• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بے اختیار متوجہ کرنے والی شخصیت آصف علی زرداری اپنے دورِ صدارت کی طرح یاد آتے رہیں گے۔ اگرچہ آپ متفقہ صدر بنے تھے لیکن قبول بادل نخواستہ کئے گئے۔ تقریب حلف برداری کے دوران قصرِ صدارت میں جیالوں کے نعروں کو اپنی جان و جگر پر تیر کی طرح محسوس کرنے والوں نے ایک لمحہ تاخیر کئے بغیر ”روایتی“ کھیل کا آغاز کر دیا تھا اور یہ سلسلہ وفاق کی علامت پیپلز پارٹی کو صوبائی جماعت بنانے تک دراز رہا۔ یہ زرداری صاحب ہی کا سینہ تھا، جس نے تمام تر جبر کے باوجود اقتدار کی غلام گردشوں کے اسرار و رموز کو چھپائے رکھا۔ آج بھی جب سابق صدر کہتے ہیں ”سونامی کراچی میں آنا تھا لیکن خیبرپختونخوا میں آ گیا، بہت سی طاقتیں نہیں چاہتیں کہ پاکستان میں جمہوریت مضبوط ہو، اس لئے انہوں نے الیکشن میں ہمارا مینڈیٹ چھینا اور چرایا“ تو یہ چند سطریں اس ہوشربا کتاب کی چغلی کھا رہی ہوتی ہیں جسے اقتدار میں ہر آنے والے کو ازبر کرایا جانا ناگزیر سمجھا جاتا ہے، ان سطروں سے سرسری گزر جانا یا ان کا سر پر سے گزر جانا اس حقیقت کی غمازی ہے کہ ہم باطن کو ٹٹولنے کے بجائے ظاہری لباس ہی کو حُسن سے تعبیر کرنے کے عادی بن گئے ہیں اور اقتدار میں آنے والے سیاستدانوں کو بے توقیر کرنے کی خاطرکیا کیا حربے آزمائے جاتے ہیں۔ یہ ہمارا موضوع نہیں رہتا! جن طاقتوں کی طرف زرداری صاحب نے توجہ دلانے کی کوشش کی ہے، جیالے ان سے بہتر طور پر واقف ہوں گے۔ ہمیں تو یہ خبر ہے کہ وہ طاقتیں جو قیام پاکستان کے فوری بعد سات سمندر پار سے آ کر خطے میں منڈلانے لگی تھیں اب ان میں مزید بیرونی ”دوستوں“ کی بھی کرم فرمائی شامل ہو گئی ہے۔ پاکستانی سیاست پر اثر انداز ایسی تمام طاقتوں کا یہ عالم ہے کہ وہ جب چاہیں شر کو خیر اور خیر کو شر باور کرا دیں۔ ہم عوام کی شعوری استطاعت چونکہ ہنوز زلفِ جاناں کے پیچ و خم کے باعث بامِ ادراک پر پہنچ نہیں پائی ہے، اس لئے زرداری صاحب کے بعد شاید اب میاں صاحب بھی اپنے سینے کو ایسے ہی رازوں کا مسکن بناتے ہوئے خود کو با امر مجبوری یہی تلقین کرتے دکھائی دیں۔
محبت کے فسانے دیدہ و دل کی امانت ہیں
خیانت سے زباں کو محرمِ اسرار کر لینا
وزیراعظم میاں نواز شریف چہرہ تو خیر تمام کوشش کے باوجود بسا اوقات ان کے باطن کی تصویر کشی کر ہی جاتا ہے لیکن یہ کمال زرداری صاحب کو ہی حاصل تھا کہ انہوں نے دل پذیر مسکراہٹ کے سہارے توازن و تفنن کی فضا برقرار رکھنے کی خاطر جس طرح بے تکلف و بے فکر انداز اختیار کیا، بلاشبہ وہ ایک ایسے کارِ آزمودہ جنرل کی مانند تھا جس کے حریف پسپا ہوتے رہتے ہوں!! پاکستان میں اقتدار پر براجمان ہونے والے اس طلسم کدہ کی تاب نہ لاتے ہوئے ہمیشہ مدہوش ہی رہتے ہیں۔ وہ وہی کرتے ہیں جو ان سے کہا جاتا ہے۔ سابق صدر نے بھی وہی کیا، لیکن آپ پورے ہوش میں رہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے بسا اوقات ایسے تار بھی چھیڑے، جن سے زیر بحث طاقتیں بدمزہ ہوئیں۔ آپ وقفے وقفے سے ہلکی ہلکی کنکریاں پھینک کر انہیں اپنے وجود کا احساس بھی دلاتے رہے۔ پورے پانچ سال یہی آنکھ مچولی ہوتی رہی، نہ انہوں نے سکون کا سانس لیا اور نہ آپ خواب آور دواؤں کے بغیر گزارہ کر سکے۔ خان عبدالولی خان مرحوم کو ضیاء الحق صاحب نے جب گورنر فضل الحق کے ذریعے وزارت عظمیٰ کی پیشکش کی تو خان صاحب نے انکار کر دیا۔ راقم کو وہ دن یاد ہیں جب جنرل فضل الحق صاحب، ولی خان صاحب سے ملنے لندن جانے سے قبل نفیس انسان اور اصول پرست سیاستدان سردار شیر باز مزاری جو کہ اس وقت این ڈی پی کے مرکزی صدر تھے، کی رہائش گاہ کراچی آئے ۔ پاکستان واپسی پر اقتدار میں آنے سے انکار کی وجہ بتاتے ہوئے ولی خان صاحب نے کہا تھا کہ پاکستان کے تقریباً ہر حکمران نے انہیں اقتدار میں آنے کی پیشکش کی اور انکار پر غداری کے الزامات سے تواضع کی لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ جو اقتدار دیتے ہیں، منشا و اختیار بھی انہی کا ہوتا ہے اور پھر رخصت بھی وہی کرتے ہیں۔ اختیار کے ایسے اقتدار کو لے کر ملک و ملت کی کیا خدمت کی جا سکے گی!؟
