• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہاں پر اپنے مقصد کے حصول کی غرض سے آئین اور قانون کو نہ صرف توڑا جاتا ہے بلکہ اس کا فخریہ اعلان بھی کیا جاتا ہے۔ مذہب کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا بھی ایک بہت بڑا المیہ ہے۔ نواز شریف کے خلاف سازش عروج پر تھی تو اس وقت موجودہ وزیر داخلہ پورے ملک کو آگ لگانے کی تقرير کر رہے تھے اور ان کا مطمح نظر ہر قیمت پر حکومت میں آنا تھا اور وہ ابملک میں ایسے حالات پیدا کرنے کے خواہاں ہیں جس سے وہ آگ بجھائی نہ جا سکے جو ان کے دور میں لگا ئی تھی بلکہ شاید وہ چاہتے ہیں کہ ملک میں آمریت کی نئی آگ لگ جائے۔ مذہبی کارڈ کا استعمال بھی اسی نیت سے کیا جا رہا ہے کہ جیسے باقی لوگ ان معاملات کے حوالے سے کوئی جذبات ہی نہیں رکھتے اور صرف موجودہ حکمران ہی ان معاملات پر مضطرب ہیں۔ او آئی سی کی وزرائے خارجہ کانفرنس کا استعمال بھی صرف اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے کیا جا رہا ہے حالانکہ اگر ہم نظر دوڑائیں تو یہ واضح طور پر دکھائی دے گا کہ یہ پاکستان میں اِس سے قبل منعقد کی گئی وزرائے خارجہ کانفرنسوں کے مقابلے اِس کانفرنس میں نمائندگی تک پوری نہ تھی جب اس کی نمائندگی ہی پوری نہیں تھی تو پھر ایسی صورت میں اس سے کسی قسم کے نتائج کی توقع رکھنا سوائےخوش فہمی کےاور کچھ نہیں۔ جب میں نمائندگی کی بات کر رہا ہوں تو بات کو واضح کرنے کی غرض سے بیان کرتا چلوں کہ وطن عزیز کے ہمسائے میں دو مسلمان ممالک موجود ہیں۔ دونوں ایک مذہبی تشخص رکھتے ہیں، ان میں افغانستان کو یہ حیثیت بھیحاصل ہے کہ اس کی موجودہ حکومت کے حوالے سے یہ تاثر ہے کہ اس کو کامیاب ہونے کے لیے پاکستان کی شدید ضرورت بھی ہے جبکہ ایران کو ایک ’’تنہائی‘‘ کا احساس ہے مگر اس کے باوجود اس کانفرنس میں ہمارے ان دونوں ہمسایہ ملکوں کے وزرائے خارجہ حاضر نہیں تھے۔ ہم ان دونوں کو شریک نہیں کروا سکتے تو ان سے معاملات کس نہج پر ہوں گے؟ یہ سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔ اس پر مزید گہرائی سے اگر ہم غور کریں تو عین اس وقت جب اس کانفرنس کا انعقاد وطن عزیز میں کیا جا رہا تھا، اسی وقت ہمارے برادر اسلامی ممالک، جن کے وزرائے خارجہ کانفرنس میں موجود تھے، کے کاروباری افراد بھارتی مقبوضہ کشمیر میں بہت بڑی سرمایہ کاری کرنے کا اعلان کر رہے تھے۔ دنیا میں یہ طے شدہ اصول ہے کہ کوئی بھی ملک کسی متنازع علاقے میں سرمایہ کاری کرنے سے اجتناب کرتا ہے مگر مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کے دوست ممالک کے طرف سے سرمایہ کاری کرکے نئی دہلی کو کیا پیغام دیا گیا، اس کو سمجھنا چنداں مشکل نہیں ۔ اس کانفرنس کے انعقاد سے دوسرا یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ جیسے اس سے قبل پاکستان میں کبھی او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا اجلاس منعقد ہی نہیں ہوا تھا۔ اس سے قبل جمہوری ادوار میں نواز شریف کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ انہوں نے 1993میں او آئی سی کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کی تیاریاں مکمل کی تھیں اور یہ اجلاس اپریل 1993کے آخری ہفتے میں منعقد ہوا تھا مگر اس وقت نواز شریف حکومت غلام اسحاق خان کی آمرانہ خواہش کا شکار ہوکر ایک ہفتے قبل معزول ہو چکی تھی بعد میں غلام اسحاق خان کے اس اقدام کو سپریم کورٹ نے غیر آئینی قرار دے دیا تھا۔ اسی طرح مارچ 1997میں نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں پاکستان کو اس کی 50ویں سالگرہ پر مبارکباد دینے او آئی سی کا خصوصی سربراہی اجلاس پاکستان میں منعقد ہوا تھا اور اس اجلاس کی خاص بات یہ بھی تھی کہ اِس میں سعودی عرب اور ایران دونوں کی نمائندگی موجود تھی۔ موجودہ اجلاس کی مانند ایک فریق غیر حاضر نہیں تھا اور نہ ہی کوئی اس وقت مقبوضہ کشمیر میں سرمایہ کاری کرنے کا اعلان کر رہا تھا بلکہ اس کے اعلامیے میں یروشلم اور کشمیر دونوں کا ذکر موجود تھا۔ اس لیے اس کانفرنس کو یا دیگر مسائل کو اپنی ڈوبتی کشتی بچانے کیلئے استعمال کرنا درحقیقت نہ صرف یہ کہ بین الاقوامی معاملات سے کھلواڑ کرنا ہے بلکہ ملک میں بھی غیر ضروری طور پر مذہبی جذبات کو اُبھارنے کی انتہائی غیر ذمہ دارانہ کوشش ہے۔ غیر ذمہ دارانہ کوششوں کا حال ابتدا میں’’ آگ لگانے‘‘کی خواہش کے ذکر سے کیا تھا اور اب یہ حالت ہے کہ آگ جو لگانی تھی لگا دی اس کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ پر خودکش حملہ کرنے کی خواہش کا ایک دوسرے حکومتی رہنما اظہار کر رہے تھے کہ اگر خودکشی جائز ہوتی تو میں خود کش حملہ پارلیمنٹ پہ کرتا یعنی جن کے نزدیک خودکش حملہ جائز ہے ان کو تو اب حکومتی اراکین کا فتویٰ بھی میسر آگیا ۔ کن لوگوں سے پالا پڑا ہے۔ حد ہو گئی۔

تازہ ترین