• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
برطانوی نژاد پاکستانی صادق خان کی بطور لندن میئر کامیابی نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی سوچ کو تقسیم کرکے رکھ دیا ہے وہ پاکستانی جو پہلے رہتے تو مختلف ممالک میں تھے لیکن ان کی دلچسپی ہمیشہ ہی پاکستانی سیاست میں ہوتی تھی اورمختلف پاکستانی سیاسی جماعتوں سے تعلق کے سبب پاکستانی کمیونٹی اختلافات کا شکار رہتی جس کے ہمیشہ ہی منفی اثرات پیدا ہوتے رہے تھے ، لیکن اب بیرون ممالک مقیم پاکستانیو ں میں مقامی سیاست میں حصہ لینے کا رحجان پیدا ہورہا ہے جس کیلئے ہر ملک میں پاکستان کے سفارتی حکام اور وہاں کے مقامی کمیونٹی لیڈران بھی پاکستانی کمیونٹی کی حوصلہ افزائی کرتے نظر آرہے ہیں ،میں اس وقت یورپی یونین کے اہم ملک بلیجئم کے دارالحکومت برسلز میں موجود تھا جہاں پاکستانی کمیونٹی کی اہم تقریب تھی جس میں مقررین انتہائی جذباتی انداز میں پاکستان سےاپنی محبت اور دہشت گردی کے خلاف نفرت کا اظہار کررہے تھے ، یہ تقریب ای یو پاک فرینڈشپ فیدڑیشن یورپ کے زیر اہتمام منعقد ہوئی تھی جس کے مہمان خصوصی عالمی شہرت یافتہ برطانوی ہائوس آف لارڈز کے رکن لارڈ نذیر احمد اور برسلز کی خاتون میئر تھیں ، میں اس وقت یورپ کے سیاحتی دورے پر تھا اور جہاں سوائے میری کتاب کی تقریب رونمائی کے کوئی اور اہم سماجی تقریب میں شرکت بھی پروگرام کا حصہ نہ تھی لیکن جرمنی میں مقیم دوست کی وساطت سے متعارف ہونے والی برسلز کی معروف سماجی شخصیت پرویز لوسر صاحب کی دعوت پر اس اہم تقریب میں موجود تھا ، اور اس وقت میرے سامنے اسٹیج پر پرویز لوسر ہی اپنے خیالات کا اظہار کررہے تھے ،کئی برسوں کے صحافتی تجربے کی بنیاد پر میرے لئے بہت آسان ہوتا ہے یہ جانچنا کہ اسٹیج پر موجود شخص کوئی لکھی لکھائی تقریر کررہا ہے یا دل سے اپنے جذبات کا اظہار کررہا ہے لیکن پرویز لوسر جس طرح اپنے وطن پاکستان سے محبت کا اظہار کررہے تھے وہ بلاشبہ ان کے دل کی آواز ہی تھا ، وہ پورپی یونین کے ہیڈ کوارٹر میں پاکستان کے مفادات کے تحفظ کی بات کررہے تھے ، وہ پاکستان کے خلاف بھارتی سازشوں کو یورپی یونین کے سامنے بے نقاب کرنے کی باتیں کررہے تھے ، وہ پاکستانیوں کو اپنے سیاسی نظریات کو چھیڑے بغیر اس نئی تنظیم میں شمولیت کی دعوت دے رہے تھے ، بعض دفعہ جذبات کی شدت سے ان کی آواز میں تیزی بھی آجاتی لیکن تقریب میں موجود پاکستانی انتہائی انہماک سے اس وطن سے محبت کرنے والے پاکستانی کی تقریر سن رہے تھے ، وہ آئندہ چند دنوں میں بیلجیم کے وزیر خارجہ سے ملاقات طے ہونے کا بتارہے تھے جہاں وہ ان سے بھارتی جاسوس کی پاکستانی میں گرفتاری اور پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں بھارت کے ملوث ہونے کے ثبوت بھی بیلجیم کی حکومت کو پیش کرنے والے تھے ، بلاشبہ پاکستان کو اس نئی تنظیم کی صورت میں ایک اہم سفارتی ہتھیار حاصل ہونے والا تھا لیکن دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان اس اہم سفارتی ہتھیار کو استعمال کرسکے گا یا نہیں ، اس سلسلے میں برسلز میں پاکستانی سفارت کاری کو اہم کردار ادا کرنا پڑے گا جس کیلئے اس تقریب میں پاکستانی سفارتی حکام بھی موجود تھے ، اب میرے سامنے تنظیم کے پیٹرن لارڈ نذیر احمد خطاب کیلئے موجود تھے ، لارڈ نذیر احمد نے تقریب میں موجود حاضرین کو تلقین کرتے ہوئے کہا کہ تمام پاکستانی چاہے وہ یورپ کے کسی بھی ملک میں رہتے ہوں انھیں چاہئے کہ وہ مقامی سیاست میں ضرور حصہ لیں چاہے انھیں فوری طور پر کوئی نتائج حاصل نہ بھی ہوں لیکن طویل مدتی نتائج نہ صرف ان کیلئے بلکہ پاکستان کیلئے بھی بہترین ثابت