• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پانچ سال کی بچی صرف پانچ سال کی، گھر سے آئس کریم کھانے نکلی لیکن کسی شیطان صفت انسان نے اس معصوم بچی کو اغوا کر کے زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا۔ اس دلدوز واقعہ پر لاہور شہر کی مائیں سہم گئی ہیں۔ ہر طرف یہ بحث ہو رہی ہے کہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟ ایک محفل میں کچھ سیاستدان اور صحافی اس واقعہ کے بعد میڈیا کے کردار پر گفتگو کر رہے تھے۔ ہمارے ایک صحافی دوست نے کچھ ٹی وی چینلز اور اخبارات پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ عام طور پر جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والوں کے نام منظر عام پر نہیں لائے جاتے لیکن میڈیا نے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس پانچ سالہ بچی کا نام شائع کر دیا ہے اور اس کے خاندان کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر سامنے لایا جا رہا ہے۔ کچھ دنوں کے بعد یہ خاندان کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے گا، لہٰذا میڈیا کو اس پانچ سالہ بچی کا نام شائع کرنے سے گریز کرنا چاہئے اور بچی کے رشتہ داروں کے زبردستی انٹرویوز کی بھی حوصلہ شکنی کرنی چاہئے۔ گفتگو میں شریک اکثر سیاستدانوں اور صحافیوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ پانچ سالہ بچی سے زیادتی کے مرتکب شخص کو گرفتار کر کے عدالت میں پیش کرنے کی بجائے پولیس مقابلے میں مار دینا چاہئے۔ ایک رکن قومی اسمبلی نے جذباتی انداز میں کہا کہ اس پولیس مقابلے کے بعد لوگوں کو سڑکوں پر نکل کر پولیس کے حق میں مظاہرے کرنے چاہئیں لیکن ایک صحافی دوست نے سب سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ قانون کی بالادستی اس وقت قائم ہو گی، جب ملزم کو عدالت سے سزا ملے گی۔ ہمارے اس محترم جہاندیدہ دوست کا خیال تھا کہ اگر اس کیس میں جعلی پولیس مقابلے کے ذریعے انصاف کیا گیا تو پھر آئندہ کئی بے گناہوں کو بھی اس قسم کے پولیس مقابلوں میں مارا جا سکتا ہے۔ اس دلیل کے جواب میں ایک ساتھی نے کہا کہ اگر ہمیں قانون کی بالادستی اتنی ہی عزیز ہے تو پھر تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات سے بھی انکار کیا جائے، کیونکہ یہ لوگ خود کش حملوں اور قتل و غارت میں ملوث ہیں۔ طالبان نے مفتی ڈاکٹر سرفراز نعیمی جیسے علماء اور ملالہ یوسف زئی جیسی معصوم بچیوں پر حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی تو پھر ان طالبان کے ساتھ بھی قانون کے مطابق سلوک کیا جائے۔ انہیں بھی گرفتار کر کے عدالتوں میں پیش کیا جائے پھر دیکھتے ہیں کتنوں کو سزا ملتی ہے؟
