• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد اپنے منطقی انجام کو پہنچنے والی ہے، اسپیکر نے تحریکِ عدم اعتماد کو نمٹانے کے لیے قومی اسمبلی کا غیرمعمولی اجلاس بلا تو لیا لیکن پارلیمانی تاریخ میں اسپیکر نے پہلی بار ریکوزیشن پر طلب کردہ قومی اسمبلی کا اجلاس او آئی سی وزرائے خارجہ کانفرنس کی آڑ لے کر مقررہ ایام میں نہ بلا کر دانستہ تاخیر کی جس پر اپوزیشن نے ان کے خلاف آئین شکنی کا ’’فتویٰ‘‘ دے دیا۔ 

انہوں نے قومی اسمبلی کا اجلاس سٹنگ ممبر خیال زمان کی وفات پر کوئی کارروائی کیے بغیر عجلت میں 28مارچ 2022تک ملتوی کر دیا، مجموعی طور پر 24 مرتبہ کسی رکن قومی اسمبلی کی وفات پر ایوان کی کارروائی احترام میں ملتوی کی گئی ہے۔ 

اگرچہ قومی اسمبلی کے اجلاس کے ایجنڈے پر 152اراکین کے دستخطوں سے تحریک عدم اعتماد تھی لیکن انہوں نے اجلاس میں تحریک عدم اعتماد کو ٹیک اپ نہیں کیا۔ اجلاس کی کارروائی تقریباً 14منٹ ہی چل سکی۔ حکومت کی جانب سے عمران خان اور اپوزیشن کی جانب سے جمہوریت زندہ باد کے نعرے لگائے گئے۔ 

اجلاس میں حکومت کے 80جبکہ اپوزیشن کے 159اراکین نے شرکت کی۔ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف بات کرنے کی اجازت مانگتے رہے لیکن اسپیکر نے ان کی ایک نہ سنی۔ حیران کن طور پر خیال زمان کے انتقال پر صرف دعائے مغفرت کی گئی اور تعزیتی ریفرنس کے بغیر قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کر دیا گیا۔ 

اجلاس ملتوی ہونے پر اپوزیشن کی جانب سے ایوان میں احتجاج نہیں کیا گیا حالانکہ آصف علی زرداری نے اجلاس سے قبل میڈیا سے گفتگو میں کہا تھا کہ تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی اجازت نہ ملی تو ہنگامہ کریں گے۔

متحدہ اپوزیشن نے گزشتہ ہفتے سندھ ہائوس میں ’’پناہ‘‘ لینے والے 24اراکین کو ٹیلی ویژن کی اسکرین پر دکھا کر عملاً تحریکِ عدم اعتماد کی جنگ میدان میں لڑے بغیر ہی جیت لی تھی لیکن ’’کپتان‘‘ ابھی تک شکست تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ 

عمران خان کے زمانۂ طالب علمی کے ایک سیاست دان دوست نے ان کو موجودہ سیاسی بحران سے نکلنے کا یہ راستہ تجویز کیا ہے کہ وہ بھرا میلہ چھوڑ کر اپوزیشن کو سرپرائز دیں تو اپوزیشن کے لیے حکومت سازی میں مشکلات پیدا ہو جائیں گی اور وہ معاشی طور بدحال ملک کو چلا نہیں پائے گی لیکن عمران خان نے کسی بھی صورت استعفیٰ نہ دینے اور آخری بال تک لڑنے کا اعلان کیا ہے۔ 

ان کا کہنا ہے کہ ابھی تو لڑائی شروع ہوئی ہے، وقت بتائے گا کون استعفیٰ دیتا ہے، کوئی غلط فہمی میں نہ رہے کہ گھر بیٹھ جائوں گا۔ حکومت گر گئی تو چپ نہیں بیٹھوں گا۔ لڑائی سے پہلے ہی مخالفین کے ہاتھ کھڑے کرا دوں گا۔ 

اگر عمران خان کی لن طرانیاں سنیں تو ایسا دکھائی دیتا ہے کہ وہ مضبوط اعصاب کے مالک ہیں لیکن یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ 24ناراض اراکین کی بغاوت کے باعث ان کے اندر پائی جانے والی خود اعتمادی پاش پاش ہو گئی ہے۔ اُن کی یہ حالت ہو گئی ہے وہ کبھی باغی اراکین اور اپوزیشن کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دیتے ہیں اور کبھی اپنے باغی اراکین کی منت سماجت پر اتر آتے ہیں۔ 