ہونگے ، لارڈ نذیر احمد نے اپنے خطاب میں پاکستان سے محبت کا درس دینے کیساتھ ساتھ اس نئی تنظیم کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ای یو پاک فرینڈ شپ فیڈریشن یورپ پاکستان کے سفارتی دفاع کیلئے اہم ہتھیار ثابت ہوگی اور اس تنظیم کے ذریعے وہ یورپی ممالک کو بھارت کا اصل چہرہ دکھاسکیں گے ، اس تقریب کی اہم بات یہ تھی کہ اس میں پاکستان کی ہر سیاسی جماعت کے افراد شریک تھے جو اس بات کا ثبوت تھا کہ پاکستان کے مفادات کیلئے ہر پاکستانی اپنے ذاتی مفادات کو قربان کرنے کی اہلیت رکھتا ہے ، اس موقع پر برسلز کی میئر نے بیلجیم میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کےشانہ بشانہ کھڑا ہے اور پاکستان میں دہشت گردی کی بھرپور مذمت بھی کرتا ہے اور اس نئی تنظیم کیلئے وہ وزیر خارجہ سے ملاقات کا اہتمام کراکے اپنی ذمہ داری ادا کرنا چاہتی ہیں ، دیار غیر میں اتنے سارے مختلف طبقہ اور سیاسی نظریات کے باوجود ایک ہی چھت کے نیچے موجود پاکستانیوں کو دیکھ کر میرا اس بات پر یقین بڑھ گیاکہ پاکستان کا مستقبل انتہائی روشن ہے اور جس ملک کے دنیا بھر میں اتنے چاہنے والے موجود ہوں اس ملک کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ، بہرحال یہ تو اس تقریب کا احوال تھا جس میں ،میں نے برسلز آمد کے پہلے دن ہی شرکت کرلی تھی لیکن اس سے قبل میں برسلز میں تعینات پاکستانی سفیر سے بھی ملاقات کرچکا تھا ، اس ملاقات میں بھی ہمیشہ ہی کی طرح راوی پاکستان کیلئے سب چین ہی چین لکھ رہا تھا ، میں جرمنی جیسے پر کشش اور دنیا کی چوتھی بڑی معیشت رکھنے والے ملک کے شہر فرینکفرٹ میں چند دن گزار چکا تھا جہاں تیز رفتار ترقی کی وجہ سے لوگوں کے چہروں پر سکون نظر آتا ہے ،کوئی بھاگ دوڑ یا کوئی گھبراہٹ یہاں دکھائی نہیں دیتی ، یہاں بہترین نظام زندگی چاہے وہ تعلیم کا ہو یا کاروبار کا یا حکومت کرنےکا ،غرض پاکستانیوں کیلئے یہاں بہت کچھ سیکھنے کو تھا لیکن افسوس کہ ہمارے چوٹی کے سیاستدان اس بہترین ملک میں علاج اور آرام کی غرض سے آتے تو ضرور ہیں لیکن یہاں سے سیکھ کر کچھ بھی نہیں جاتے ، اسی پریشانی کا اظہار جرمنی میں مقیم سینئر پاکستانی اور معروف سماجی شخصیت سید خرم نے بھی کیا جنھیں کئی اہم سیاسی رہنمائوں کی جرمنی میں میزبانی کا شرف حاصل رہا ہے لیکن وہ اپنی کوششوں کے باوجود جرمنی کا تعلیمی نظام ، یہاں کی ترقی کی وجوہات پاکستان منتقل کرانے میں ناکام رہے ، میں بھی جرمنی کی خوبصورت زندگی کے چند دن انجوائے کرکے اس احساس محرومی کیساتھ وہاں سے رخصت ہوا کہ کاش پاکستان میں بھی یہاں کی ترقی یافتہ زندگی کے کچھ لوازمات ہی میسر ہوجائیں ، بہرحال جرمنی سے شاندار اور تیز رفتار بلٹ ٹرین کے ذریعے میں اپنی اگلی منزل بیلجیم کے ہیڈ کوارٹر برسلز پہنچ گیا ،جہاں کے خوبصورت موسم نے خوش آمدید تو ضرور کیا لیکن سیکورٹی کے سخت اقدامات کے سبب ہر جگہ مسلح فوجی اور پولیس حکام نظرآرہے تھے یہ سب اقدامات یہاں کی حکومت نے چند ماہ قبل اپنے ملک میں دہشت گردی کے واقعات کے بعد اٹھائے تھے ، ان واقعات کے سبب برسلز میں پاکستانیوں کے کاروبار کو شدید نقصان پہنچا ہے ۔ میں ہر وقت یہ فیصلہ کرتا ہوں کو اب اپنے یورپ کے سفر کو صرف سیاحت تک محدود رکھوں گا لیکن ہمیشہ ہی پاکستان اور پاکستانیوں سے محبت میری سیاحت کو صحافت میں تبدیل کردیتی ہے لیکن یہ سوچ صرف میری نہیں بلکہ ایک ایک پاکستانی کی ہے جو پاکستان کیلئے ہر وقت سب کچھ قربان کرنے کیلئے تیار رہتا ہے جو اس بات کا ثبو ت ہے کہ جب تک پاکستانیوں میں سب سے پہلے پاکستان کی سوچ باقی رہے گی پاکستان قائم بھی رہے گا اور ترقی بھی کرے گا۔
تازہ ترین