• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قوم سیاستدانوں کی خود غرضیوں سے تو بیزار تھی ہی جنھیں دہرے اور تہرے معیار دولت کی خاطر کسی کام کے جائز یا ناجائز ہو نے سے کوئی غرض نہیں ہوتی ، صرف اور صرف اپنے مفادات پیش نظر ہوتے ہیں۔ مگر اس ایک واقعہ نے تو قوم کا رہا سہا اعتمادبھی ختم کردیا۔ جہاں خود غرضی نے بھائی بہن ، ماں کے احساسات ، دوستوں کی قربانیوں کوبے دردی سے روند ڈالا اور قاتل کو پھانسی کے پھندے سے اتار کر معاشرہ کو پھر بے سکون کر دیا۔ یہ قانون شکنی کی واردات عین قائد اعظم کی یوم پیدائش کی رات 25دسمبر کو ہوئی ۔ ایک معروف شخصیت کے بیٹے نے ایک پولیس ڈی ایس پی اورنگزیب کے صاحبزادے شاہ زیب کو دولت اور طاقت کے نشے میں اپنی بندوق کی گولیوں سے لوگوں کی موجودگی میں بھون ڈالا۔ پولیس آفیسر ہونے کے ناتے قانون اور قانون کے رکھوالے آنکھیں بند کئے رہے اور کئی دن تک کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہوسکی۔ اگر میڈیا بے باک نہ ہوتا تو مظلوم خاموشی سے دباوٴ میں رہ جاتا اور ظالم آزاد معاشرے کا منہ چڑاتا ، دندنا تا رہتا۔یہ واردات میڈیا میں آنے سے عدلیہ چونکی ، چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری صاحب نے حسب سابق سوموٹو ایکشن لیا ۔ مظلوم کی داد رسی ہوئی پھر کیا تھا پولیس حرکت میں آئی مگر اس وقت بہت دیر ہوچکی تھی ملزم کے بارے میں بتایاجاتاہے کہ ائیرپورٹ سے کر فرار کرا دیا گیا ۔ پہلے بتایا گیا کہ ملزم پڑھائی کے لئے ملائیشیا کے شہر کوالا لمپور میں ہے تاکہ پولیس کو بہکایا جا سکے مگر عدلیہ نے اپنی گرفت اس کے لواحقین پر تنگ کی تو دبئی سے برآمد کر کے پاکستان لایا گیا۔ پھر پولیس نے اس کو 18سال سے کم عمر ثابت کرنے کی کوشش کی اور اس کے خاندان والوں کا بھر پور ساتھ دیا مگر ان کے تمام حربے ، قانونی دستاویزیں سب اس کے خلاف ثابت ہو گئیں ۔ پھر گواہوں کوتوڑنے کی بھر پور کوششیں کی گئیں ، لالچ سے جب کوئی نہیں ٹوٹا تو گواہوں کو دھمکیوں سے ڈرایا گیا مگر اس کے خاندان کے تمام افراد ماں باپ، بہنیں ، دوست اور پڑوسیوں میں سے کوئی بھی ان کی دھمکیوں میں نہیں آیا ۔ والدین کے مضبوط ارادے ، عوام کی بھر پور پشت پنائی ان کے حوصلے بڑھتے ہی گئے ، باپ کو بھی پولیس کے دوستوں کے ذریعے بہکانے ، دھمکانے ، طرح طرح کے لالچ الغرض سب طور طریقے آزمائے گئے مگر سب بیکار ضائع گئے۔ عدالت بھی اس سنگین مقدمہ کو جلداز جلد نمٹانا چاہتی تھی پھر قانون کی فتح ہوئی۔ مظلوم خاندان کی اور اس کی دوستوں کی دعاوٴں سے ملزم کو عدالت نے سزائے موت کا فیصلہ سنایا اور اس کے ساتھیوں کو عمر قید کی سزائیں دیں۔ مگر یہ ملزم جو، اب مجرم ثابت ہو چکا تھا بھری عدالت میں ہشاش بشاش چہرے کے ساتھ Vیعنی اپنی فتح کا نشان بنا کر رخصت ہونے پر قوم اور مظلوم خاندان کو حیران کر گیا جیسے کچھ بھی نہیں ہوا۔ میڈیا نے خصوصاً یہ کلپ 100سوبار دکھایا کہ یا اللہ یہ کیا ماجرا ہے کہ مجرم کی شرمندگی، موت سے ڈرنے کے بجائے یہ بے باکی کیامعنی رکھتی ہے ؟ بڑے بڑوں کا سزائے موت کا حکم سننے کے بعد چہرہ کملا جاتا ہے ۔ عزیز و اقارب تو وہیں دھاڑیں مار مار کر رونے لگتے ہیں، مگر یہاں تو اس کے چچا اور دوستوں پر بھی کوئی رد عمل نہیں ہواجیسے ان کو پہلے سے بتادیا گیاہو کہ ملزم کو کچھ نہیں ہوگا بے فکر رہیں۔ جبکہ مظلوم خاندان کے دوست ، احباب ، پڑوسیوں سب نے شکر کا سجدہ کیا کہ کہ آئندہ کوئی قاتل کسی بہن سے اس کا بھائی نہیں چھینے گا مگر پھر اچانک کیا ہوا جو قوم سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔
یکا یک قوم کی اُمیدوں پر ایک دم اس خبر نے بجلی گرا دی ، دوستوں کی قربانیوں کو روند ڈالا ، خبر کیا تھی قوم پر ڈرون حملہ تھا کوئی یقین کرنے کیلئے تیار نہیں تھا ۔ کیا ماں باپ ، بہنیں ایسے بھی بے حس اور ظالم ہوسکتے ہیں جو اپنے اکلوتے بیٹے کے بے حس قاتل کو معاف کردیں ۔ ایسی بے حس ماں بھی ہو سکتی ہے جو مقتول کے صدمے سے کئی ماہ تک باہر نہ نکل سکی ہو ، ایسی بہنیں بھی ہو سکتی ہیں جو اپنے اپنے اکلوتے نوجوان بھائی جس نے اس کی عزت پر داغ لگنے کے بجائے موت کا پیالہ اس کی خاطر پی لیا ہو۔ اگرچہ ماں اور بہنیں ابھی تک صدمے میں ہیں اور بقول اس کے باپ کہ ہم کو انصاف کی توقع نہیں تھی ، قاتل کسی نہ کسی طرح بچ جائے گا جبکہ میڈیا کا کہنا ہے کہ باپ نے 35کروڑ روپے کی دیت کی رقم کے ساتھ ساتھ آسڑیلیا کا ویزہ بھی لگوایا ، تاکہ بقایا عمر ان کو قوم کے طعنے نہ سننے پڑیں ۔ افسوس بلند بلند دعوے آخر میں زمین بوس ہو گئے شاید یہ دعوے ایک پولیس آفیسر کے تھے جاتے جاتے ایک لطیفہ سناتا چلوں جو مجھے بھی ایک پولیس آفیسر نے سنایا تھا ۔ ایک شیر جنت میں بڑی آزادی کے ساتھ گھوم رہا تھا ، جنت والوں نے اعتراض کیا تو جنت کے داروغہ نے وجہ یہ بتائی کہ اس شیر نے ایک پولیس والے کو کھا لیا تھا تو اس کے بدلے اس کو انعام میں جنت مل گئی ۔
تازہ ترین