• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومت اور اپوزیشن کے درمیان میچ فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکا ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر آج سے قومی اسمبلی میں بحث شروع ہونے کا امکان ہے اور زیادہ سے زیادہ ایک ہفتے کے اندر اس تحریک پر فیصلہ ہو جانا چاہئے لیکن اس سے پہلے پارلیمنٹ کے باہر حکومت اور اپوزیشن کی عوامی طاقت کے مظاہروں سے حالات بہت کشیدہ ہیں ۔

پارلیمنٹ سے باہر یہ سیاسی کشیدگی کسی غیر متوقع صورت حال کو بھی جنم دے سکتی ہے ۔ تحریکِ انصاف کا جلسہ بلاشبہ تاریخ ساز ہو گا اور میرے خیال سے تاریخ کے چند بڑے جلسوں میں سے ایک ہو گا۔

پارلیمنٹ کے اندر تحریکِ عدم اعتماد پر جو کارروائی ہو رہی ہے ، وہ آئینی تقاضا ہے اور پارلیمنٹ کے باہر سیاسی جماعتیں جس عوامی طاقت کا مظاہرہ کر رہی ہیں ، وہ ان کا سیاسی اور جمہوری حق ہے لیکن اس سے یوں محسوس ہو رہا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں پارلیمنٹ کے اندر ہونے والے اس فیصلے کو ماننے کے لئے تیار نہیں ، جو اس کی توقع کے مطابق نہ ہو یا ان کے خلاف ہو ۔

 یہ بھی محسوس ہو رہا ہے کہ تحریکِ عدم اعتماد پر جو بھی فیصلہ ہو ا، اس کے بعد بھی ملک میں سیاسی تنائو اور عدم استحکام رہے گا اور حکومت چاہے کوئی بھی ہو ، وہ کمزور حکومت ہو گی ۔

اگر وزیر اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے تو وہ عوام کو موجودہ اپوزیشن کی امکانی حکومت کے خلاف سڑکوں پر لانے کی کوشش کریں گے اور اگر یہ تحریک ناکام ہوتی ہے تو موجودہ اپوزیشن عوامی طاقت کے ذریعے حکومت پر دبائو بڑھائے گی.

 وزیر اعظم عمران خان کی حکومت اگربچ جاتی ہے تو اسے اپوزیشن کے سیاسی دبائو کے ساتھ ساتھ مزید اقتصادی بحران کا بھی سامنا ہوگا ۔ اسی طرح موجودہ اپوزیشن اگر اپنی مخلوط حکومت بناتی ہے تو اسے بھی اسی طرح کے چیلنجز درپیش ہوں گے ۔

ہر صورت کمزور حکومت طاقتور حلقوں کی ڈکٹیشن لینے پر مجبور ہو گی ۔

لوگ پہلے سے زیادہ مسائل کا شکار ہوں گے ،اس وقت متحدہ قومی موومنٹ، باپ اور مسلم لیگ (ق)کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے کیونکہ ان پر ہی تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی اور ناکامی کا انحصار ہے۔

 ایم کیو ایم کو مشکل حالات میں فیصلہ کرنا پڑ رہا ہے، اس پر ہی سب سے ذیادہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے۔ اس کو بہت دانش کے ساتھ فیصلہ کرنا ہے اور وقتی فائدے کے بجائے ملک اور قوم اور خاص طور پر کراچی کے شہریوں کےمفاد کو پیش نظر رکھنا چاہئے۔

میں اس تھیوری کو نہیں مانتا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف کوئی بڑی سازش ہو رہی ہے اور اس سازش کے پیچھے ملکی اور بین االاقوامی طاقتیں ہیں۔

پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور عالمی اسٹیبلشمنٹ خصوصا امریکہ اور اس کے اتحادی وزیر اعظم عمران خان کی حکومت سے زیادہ مطمئن ہیں ۔ اس کے مختلف اسباب ہیں ۔

اس وقت جو حالات پیدا ہوئے ہیں ، وہ تحریک انصاف کی تصادم کی پالیسی کا نتیجہ ہیں ۔ تحریک انصاف اس بیانیے کے ساتھ حکومت میں آئی تھی کہ اس کی مخالف سیاسی جماعتوں کے لوگ کرپٹ ہیں اور تحریک انصاف کے لوگ ساری خرابیوں کو دور کر سکتے ہیں ۔

