• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رمضان کی آمد کے ساتھ ہی ایک بات بڑ ے تعجب سے کہی جاتی ہے : ’’شیطان قید ہو گیا۔ دنیا بدستور فساد کی آماجگاہ ہے۔‘‘ سیکولر حضرات موقع غنیمت جانتے ہوئے شیطان کے وجود اورقید کے تصور کا مذاق اڑاتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ کھل کر خدا کے وجود کا مذاق تو اڑا نہیں سکتے۔ شیطان کی اپنی کوئی حیثیت نہیں‘ اگر اس کے ساتھ وجودِ خدا (Existence of God) کا تصور نہ جڑا ہو۔ وہ کبھی ایک مقرب فرشتہ تھا۔ پھر اسے نکال دیا گیا۔

کرّہ ارض پہ رہنے والے8.7 ارب انسانوں میںسے تقریباً سوا ارب ملحد ہیں۔یہودی، مسیحی اور مسلمان دراصل ایک ہی مذہب پہ یقین رکھتے ہیں، جو آدمؑ سے شروع ہوا تھا۔ اس کے علاوہ بت پرست ہیں۔ مختصر اً دنیا میں دو قسم کے لوگ آباد ہیں۔ ایک وہ ہیں‘ جو کہتے ہیں کہ زمین بننے کے تقریباً ایک ارب سال بعد کرّہ ارض کے ہنگامہ خیز دور میں‘ جب ہر طرف بجلیاں کڑک رہی تھیں‘ سمندروں میں ایک زندہ خلیہ اتفاقاً پیدا ہوا۔ اتفاقاً اس پر دو میں تقسیم ہوجانے کے تمام تر احکامات درج تھے۔ باقی تاریخ ہے۔دو سے چار‘ چار سے آٹھ‘ یہ خلیات اپنی تعداد بڑھاتے رہے؛حتیٰ کہ وہ کثیر خلوی جانداروں میں تبدیل ہوئے۔ ان میں گردے‘ پھیپھڑے‘ دل اور جلد پیدا ہوئی۔ پھر یہ کثیر خلوی جاندار زمین پہ اترے اور ریپٹائلز کی صورت رینگنے لگے۔ پھر آہستہ آہستہ ان کی ٹانگیں نکلیں۔ یہ چار ٹانگوں پر چلنے لگے اوردودھ پلانے والے ( میملز) بن گئے۔ پھر ان میملز میں سے کچھ کا دماغ اوربینائی بہتر ہونے لگی۔ یہ پرائمیٹس بن گئے۔ ان پرائمیٹس میں سے ایک بالکل سیدھا کھڑا ہو کر مستقل طور پر دو ٹانگوں پہ چلنے لگا‘ اس کا نام ہومو سیپین ہے‘ عام زبان میں جسے انسان کہتے ہیں۔ اتفاق، اتفاق اور اتفاق۔

جو لوگ خدا پہ یقین رکھتے ہیں‘ وہ کہتے ہیں کہ پہلا خلیہ جب پیدا ہوا تو اس میں اپنی زندگی برقرار رکھنے کی اتنی صلاحیت موجود تھی‘ جو اتفاقاً پیدا نہیں ہو سکتی تھی۔ صاف نظر آتا ہے کہ کسی نے بڑی احتیاط سے اسے ڈیزائن کیا ہے۔پہلے خلیے کا دو میں تقسیم ہونا اتفاق نہیں بلکہ پیمائشوں اور احکامات کا نتیجہ ہے۔

