• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج میں آپ سے دنیائے کرکٹ کی ایک ایسی اننگ کی باتیں کرنا چاہتا ہوں جو اپنی جگہ حیرت انگیز تو تھی ہی، مگر کئی لوگوں کیلئے ناقابل یقین بھی تھی۔ ان دنوں میڈیا ریڈیو اور اخباروں تک محدود تھا۔ تب رونما ہونے والے واقعات حادثات، کارنامے اور ان کے بارے میں خبریں آپ تک ریڈیو اور اخباروں کے ذریعے پہنچتی تھیں۔ ملنے والی خبروں پر پہروں بحث مباحثے ہوتے رہتے تھے۔ کھیلوں کے علاوہ تفریح کا واحد ذریعہ فلمیں اور تھیٹر ہوا کرتے تھے۔ میں آپ سے پاکستان بننے کے چند سال بعد کی باتیں کر رہا ہوں۔ ٹیلیویژن کے طلسم نے تب لوگوں کو اپنی لپیٹ میں نہیں لیا تھا۔ تب آپ کھیلوں کی Live coverage لائیو کوریج، یعنی براہِ راست کارنامے دیکھ نہیں سکتے تھے۔ آپ آنکھوں دیکھا حال سن سکتے تھے۔ ویسے تو ہم سنی سنائی باتوں پر آنکھیں بند کر کے صدق دل سے یقین کرلیتے ہیں۔ مگر کچھ کارناموں کے بارے میں زبانی کلامی باتیں ہم قبول نہیں کرتے۔ آپ سنی سنائی باتوں کی تصدیق چاہتے ہیں۔

آپ کی تسلی کیلئے عرض کردوں کہ یہ ایک چھ روزہ ٹیسٹ میچ کی حیرت انگیز کتھا ہے۔ وہ چھ روزہ ٹیسٹ میچ آج سے چونسٹھ (64) برس پہلے، جنوری کی سترہ تاریخ سے تیئس تاریخ، سن انیس سو اٹھاون 1958، ویسٹ انڈیز کے شہر بار باڈوس میں کھیلا گیا تھا۔ ولولہ انگیز چھ روزہ ٹیسٹ میچ کی رننگ کمنٹری ہم نے ٹرانسسٹرائزیڈ چھوٹے سے ریڈیو سیٹ رات رات بھر کان سے لگا کر سنی تھی۔ لمحہ بہ لمحہ کبھی دل کی دھڑکن تیز اور کبھی ڈوب جاتی تھی۔ ناقابلِ فراموش چھ روزہ ٹیسٹ میچ کی روداد میں آپ کو سنی ہوئی رننگ کمنٹری کے حوالے سے نہیں بلکہ اخبارات اور جرائد میں شائع خبروں پر مبنی سنا رہا ہوں۔ یہاں پر میں آپ سے ایک گزارش کرنا چاہتا ہوں۔ ماضی سے کبھی بھی منہ مت موڑیئے۔ مستقبل کے بارے میں ہم یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ آنے والے کل میں کیا ہونے والا ہے، ہم کچھ نہیں جانتے۔ مگر گزرے ہوئے کل کے بارے میں پورے یقین سے ہم بتا سکتے ہیں کہ کل کیا ہوا تھا۔ زمان حال ہوتے ہوئے بھی نہیں ہوتا۔ جیسے جیسے آپ لکیر کھینچتے جاتے ہیں، اسی لمحہ لکیر ماضی میں بدلتی جاتی ہے۔ آپ کے منہ سے نکلا ہوا لفظ اسی لمحہ ماضی بن جاتا ہے۔ زمان حال کا جائزہ آپ صرف منجمد صورت میں لے سکتے ہیں۔ کیمرا کے لینس سے کھینچی ہوئی تصویر میں ہم منجمد حال کو دیکھ سکتے ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو حال کی کھینچی ہوئی تصویر، یعنی حال میں ہونیوالے کسی واقعے کی کھینچی ہوئی تصویر اسی لمحہ ماضی کا سرمایہ بن جاتی ہے۔ یہ الگ موضوع ہے۔ میری گزارش ہے کہ آج کی چکا چوند میں ماضی کو فراموش مت کیجئے۔ جنوری انیس سو اٹھاون کے بارباڈوس ویسٹ انڈیز میں کھیلے گئے چھ روزہ ٹیسٹ میچ کی دوسری اننگ میں حنیف محمد کی کھیلی گئی اننگ جیسی اننگ کرکٹ کی تاریخ میں حنیف محمد سے پہلے کسی نے نہ کھیلی تھی اور آج تک نہ کسی نے کھیلی ہے۔

چھ روزہ ٹیسٹ میچ کی پہلی اننگ میں ویسٹ انڈیز نے بیٹنگ کرتے ہوئے 579رنز بنائے۔ میچ کے دوسرے روز پاکستان کرکٹ ٹیم صرف ایک سو چھ رنز بنا کر آئوٹ ہو گئی۔ پاکستان ٹیم کو 476رنز کے خسارے سے فالوآن Follow-on کرنا پڑا۔ 476رنز کا خسارہ پورا کرنے اور اننگ ڈفیٹ سے بچنے کیلئے پاکستان ٹیم کو چار دن بیٹنگ کرنے کا چیلنج ملا۔ پہلی اننگ میں پاکستانی ٹیم صرف پانچ گھنٹوں میں ایک سو چھ رن بنا کر آئوٹ ہو گئی تھی۔ دنیا کے تیز ترین بالرز کے سامنے پاکستانی ٹیم کا چار دن تک بیٹنگ کرتے ہوئے میچ بچانا امکان سے باہر لگتا تھا۔ تب ابتدا ہوئی ایک ناقابلِ فراموش اننگ کی،اس جیسی اننگ کی مثال کرکٹ کی تاریخ میں نہیں ملتی۔

تب حنیف محمد اور امتیاز احمد میچ میں شکست سے بچنے کیلئے میدان میں اترے۔ یاد رہے کہ آج سے ساٹھ ستر برس پہلے سر پر پہننے کیلئے ہیلمٹ ایجاد نہیں ہوئے تھے۔ تھائی پیڈ نہیں بنے تھے۔ تیز بالروں کے بائونسر سے بچنے کیلئے چیسٹ گارڈ یعنی سینے کو چوٹ لگنے سےمحفوظ رکھنے کیلئے حفاظتی چیز نہیں بنی تھی۔ ویسٹ انڈیز میں روایت تھی کہ پچ پر روڈ راستے بنانیوالے روڈ رولر چلاتے تھے اور اپنے تیز ترین بالروں کیلئے پچ ہموار کرتے تھے۔ ان حالات میں پاکستان کو چار روز تک بیٹنگ کرنا تھی اور شکست سے بچنا تھا۔ بیٹنگ میں خداداد صلاحیتوں کیساتھ ساتھ قدرت نے حنیف محمد کو غیر معمولی مرکوزیت Concentration سے نوازا تھا۔ کیا مجال کہ ان کی توجہ مقصد سے بھٹک جائے۔ وہ چار روز تک مکمل توجہ اور دھیان سے بیٹنگ کرتے رہے۔ دن بھر بیٹنگ کرنے کے بعد شام میں جب ہوٹل لوٹتے تب بھی غور و فکر میں گم رہتے۔ سوتے جاگتے بیٹنگ کے بارے میں سوچتے رہتے۔ چار روز تک تقریباً سترہ گھنٹے تک بیٹنگ کرتے رہے۔ میچ کے چھٹے دن ٹی ٹائم کے قریب حنیف 337رنز بنا کر آئوٹ ہوئے۔ تب تک پاکستان میچ بچانے کے ہدف سے بہت آگے نکل چکا تھا۔ پاکستان نے 657رنز بنائے۔ میچ ڈرا Draw ہو گیا۔ پاکستان ٹیم کے کپتان عبدالحفیظ کاردار نے اپنی یادداشت میں لکھا ہے کہ اس شام ہوٹل لوٹ آنے کے بعد حنیف نے لباس تک تبدیل نہیں کیا اور ذہنی تنائو سے آزاد ہو کر ایسے سوئے کہ سولہ گھنٹے سوتے رہے۔

تازہ ترین