• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، ایک امکانی تجزیہ‘‘ کے عنوان سے گزشتہ بدھ کو شائع شدہ کالم ان الفاظ پر ختم کیا گیا تھا، ’’آپ کا ذوالفقار علی بھٹو کے تختہ دار کو سرفراز کرنے کے قوی عمل اور بی بی شہید کی شہادت میں تفریق یا تقسیم کی راہیں نکال کر بلاول کو دونوں بھٹوز میں سے ایک کے انتخاب کا از خود مشورہ یا نصیحت آپ کے کسی ذہنی بہکائو یا تشنج کا نتیجہ تو ہو سکتا ہے بلاول بھٹو زرداری کے منصب کا تقاضا نہیں، وہ اپنے نظریاتی اور سیاسی ورثے کے حصے بخرے کر کے نہیں اسے پورے فکری حجم کے طور پر لے کر چلنے کا شعور رکھتا ہے!‘‘
امکانی تجزیئے کے اس اختتامی پیرا گراف کا پس منظر اس طرز فکر کی بنیاد تھا جس کے حوالے سے بعض حضرات ان دنوں ذوالفقار علی بھٹو کی نفی، بی بی شہید کی تصدیق اور آصف علی زرداری کی تنقیص کا غیر منصفانہ، متعصبانہ اور غیر معروضی استدلال اختیار کرتے ہیں۔ بلاول کے لئے ایک فارمولا متعین کر دیتے ہیں، متعین ہی نہیں اس فارمولے کو من و عن قبول کرنے میں ہی اس کی سیاسی بقاء ہے بصورت دیگر ان کے نزدیک اس کا سیاسی وجود ہی سوالیہ نشان بن سکتا ہے، یہ ہے نفس پرستانہ، خود پرست اور ذہنی خود سری پہ مبنی تجزیوں کی حقیقت ۔
بلاول کے پاکستان کی عملی سیاست میں آنے سے کہیں پہلے اس کے نانا کو عدالتی قتل کی بھینٹ چڑھا دیا گیا، ماں کو شہید کر دیا گیا اور یوں بلاول کی ساری نظریاتی اور عملی تربیت ان کے والد گرامی، سابق صدر پاکستان، قائداعظم، ذوالفقار علی بھٹو اور بی بی شہید کے بعد آج کی قومی سیاسی لاٹ کے واحد سیاسی مفکر آصف علی زرداری کے زیر سایہ ہوئی جس کا سلسلہ پہلے روز ہی کی طرح آج بھی جاری ہے!
یہ یونانی کہانیوں جیسا المیہ ہے جن کے مطابق ہیرو غیر مرئی اثرات PERCEPTIONSکے تحت مخالفوں کیلئے ’’باکسنگ بیگ‘‘ بن جاتا ہے، وہ اس کی شخصیت کے ہر مسام میں برائی کا ایک سوراخ تلاش کر لیتے ہیں۔ دنیا کو دکھانے اور ثابت کرنے میں بظاہر کامیاب ہو کر اس کے اردگرد غلط فہمیوں اور الزامات کا جال بن دیتے ہیں۔ بلاول اپنے سیاستدان والد گرامی کے اس گرداب میں موجود رہ کر ان کے نظریاتی کردار و عادات کے مثالی معیارات اپنانے اور ان پر پورا اترنے کی جدوجہد میں سرخرو ہو رہا ہے، غیر معمولی طور پر ذہین و فطین نوجوان بلاول بھٹو زرداری نے پاکستان کی عملی سیاست میں آنے کے بعد، ان برسوں کے دوران میں، ایک طرف اپنے عظیم والد گرامی کے حوالے سے افترا پردازیوں کے اس تصور و تاثر کو ایک لحظے کیلئے بھی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیا ہو گا، دوسری جانب اسی ہستی کے نظریات و کردار کا حقیقی اور سچا پرتو اپنی نظروں کے سامنے رکھا نتیجتہً دروغ گوئی ہار گئی اور حق شناسی کی جیت ہوئی، بالکل ایسے ہی جیسے بی بی شہید کی زندگی میں آصف علی زرداری اور ان کی ازدواجی زندگی کے ہر روز کو متنازع اور مشکوک سایوں میں مقید کرنے کی کوشش کی گئی، انجام کار اس سماجی بدی کو خاک چاٹنا پڑی، دونوں میاں بیوی ایک دوسرے پہ جاں وار کے زندگی گزار تے تھے، اسی طرح بلاول بھٹو زرداری کے قصے میں آصف علی زرداری کے ساتھ بلاول کے اختلافات، دوریوں، ناراضیوں اور گستاخیوں کے خود ساختہ افسانوں کی موت واقع ہوتی چلی گئی۔چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر آصف علی زرداری کی قیادت و رہنمائی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے فلسفہ فکر و سیاست میں کسی اضطراب یا کنفیوژن کے بجائے پورے یقین و اعتماد کا عملی مظاہرہ کیا ہے۔ یہ یقین و اعتماد ہی ہے جس کی بناء پر انہوں نے پی پی کا سارا تنظیمی ڈھانچہ تحلیل کر دیا، ہر صوبے میں کمیٹی بنا کر، اسے صوبوں کے تفصیلی جائزہ دوروں کے بعد رپورٹس مرتب کرنے کی ہدایات دی ہیں، مستقبل میں پی پی کی مرکزی اور صوبائی قیادتوں میں ہو سکتا ہے عوام کو ایک حیرت آمیز خوشی اور اطمینان کا احساس ہو، بلاول کے بیانات اور تقریریں ڈویلپ ہو رہی ہیں مگر ابھی بھی، غریب اور محروم طبقات کیلئے ان کی آواز اسی مطلوب عزم اور گھن گرج کی آئینہ دار ہوتی ہے، ان کی کوئی کچن کابینہ، ان کے خصوصی مشیران گرامی، ان کے میڈیا کوآرڈی نیٹرز، انہیں افکار تازہ سے لدا پھندا رکھیں، وقت کے سامنے موجود ایشوز کی واضح ترتیب و ترجیح کی صلاحیت سے کام لیا جائے۔
چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو اس پارٹی کا محکم سپرد کیا گیا جوہمیشہ تشدد برداشت کیا، ظلم و زیادتی کے پہاڑوں تلے پیسی جاتی رہی، جس نے پاکستان کو خود مختاری کی طاقت سے ہمکنار کیا، جس نے عورتوں، مزدوروں، کاشتکاروں، ہاریوں، اقلیتوں، طالب علموں، عالمی برادری، دانشوروں، تعلیمی اداروں اور عام شہریوں میں آئین، جمہوریت اور عزت نفس کے اصولوں کی بنیاد رکھی، پیپلز پارٹی نے اپنی تاریخ میں کبھی ’’شریکہ کٹنے‘‘ کی خاطر آئین اور جمہوری تسلسل کو قربان نہیں کیا، پیپلز پارٹی نے بھی کسی ’’دو نمبری جمہوریت‘‘ اور بین الاقوامی خارجہ معاملات میں کبھی رجعت پسند HAWKSکا ساتھ نہیں دیا۔
یہ پاکستان پیپلز پارٹی کا فکری و سیاسی ورثہ ہے جس کے ہوتے پاکستان میں ’’ملا اختر منصور‘‘ جنم نہیں لے سکتے تھے، یہ پی پی کا سیاسی ورثہ ہے جس کے ہوتے عالمی برادری کبھی پاکستان کے خلاف ایف آئی آرز‘‘ نہ کاٹ سکتی، یہ پاکستان پیپلز پارٹی کا نظریاتی شعور ہے جس کی موجودگی میں کسی ’’ٹیلیفون کال‘‘ کے آنے کے وقوع کی پیدائش ہی نہیں ہونی تھی، یہ پاکستان پیپلز پارٹی ہے جس کے ادوار حکمرانی میں ریاست اس ملبے سے آشنا ہی نہ ہوئی جو ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد اس کی کمر پہ لاد دیا گیا، آج ’’ملا اختر منصور‘‘ ان رجعت پسند HAWKS کیلئے وہ پاکستان بن چکا ہے جسے ماضی کےہر اس سانحہ کا بوجھ بھی اٹھانا پڑتا ہے جس کو جواز بنا کر عالمی برادری، پاکستان کے بارے میں ایف آئی آرز ہی نہیں، ضمنیاں بھی کاٹتی جا رہی ہے، پاکستانی عوام دیکھ رہے ہیں، پاکستانی سیاست ایک طرف آئین اور جمہوری تسلسل بچانے کی خاطر، دوسری طرف پاکستانی ریاست خود کسی بھی قسم کی دہشت گردی سے بری الذمہ ہونے کی خاطر ، آصف علی زرداری کی ضرورت محسوس کر رہی ہے، بس یہی پاکستان پیپلز پارٹی ہے، بلاول اس کے چیئرمین ہیں، نانا، ماں اور باپ کے سیاسی ورثے کے علمبردار۔
تازہ ترین