 حالانکہ ان مبینہ ’’ کرپٹ ‘‘ سیاسی جماعتوں کے لوگ تحریک انصاف میں شامل کرائے گئے اور آج وہ حکومت میں ہیں ۔ میں ہمیشہ یہ لکھتا رہا ہوں کہ تحریک انصاف کا بیانیہ جمہوری معاشروں کا بیانیہ نہیں ہے کیونکہ کسی کو اس طرح گالی دینا مہذب اور جمہوری معاشروں میں نہ صرف معیوب سمجھا جاتا ہے بلکہ قابلِ تعزیر بھی ہوتا ہے ۔

تحریکِ انصاف کی حکومت نے اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں سے تصادم جاری رکھا اور وہ اہم قومی ایشوز پر وسیع تر قومی پالیسی نہیں بنا سکی ۔

تحریکِ انصاف کی قیادت نہ صرف اپنے ہی بیانیے کا شکار ہوئی بلکہ اس تصادم سے ایسی داخلی ، خارجی اور اقتصادی پالیسیاں نہیں بن سکیں ، جن پر قومی اتفاق رائے قائم ہوسکے ۔

پاکستان پیپلز پارٹی اپوزیشن کی وہ واحد سیاسی جماعت تھی ، جس کی قیادت کا موقف یہ تھا کہ عمران خان کی حکومت کو پانچ سال کی آئینی مدت پوری کرنے دی جائے تاکہ عمران خان کی مقبولیت کے غبارے میں جو ہوا بھری گئی تھی ، وہ مکمل طور پر نکل جائے ۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علمائے اسلام ( جے یو آئی ) کی قیادت عمران خان کی حکومت کے فوری خاتمے اور جلد انتخابات کی حامی تھیں ۔ میری دانست میں فوری اور آزادانہ انتخابات ہی سب سے بہتر حل ہیں۔ پیپلز پارٹی بھی اچانک ان کی صف میں شامل ہو گئی ہے ۔

 اس کا سبب آئندہ چند ماہ میں ملک میں ہونے والی اہم تقرریوں کو بتایا جاتا ہے کیونکہ ان تقرریوں سے ہی ملک کے نئے سیاسی منظر نامے کو جوڑا جا رہا ہے ۔ میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ یہ سیاسی بحران اب جاری رہے گا اور حکومت مزید کمزور ہو گی ، جو اہم تقرریاں کرنے میں زیادہ خود مختار نہیں ہو گی ۔

 اب اگر کسی حد تک مضبوط حکومت بنے گی تو وہ آئندہ عام انتخابات کے بعد بنے گی ۔ موجودہ صورتِ حال کا فائدہ غیر سیاسی قوتوں کو ہو گا ۔

اس امکان کو بھی رَد نہیں کیا جا سکتا کہ سیاسی تصادم سے کوئی غیر متوقع صورت حال پیدا ہو جائے ۔ افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے ، اس کے پاکستان پر اثرات ظاہر ہو رہے ہیں ۔

پاکستان میں طالبان ، داعش اور دیگر انتہا پسند تنظیموں کی طرف سے سبوتاژ کی کارروائیاں بڑھتی جا رہی ہیں ۔ ان تنظیموں کے پاس جدید اسلحہ ہے ۔

پاکستان میں سیاسی عدم استحکام حالات کو کسی اور رُخ پر ڈال سکتا ہے ۔ یہ سیاسی قیادت کے تدبر کا امتحان ہے ۔ بہتر یہی ہے کہ تحریکِ عدم اعتماد کا مقابلہ پارلیمنٹ میں ہی کیا جائے ۔ اس لڑائی کو پارلیمنٹ سے باہر سڑکوں پر نہ لایا جائے ۔

تحریک عدم اعتماد کاجو بھی فیصلہ ہو ، اسے تمام فریقین تسلیم کریں اور اس فیصلے کے خلاف سیاسی مزاحمت سے بھی گریز کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ داخلی ، خارجی اور اقتصادی حالات کو کنٹرول کرنے میں سیاسی قوتوں کی ناکامی کا تاثر پیدا کرد یا جائے ۔ اب حالات یہ ہیں کہ:

نہ دیکھیں دیر و حرم سوئے رہرواں حیات

یہ قافلے جانے کہاں قیام کریں

تازہ ترین