عمران خان اپنی سیاسی زندگی کی مشکل ترین اننگز کھیل رہے ہیں جس میں ان کی شکست کا پورا اسٹیج سج چکا ہے لیکن وہ اس بات پر بضد ہیں کہ ’’تحریک عدم اعتماد ناکام ہوگی، میں کسی صورت چوروں کے ساتھ نہیں بیٹھوں گا‘‘۔ خان صاحب اپنی تقاریر میں بلند بانگ دعوے کرتے نہیں تھکتے لیکن وہ اپنے بیانات پر ’’یوٹرن‘‘ لینے کی شہرت بھی رکھتے ہیں۔ 

سر دست ان کے سرپرائز کے بارے میں کوئی بات حتمی طور پر نہیں کہی جا سکتی۔ سیاسی حلقوں میں یہ بات برملا کہی جا رہی ہے کہ یہ سرپرائز اپوزیشن کے لیے ہوگا یا کسی اور کے لیے؟ میں بھی بار ہا یہ بات کہہ چکا ہوں کہ عمران خان سیاسی شکست کھانے کے باوجود آسانی سے اقتدار نہیں چھوڑیں گے۔ 

ان کا بس چلا تو وہ جاتے جاتے پورے جمہوری نظام کی چولیں ڈھیلی کر جائیں گے۔ پچھلے چار سال تک عمران خان کی حکومت کے لیے بیساکھیوں کا کام کرنے والی اتحادی جماعتوں نے بھی مشکل وقت میں عمران خان کی کشتی کو بیچ ’’منجدھار‘‘ چھوڑ دیا ہے۔ 

اب تک کی اطلاعات کے مطابق ان کا جھکائو اپوزیشن کی طرف ہے۔ عمران خان کی کشتی کو ڈبونے میں جہاں ان کے اپنے دو درجن سے زائد ناراض اراکینِ قومی اسمبلی نے اپنا بھرپور کر دار ادا کیا ہے وہیں اتحادی جماعتوں نے بھی عمران خان کے ساتھ اچھا نہیں کیا۔ 

پچھلے دو تین ہفتوں کے دوران اتحادیوں نے وزیراعظم عمران خان کو اپنے در پر بار بار بلا کر نہ صرف بےتوقیر کیا ہے بلکہ انہیں ’’بےبسی‘‘ کی تصویر بھی بنا دیا ہے۔ وزیراعظم کو کچھ سجائی نہیں دے رہا۔ اسپیکر بھی وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد فوری طور پر نمٹانے کی بجائے لیت و لعل سے کام لے رہے ہیں۔ 

وزیراعظم نے بحران سے بچ نکلنے میں آخری امید سپریم کورٹ سے وابستہ کر رکھی ہے جہاں صدر مملکت عارف علوی نے ریفرنس دائر کر دیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ کیا اگر کوئی خیانت کرتا ہے اور وفاداری تبدیل کرکے انحراف کرتا ہے تو کیا ایسی صورت میں اس کیخلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جا سکتی اور اسے ڈی سیٹ کیا جا سکتا ہے؟ 

ایسے رکن کو تاحیات نااہل قرار دیا جا سکتا ہے۔ کیا ایسے غیراخلاقی عمل میں شریک منحرف اراکین کے ووٹ کی کوئی وقعت باقی رہ جاتی ہے اور کیا ایسے اراکین کو ووٹ دینے کا حق دیا جا سکتا ہے؟

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریفرنس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ ریفرنس کے بجائے پارلیمنٹ طے کرے، ہم خالی جگہ پر نہیں کر سکتے، وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد پر ووٹ تو ہر صورت ہوگا اور شمار ہوگا، پھر دیکھیں گے کیا کرنا ہے۔ 

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا آپ پارٹی سربراہ کو بادشاہ سلامت بنانا چاہتے ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا ہے کہ کیا دوسری کشتی میں جاتے ہوئے پہلا جہاز ڈبویا جا سکتا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ معلوم نہیں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کب ہوگی۔ 

معاملہ صرف63 اے کی تلوار کا نہیں پورا سسٹم ناکام ہونے کا ہے۔ اسپیکر ریفرنس بارے سپریم کورٹ کی حتمی رائے آنے تک تحریک عدم اعتماد کو منطقی انجام تک پہنچانے میں لیت و لعل سے کام لے سکتے ہیں۔ 

وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے تحریک عدم اعتماد میں ممکنہ شکست دیکھ کر قبل از وقت انتخابات کا عندیہ دیا ہے۔ اسپیکر قومی اسمبلی تحریک عدم اعتماد پر زیادہ دیر حکومت کو ریلیف فراہم نہیں کر سکتے اور انہیں تحریکِ عدم اعتماد کو منطقی انجام تک پہنچانا ہی ہوگا۔

تازہ ترین