• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرا دلدار سیانا تو بہت تھا مگر دوستوں اور دشمنوں میں تمیز کم رکھتا تھا۔ شکوے اس کی زبان پر سدا رہتے، صبر اور تدبر کی بستی سے دور بستا تھا۔

اکثر اسے اپنے قبیلے سے شکایات ہوتیں، وہ سمجھتا کہ جو وہ کہتا ہے وہ سچ ہے اور اسی کے زاویے اور تناظر کو مدنظر رکھا جائے، اب لوگ کیسے کریں کہ خواب بھی دیکھیں تو دیکھیں اسی کے حوالے سے۔ وہ چاہتا کہ تیرہ شبوں میں سب اسی کے ساتھی ہوں اور وہ کسی کا نہیں۔ جب جب اس پر مشکلات کا نزول ہو تب تب سارے اس کی مشکلات کے ساتھی ہوں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اس ماضی میں رہتا جب آتش جواں تھا اور جب اس نے کھیلوں اور میلوں کے معرکے سر کیے تھے، جب اس نے گولڈ میڈل لیے تھے۔ یا وہ مستقبل کے سہانے سپنے دکھاتا، آنکھوں میں امیدوں کے دیپ جلاتا مگر اس ریشمی لفاظی کے جادو جگانے کے بعد خود جاکر نرگسیت کے نرم و ملائم بستر پر سو جاتا۔ اس کے ماضی اور مستقبل کی سحر انگیزی کے افسانے دیوانہ بنائے رکھتے اور چشمِ بینا والے سوچتے رہ جاتے کہ کاش یہ پیارا اور راج دلارا حال میں بھی رہتا اور اسے یہ احساس ہوتا کہ ریزہ ریزہ ہونے والے کرچی کرچی خوابوں کے نوکیلے ٹکرے آنکھوں کو زخمی کرکے آنسوؤں کو لہو کے قطرے بنانے میں جگر کتنا چھلنی ہوتا ہے!

وہ سیانا تو تھا مگر اس سے ناآشنا ٹھہرا کہ یوسفی سدا زلیخی کا امتحان ہی تو نہیں ہوتی، کبھی یوسفی کی جگہ زلیخی بھی کشید کر کے دیکھیں، عوامی، رومانوی اور روحانی دکھ درد کا احساس ہو جائے گا لیکن یہاں استادی اور لیڈری یہ کہ عوام تمہیں چاہیں چاہنے والوں کی طرح اور تم عوام کو نہ چاہو چاہنے والوں کی طرح۔

حاضر صریر خامہ میں زیب داستاں نہیں درد کی زنجیر ہے جس کا عہد حاضر میں سلسلہ ٹوٹ ہی نہیں رہا۔ خوف کے سائے شام کے سایوں سے آگے بڑھ کر شب کی تاریکی کو خوف کے اندھے کنویں میں پھینکنے کے درپے ہیں۔ ایسے جیسے فاشزم کے در وا ہو رہے ہوں۔ ایسے میں اگر لالچ کو پس پشت ڈال کر نگہبانوں، مہربانوں اور رہنماؤں کی جانب سے شمعیں فروزاں نہ کی گئیں تو ہر بند گلی کا اخیر گہری کھائی کے سوا کچھ نہ ہوگا۔

سب سیاسی قاری اس کالم سے یقیناًقبلہ عمران خان کو تلاش کررہے ہوں گے تاہم غیر سیاسی جانتے ہیں کہ تذکرہ اس دوست کا ہے جو بلیک بورڈ پر اپنے سب طالب علموں کو دنیا فتح کروا دیتا مگر امتحانی تیاری تو دور کی بات وہ سلیبس کے قریب تک نہ پھٹکتا اور ماضی کے اپنے قصے یا مستقبل کا دلکش نقشہ کھینچتے ہوئے کہتا جغرافیہ، تاریخ، سائیکالوجی، سیاسیات، عمرانیات، انٹرنیشنل افیئرز، فارسٹری اور ویٹرنری سائنسز مجھ سے زیادہ کوئی نہیں جانتا مگر پروفیسر وہ کیمسٹری کا تھا جو یہ بھی نہ بتاتاتھا کہ نامیاتی و غیرنامیاتی و تجزیاتی کیمسٹری کیا بلا ہے! آخر مسلسل تین سال اس کے طلبہ اور پیروکار فیل ہوتے چلے گئے، قسمت کی دیوی پھر بھی اس پر مہرباں تھی اور اس کا جادو سر چڑھ کر ایسا بولتا کہ سب پرستار سر جھکا کر سنے اور پڑھے جارہے تھے، یوں وہ چوتھے سال کی کلاس بھی لیے ہوئے تھا، مسولینی اور ہٹلر کے چاہنے والوں کی طرح پروفیسر صاحب کے کچھ پرستار پہلی جنگ عظیم کو انقلابی تبدیلی کی نظر سے دیکھتے لگتے ہیں:

قافلے دلدلوں میں جا ٹھہرے

رہنما پھر بھی رہنما ٹھہرے!