بات پانچ سالہ بچی کے ساتھ زیادتی کے واقعہ سے شروع ہوئی اور طالبان کے ساتھ مذاکرات پر جا کر ختم ہوئی۔ اس قسم کی بحثوں کا اکثر کوئی نتیجہ نہیں نکلتا کیونکہ ہم صرف اپنی مرضی کا سچ کہنا اور سننا چاہتے ہیں، جو سچ ہمیں پسند نہ آئے، وہ جہالت، ملک دشمن، غداری، انتہا پسندی اور مفاد پرستی کہلاتا ہے۔ اصلی سچ وہ ہوتا ہے جو پورا سچ ہوتا ہے، پورا سچ کہنے اور سننے کی روایت ہمارے ہاں بہت کمزور ہے اور اس کمزوری سے جنم لینے والی منافقت ہماری اعلیٰ اخلاقی روایتوں کو دیمک کی طرح اندر ہی اندر سے کھاتی جا رہی ہیں۔ اصلی سچ یہ ہے کہ پاکستان کی اعلیٰ سیاسی اور فوجی قیادت نے وزیراعظم ہاؤس اسلام آباد میں منعقدہ ایک آل پارٹیز کانفرنس میں یہ فیصلہ کیا کہ امن کو ایک موقع دیا جائے اور قبائلی علاقوں میں اپنے لوگوں سے مذاکرات کئے جائیں، جس دن آل پارٹیز کانفرنس کا یہ اعلامیہ سامنے آیا تو ایک غیر ملکی اخبار سے وابستہ پاکستانی صحافی نے مجھ سے پوچھا کہ تحریک طالبان نے ملالہ یوسف زئی پر حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی، آپ نے اس حملے پر طالبان کی مذمت کی تو انہوں نے آپ کو دھمکیاں دیں اور پھر آپ کی گاڑی میں بم نصب کیا گیا جس کی ذمہ داری طالبان کے ترجمان نے قبول کی، آپ طالبان سے مذاکرات پر کیا کہیں گے؟ یہ طویل سوال سن کر میں ہنس دیا اور میں نے اپنے ساتھی صحافی سے کہا کہ لگتا ہے تمہارے ایڈیٹر نے تمہیں یہ ٹاسک دیا ہے کہ تم نے مجھ سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے خلاف کوئی فقرہ نکلوانا ہے اس لئے تم نے اپنے سوال میں میری ذات کو ملوث کر دیا ہے۔ میرے معاملے کو بیچ میں نہ لاؤ اگر قومی قیادت نے امن کے لئے مذاکرات کو آزمانے کا فیصلہ کیا ہے تو مجھے مذاکرات کی کامیابی کیلئے دعا کرنی چاہئے کیونکہ مذاکرات کی کامیابی سے پاکستان میں آئین و قانون کی بالادستی کا راستہ نکلے گا۔ صحافی نے پوچھا کہ وہ کیسے؟ میرا جواب تھا کہ وہ طالبان جو جمہوریت کو کفر اور سیاستدانوں کو امریکہ کا ایجنٹ کہتے تھے اگر وہی طالبان ہماری جمہوریت کے ساتھ مذاکرات پر راضی ہیں تو یہ پاکستان کی جیت ہے ہمیں مذاکرات میں سے خیر کا پہلو تلاش کرنا چاہئے قبل از وقت شرانگیزی سے گریز کرنا چاہئے۔
اے پی سی کے اعلامیہ پر میرا موقف بڑا واضح ہے، آج ہمیں قبائلی علاقوں سے لے کر بلوچستان تک جن حالات کا سامنا ہے یہ حالات جنرل پرویز مشرف کی پالیسیوں سے پیدا ہوئے۔ مشرف نے پارلیمنٹ کے بغیر فیصلے کئے اور کچھ فیصلوں میں تو کور کمانڈروں کو بھی نہیں پوچھا۔ افسوس کہ پیپلز پارٹی کی حکومت اپنے پانچ سالوں میں مشرف کی پالیسیاں تبدیل نہ کر سکی۔ اب ہمیں مشرف کی پالیسیاں بدلنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں طالبان سے بھی مذاکرات کو آزمانا چاہئے اور بلوچ علیحدگی پسندوں کے ساتھ بھی بات چیت کرنی چاہئے جو مذاکرات کے ذریعے امن قائم کرنے پر راضی ہو جائے اور آئین کو مان لے اس کا خیر مقدم کیا جائے جو نہ مانے اس کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے جس کا وہ مستحق ہے۔ کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ طالبان سے مذاکرات دراصل ریاست کا سرنڈر ہو گا کیونکہ طالبان 50 ہزار پاکستانیوں کے قاتل ہیں۔ اس خدشے کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے کہ طالبان مذاکرات کی آڑ میں خود کو دوبارہ منظم کریں گے اور نئے حملے کریں گے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ماضی میں طالبان سے امن معاہدے کئے گئے لیکن وہ معاہدے کامیاب نہیں ہوئے اس لئے طالبان پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ مذاکرات کے حامی کہتے ہیں کہ اگر امریکہ اور افغان طالبان مذاکرات کر سکتے ہیں تو پاکستان میں پاکستانی طالبان سے مذاکرات کیوں نہیں؟ تحریک طالبان پاکستان کے قیام کے پیچھے وہ حالات کارفرما تھے جو امریکہ اور جنرل پرویز مشرف نے مل کرافغانستان میں پیدا کئے۔ اگر پاکستان اپنے فوجی اڈے امریکہ کو نہ دیتا تو افغانستان پر امریکا کا قبضہ نہ ہوتا اور اگر پاکستان کے قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن نہ ہوتے، بمباری نہ ہوتی تو پاکستان کے شہروں میں خود کش حملے نہ ہوتے۔ مذاکرات کے حامی کہتے ہیں کہ ماضی میں پاکستان کی کسی سیاسی حکومت نے طالبان کے ساتھ کبھی براہ راست مذاکرات نہیں کئے۔ قبائلی علاقوں میں تمام امن معاہدے طالبان اور فوج کے درمیان ہوئے۔ سوات میں امن معاہدہ اے این پی اور صوفی محمد کے درمیان ہوا۔ یہ پہلی دفعہ ہے کہ سیاسی و فوجی قیادت مل کر طالبان سے مذاکرات کرے گی۔ یہ بھی واضح رہے کہ 2001ء کے بعد سے 50 ہزار پاکستانی صرف ایک فریق نے نہیں مارے، تحریک طالبان پاکستان 2007ء میں بنی تھی جبکہ پاکستانیوں کا قتل عام 2002ء میں شروع ہو گیا۔ پورا سچ یہ ہے کہ قبائلی علاقوں کے عسکریت پسندوں نے بھی اسلام کے نام پر بم دھماکوں میں بے گناہوں کو قتل کیا اور ہماری سکیورٹی فورسز نے بھی اپنے جیٹ طیاروں اور ٹینکوں کی بمباری سے بے گناہ پاکستانیوں کو مار ڈالا۔ اگر ہم اس بحث میں پڑ گئے کہ 50 ہزار میں سے طالبان نے کتنے مارے، سکیورٹی فورسز نے کتنے مارے اور امریکی ڈرون طیاروں نے کتنے مارے تو بات آگے نہیں بڑھے گی۔ بات کو آگے بڑھانے کیلئے ہمیں لاحاصل بحثوں سے نکلنا ہو گا اور یہ سوچنا ہو گا کہ ان مذاکرات کی حمایت صرف مسلم لیگ ن، جماعت اسلامی، تحریک انصاف، جے یو آئی اور جے یو پی نہیں بلکہ پیپلز پارٹی اور اے این پی بھی کر رہی ہے۔ پیپلز پارٹی نے اپنی قائد محترمہ بے نظیر بھٹو اور اے این پی نے بشیر بلور سمیت سیکڑوں کارکنوں کو بم دھماکوں میں کھویا۔ یہ دو جماعتیں حکومت میں نہ ہونے کے باوجود امن کو موقع دینے کی حمایت کر رہی ہیں۔ ان دونوں جماعتوں کو مذاکرات پر ا عتراض نہیں تو پھر کسی اور کے اعتراض کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ان مذاکرات کو سرنڈر کہنا زیادتی ہے۔ اصل سرنڈر وہ تھا جو جنرل پرویز مشرف نے ایک ٹیلی فون کال پر کر دیا تھا، جو اس سرنڈر پر نہیں بول پائے آج بہت بول رہے ہیں۔ انتظار کیجئے، مذاکرات کامیاب ہو گئے تو بہت اچھی بات ہو گی، نہ ہوئے تو بھی اچھی بات ہو گی کیونکہ پھر ریاست کی عملداری قائم کرنے کیلئے فوجی کارروائی کو عوامی حمایت حاصل ہو گی۔
تازہ ترین