تاریخ کا نوحہ یہ ہے کہ قیام پاکستان تا امروز ”ڈیل“ کے بغیر کسی کو اقتدار حوالے کیا ہی نہیں گیا۔ فقید المثال عوامی حمایت کے باوجود پیپلز پارٹی کی حکومت بھی ڈیل کا نتیجہ تھی اور وقت یہ بھی ثابت کرے گا کہ تمام تر عوامی مقبولیت کے باوجود مسلم لیگ (ن) کو کس طرح بیرونی سہاروں کی ضرورت درکار ہوئی؟ آصف زرداری کی مجبوریوں کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو پیپلز پارٹی کی ناکامیوں کے ساتھ ساتھ اس کی کامیابیاں بھی نمایاں ہوتی چلی جائیں گی۔ بڑی کامیابی جمہوری روایات کے تحت انتقال اقتدار کا تاریخ ساز واقعہ ہے۔ یہ زرداری صاحب کے صبر و استقامت ہی کا کرشمہ تھا کہ بہت سارے بوجوہ انہیں عزت سے رخصت کرنے پر مجبور ہوئے۔ وہ غیر محسوس طور پر ایک ایسی آزمائش گاہ تعمیر کر گئے کہ جس میں عوام اب مسلم لیگ و تحریک انصاف کی قیادت کو صبح شام دیکھتے ہوئے محظوظ ہوتے رہیں گے۔
مجبوری کی حقیقت اپنی جگہ مگر کرپشن ان کی حکومت پر لگنے والا ایک ایسا داغ ہے جس کے سامنے 19,18 اور 20 ویں آئینی ترمیم کے شاہکار روشن پہلو ماند پڑ گئے۔ پیپلز پارٹی کو تمام باتوں کیلئے مجبور کیا جا سکتا تھا لیکن کرپشن کیلئے نہیں، کیونکہ یہ اختیاری تھا، جسے وزیروں مشیروں کی جانب سے لازمی بنائے جانے سے بے نظیر بھٹو انکم سپورٹ جیسا غریب پرور پروگرام بھی عوام کی نظروں سے اوجھل رہا۔ اتحادیوں کو ساتھ ساتھ رکھنا اس فن کا ایک جُز ہے جسے زرداری صاحب بھرپور صلاحیتوں سے بروئے کار لائے۔ صوبہ سرحد کو پختونخوا کا نام دیئے جانے سے اے این پی جیسے ان کے اتحاد کا اٹوٹ انگ بن گئی۔ مجھے سینیٹر شاہی سید صاحب نے بتایا کہ پیپلز پارٹی سندھ حکومت نے اے این پی کے ساتھ کئے گئے وعدوں سے ہمیشہ انحراف کیا لیکن مرکزی قیادت آئینی ترامیم سے حاصل ہونے والے صوبائی حقوق کو ترازو کے دوسرے پلڑے میں رکھتے ہوئے اسے بھاری مانتی رہی۔ ایک بات یہ بھی نوٹ کرنے کی ہے کہ جنرل پرویز مشرف کو اقتدار سے نکال باہر کرنے کی منصوبہ بندی اگر بعض قوتوں کی مدد سے محترمہ بے نظیر بھٹو شہید اور میاں نواز شریف صاحب نے طے کی تھی تو اس منصوبے کو پایہٴ تکمیل تک آصف زرداری صاحب ہی نے پہنچایا۔
دیگر کے علاوہ محترمہ شہید کے قاتلوں کو کیفر کردار تک نہ پہنچائے جانے کا الزام بھی بھاری و وزنی ہے لیکن اس حوالے سے بھی ان کے پاؤں مجبوریوں کی زنجیروں سے خون خون ہیں۔ یہ مجبوری محترمہ بے نظیر بھٹو کو بھی اس وقت لاحق ہوئی جب ان کے دور وزارت عظمیٰ میں میر مرتضیٰ بھٹو کو قتل کیا گیا۔ محترمہ نے جس قدر اپنے بھائی کے قتل پر خود کو بے بس پایا وہ اس بے بسی سے کہیں زیادہ تھا جب ان کے والد کو تختہ دار پر لٹکایا گیا۔ تب ایک ڈکٹیٹر کی حکومت تھی اور اب ان کی اپنی حکومت تھی۔ کہنا یہ مقصود ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی طرح جناب آصف زرداری کی بھی یہی آرزو ہو گی کہ قاتل، انجام کو پہنچ جائیں لیکن بے رحم وقت انہیں بھی لاچار ثابت کرنے پر بضد ہے۔ جو لوگ زرداری صاحب سے زیادہ محترمہ کے اپنے بننے کے نام نہاد جنون میں مبتلا ہیں وہ اپنے دعوے میں جھوٹے ہیں، سچے وہ آنسو ہیں جو محترمہ کے ذکر پر زرداری صاحب کی آنکھوں سے چھلکتے ہیں اور جو اپنی شہید لیڈر کی تصویر کو مخاطب کرتے ہوئے بزبانِ جاوید صبا ہر روز یہی کہتے ہیں
تم نے کہا تھا آؤ گے تم تھوڑی دیر میں
تھوڑی سی دیر کو بھی بڑی دیر ہو گئی
تازہ ترین