مگر پروفیسر صاحب اپنے اور اپنے طلبہ کے مسلسل فیل ہونے پر روش بدلتے نہ وتیرہ، لیبارٹری میں اپنی تھیوری کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے نہ خود احتسابی اور سلیبس سے کام لیتے، بس اپنے ساتھی پروفیسرز سے شریکا نبھاتے، انہیں صلواتیں سناتے اور دشنام طرازی کو بروئے کار لاتے مگر انہیں کون سمجھاتا کہ ایسے مستقبل کے معماروں کی آبیاری ہوتی ہے نہ سیاست کاری۔ وہ فیض نے کبھی کہا تھا:

نہ جانے کس لیے امیدوار بیٹھا ہوں

اک ایسی راہ پہ جو تیری رہ گزر بھی نہیں

کالم کے نگر میں سر راہ چلتے چلتے پروفیسر اور مرغوں کا ایک مشہورِ زمانہ لطیفہ یاد آگیا مگر ایک پروفیسر کی خاطر سارے پروفیسروں کو ناراض تو نہیں کیا جا سکتا، یہ لطیفہ کم مسئلہ، میں نے جب ’’طنزیالوجی‘‘ میں درج کیا تھا تو کئی پروفیسر ایف آئی آر درج کرانے کے در پے آگئے۔ ویسے بھی آج کل یونیورسٹیوں اور کالجوں میں پروفیسرانہ ریسرچ اور تدریس کم اور ’سیاست‘ زیادہ ہے، باوجود اس کے تبدیلی صرف کلاس رومز اور لیبز ہی سے ممکن ہے! نہ چاہتے ہوئے بھی کالم میں سیاست اور سیاست میں کالم آہی گیا۔ سو حالیہ سیاسی آلودگی سے بچنا مشکل ہے جو ڈیڈ لاک بن چکی۔ اپنے مقبول ترین وزیراعظم آئینی ہمواریوں کو چھوڑ کر پُرپیچ قانونی پگڈنڈیوں پر جا نکلے، کبھی عدالت کا رُخ، کبھی سربراہِ حکومت ہوتے ہوئے بھی عجوبہ سیاست کہ اپوزیشن کے خلاف احتجاجی مظاہرے، کہلانا تحریکِ انصاف اور بننا عدم تحریکِ انصاف اور تحریکِ عدم اعتماد سے یوں منہ موڑنا۔ کہلانا کرکٹر اور وہ بھی آل راؤنڈر مگر رہنا باؤلر ہی کہ کسی دوسری پارٹی کے لوگ پارٹی چھوڑیں تو وکٹ گرانے کی اصطلاح اور خود سے بیٹنگ نہ ہو پائے اور اپنی کِلیاں اکھڑنے لگیں تو مخالف باؤلر غدار! وائے رے قسمت سن تو یہ رکھا تھا کہ ہار تسلیم کرنا کھیل کا پہلا اصول ہے مگر یہاں کھلاڑی یہ کہہ رہے ہیں کہ ’’کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے‘‘۔ انج تے مختاریا گل ود دی جائے گی۔ معاملہ کہیں فسطائیت کی جانب نہ نکل جائے (اللہ نہ کرے) پڑوس کے فاشسٹ کو ہم ہندو فاشزم کہتے ہیں جو برہمنی فسطائیت کی شاہراہ پر گامزن ہے، جو کشمیری کی حرمت اور انسانی حقوق کو نگل گیا اور وہ جمہوریت جو ازخود معجزہ ہے اور انسانی حقوق کی آبیاری کا تسلسل بھی، یہاں ہم بھی کہیں جمہوریت کو فاشزم کی ابلتی کڑاہی میں تو نہیں تلنے والے؟ ماضی میں جھانکیں تو مسولینی اور ہٹلر والوں نے پہلی جنگ عظیم کو انقلابی تبدیلی کے تناظر میں دیکھا تھا۔ جمہوریت یہ نہیں کہ:

تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی

وہ تیرگی جو مرے نامۂ سیاہ میں تھی!

پروفیسر صاحب! پھر کفر اور اسلام کو نظریہ پاکستان میں لاکھڑا کرنا اور سیاست کو حق و باطل بنا دینا کم از کم جمہوری رویہ تو نہیں ہو سکتا!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین