ٹریبونل کا قیام، کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے ضمن میں ہونے والی خلاف ورزی کو انٹرنیشنل کرمنل کورٹ(آئی سی سی) میں لے جانے اور شامی حکومت کی اعلیٰ شخصیات پر سفری پابندیاں عائد کرنے جیسے جبری اقدامات شامل ہیں تاہم ایسے سخت اقدامات کیلئے اقوام متحدہ کے تحت کام کرنا ضروری ہے جہاں احتساب کیلئے طریق کار موجود ہیں بشرط یہ کہ ناقابل تردید شواہد فراہم کئے جائیں لہٰذا انتخاب محض جبری اور سفارتی طریقے کے مابین کیا جانا ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ بظاہر اوباما انتظامیہ پہلے ہی اپنا انتخاب کرچکی ہے اور طاقت کے استعمال کا راستہ اختیار کرنے کیلئے محض کانگریس کی منظوری کی منتظر ہے لیکن بین الاقوامی برادری کی اکثریت نے بین الاقوامی قوانین سے جڑے رہنے کو ترجیح دی جس کے مطابق رکن ممالک کو طاقت کے استعمال سے باز رہنا پڑتا ہے ماسوائے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اس کی اجازت دے یا اس راستے کو اپنے دفاع کیلئے اختیار کیا جائے۔ جی 20 کانفرنس کے اکثریتی اراکین نے باقی عالمی برادری کی طرح امریکہ کی یکطرفہ کارروائی کے نتیجے میں ہونے والی بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کی تائید پر رضامند نہ ہونے کا مظاہرہ کیا۔ ایک امریکی تجزیہ نگار نے حال ہی میں لکھا ہے کہ شام کی بحث امریکہ اور واشنگٹن کے مابین نئے فاصلے کو مرکز نگاہ بنادیا ہے۔ حالیہ ہفتے اور اگلے ہفتے میں اوباما کی جانب سے اس خلیج کو کم کرنے کی سعی دیکھنے میں آئے گی۔ آیا وہ اس کاوش میں کامیاب ہوں یا نہ ہوں اگر صدر اوباما ایک اور اسلامی ملک پر حملے کے حکم کا سنگین اقدام اٹھاتے ہیں تو واشنگٹن اور باقی دنیا کے مابین خلیج میں مزید اضافہ ہوگا۔
تازہ ترین