زمین پہ رہنے والے اربوں جانداروں میں سے ایک سیدھا کھڑا ہو کر لباس پہننے لگا،دوسرا جانوروں پہ کاٹھی ڈالنے لگا۔ ٹریفک سگنل اور شادی کے قوانین بنانے لگا۔ اپنے مردوں کو دفنانے لگا۔ میزائل پہ کیپلر اور جیمز ویب دوربین نصب کر کے خلا میں بھیجنے لگا تو صاف ظاہر ہے کہ یہ ایک خاص الخاص مخلوق ہے‘ آزمائش کے لیے جسے پیدا کیا گیا۔ کوئی ذات تھی‘ جس نے بڑے حساب کتاب سے دماغ اور ریڑھ کی ہڈی (سینٹرل نروس سسٹم ) ڈیزائن کی۔ بازو اور ٹانگیں پیمائش سے بنائیں۔ کان میں توازن کا سسٹم بنایا۔ آنکھوں سمیت تمام اعضا کو نروز کے ذریعے دماغ سے منسلک کیا۔ دو آنکھیں مناسب فاصلے پر بنائیں۔ درمیان میں ناک بنایا۔ مردوں کے چہرے پر بال اگائے۔ چہرے کو انتہائی خوبصورت بنانے کے لیے اس کی چودہ ہڈیاں ڈیزائن کیں۔ چودہ ہڈیوں کے اوپر 43مسلز بنائے۔ ماتھے کو آنکھوں کی نسبت اوپر اٹھا کر ان پر بھنویں بنا ئیں اور حتیٰ کہ پلکیں ڈیزائن کیں۔ یہ ڈیزائننگ اگر نہ ہوتی تو زمین پہ گوشت کے لوتھڑے چلتے نظر آتے۔ یہ وہ ڈیزائنر تھا‘ جس نے جانداروں کو دو جنسوں میں پیدا کیا۔ دل میں اولاد کی محبت پیدا کی ورنہ مخلوقات انہیں پیدا کر کے خود ہی کھا جاتیں۔ تو بنیادی سوال صرف ایک ہی ہے۔ خدا ہے یا نہیں جو گہرائی میں دیکھ سکتے ہیں‘ انہیں معلوم ہے کہ یہ انکارِ شیطان نہیں ہے۔ کسی اور کا انکار ہے۔ انسان یہ سمجھتا ہے کہ میں خود سوچ رہا ہوں۔ دراصل انسانی ذہن پر اچھے اور برے خیالات تو الہام کیے جاتے ہیں۔قرآن میں لکھا ہے : (ترجمہ) پھر اس کا گناہ اور اس کی پرہیز گاری اس نفس پہ الہام کی۔

شیطان انسان کے کان میں صرف پھونک سکتاہے، مجبور نہیں کر سکتا۔ شہوات اس کی آنکھوں کے سامنے دوڑا سکتا ہے لیکن ان خواہشات کی اصل محبت شیطان پیدا نہیں کرتا بلکہ وہ خدا کی طرف سے نفس میں Built Inہیں۔ اس نفس کی مثال موبائل فون میں نصب انٹینے جیسی ہے۔ اگر یہ انٹینا نہ ہو تو شیطان کی کوئی بھی کال آپ کو موصول ہی نہ ہو۔ اصل دشمن نفس ہے۔ آسان الفاظ میں حیوانی خواہشات کا مجموعہ۔ یہ نفس خدا کا سب سے بڑا دشمن ہے۔دولت کی محبت اور عورت کی محبت‘ یہ دو بنیادی خواہشات ہیں جو 99فیصد وقت انسان کے دماغ پر چھائی رہتی ہیں؛ وہ اگرہدایت یافتہ نہ ہو۔لیکن جو ہدایت یافتہ ہو، اسے وہ اپنی نیکی کے غرور میں مبتلا کر دیتاہے۔ شیطان کا کردار یہ ہے کہ جب انسان ایک چیز پر فوکس کرنا چاہتا ہے تو یہ اور چار خیالات پھونکتا ہے۔ حسبِ توقع انسان ان کی طرف متوجہ ہو جاتاہے۔ انسان کو اترنا زمین پہ ہی تھا، غلطی نہ بھی ہوتی تو۔ پہلی بات ہی یہ ہوئی تھی :(ترجمہ) میں زمین میں ایک نائب بنانے والا ہو ں۔ شیطان کا دل تکبر اور زعمِ تقویٰ سے بھر چکا تھا۔ اس لیے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدمؑ کو سجدہ کرو۔شیطان اگر اپنے دل میں پیدا ہونے والے رنج و غم کو کنٹرول کرتے ہوئے سجدہ کر دیتا تو یقیناً حسد سے اسے نجات ملتی۔ شیطان کو اتنا سیریس خدا نے بھی نہیں لیا۔ اصل دشمن تو نفس ہی ہے۔آپ کی بات پر سب قہقہہ لگا دیں تو یہ خوشی سے پھول کر کپا ہو جاتا ہے۔ لیکن آپ شیطان کی چال پر غو ر تو کریں۔ خدا کا انکار کروانے کے لیے وہ خود اپنے وجود کا انکار کر واتا ہے!

تازہ ترین