• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ کی نظر یں اسلام آباد پر لگی ہیں۔میری نظریں ریکوڈک پر ہیں۔اسلام آباد میں چند روز کے معاملات ہیں۔ریکوڈک میں آئندہ 55سال کے امور ہیں۔

تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہو یا ناکام۔ اس سے پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچنے والا جبکہ ریکوڈک میں مقامی کارکنوں اور بین الاقوامی کمپنیوں کی آمد سے پاکستان کو اربوں ڈالر کا فائدہ ہوسکتا ہے۔ اس لیے میں اسمبلی کے اندر 172 تک کی گنتی پوری کرنے کی فکر میں گھلنے کی بجائے ریکوڈک کے اعداد و شُمار پر توجہ دوں گا کیونکہ اس سے میرے آپ کے بیٹے بیٹیوں پوتے پوتیوں نواسے نواسیوں کے دن بدل سکتے ہیں۔ اسمبلی میں ایم این اے کی مالیت 25کروڑ تک لگ رہی ہے۔ ریکوڈک کی مالی حیثیت ٹریلین ڈالر سے زیادہ کی ہے۔ یہ ہمارے وزیر خزانہ یا وزیر اعظم کے اعداد و شُمار نہیں ہیں بلکہ بین الاقوامی مستند ماہرین کی مصدقہ رائے ہے۔ اسمبلی میں تو انتخابیے بھرے پڑے ہیں۔ ان کی قدر قیمت اب ایک دو دن اور ہے۔ اس کے بعد وہ سب پھس ہونے والے غباروں کی طرح اپنے اپنے گھروں میں پڑے ہوں گے۔ ریکوڈک میں سونا 20.9ملین اونس بتایا جارہا ہے۔ تانبا 12.3ملین ٹن۔ معاہدہ ہوچکا ہے۔ کمپنی کے بعض لوگوں نے ریکوڈک کا دورہ بھی کیا ہے۔ مقامی لوگوں سے ملے بھی ہیں۔

اب مارچ 2022 ہے۔ ڈائمنڈ جوبلی سال۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر کہ پاکستان کو تصفیے میں کامیابی حاصل ہوئی۔ 2011 میں وفاقی حکومت۔ حکومت بلوچستان۔ عدلیہ نے چلتا کام روک دیا تھا۔ کتنے لوگ بے روزگار ہوئے۔ سونے تانبے کی کانیں ویران ہوگئیں۔ ٹی تھیان کمپنی مقامی لوگوں کو روزگار دیتی تھی۔ مقامی آبادی کی شکایات سننے، معاملات سلجھانے کے لیے الگ شعبہ ’مقامی شکایات‘ کا قائم کر رکھا تھا۔ زیادہ تر کارکن اس گائوں اور اس ضلع کے تھے۔ ایک سرکاری اسکول کو گود لے کر وہاں مقامی لوگوں کو انگریزی بھی پڑھائی جارہی تھی۔ ٹی تھیان کمپنی نے اس علاقے کا جائزہ لے کر یہاں سونے تانبے کی تصدیق کی۔ سونا ہونے کی وجہ سے کینیڈا کی بیرک گولڈ سے معاہدہ ہوا۔ کنسورشیم بنا۔ اینٹو فرگاستو کمپنی بھی شامل ہوئی۔ چاغی ضلع کی سرحد ایران سے بھی ملتی ہے۔ افغانستان سے بھی۔ صدیوں سے چاغی۔ افغانستان۔ اور دور بلغاریہ تک اس پٹی میں یہ قیمتی معدنیات موجود ہیں۔ کمپنی نے تین صحت مراکز بھی قائم کیے تھے۔ زچہ بچہ کی صحت کے لیے ایک مرکز۔ یہاں تقرری کے لیے بچیوں کو ایک سال کی تربیت بھی دی جارہی تھی۔ مزدور۔ الیکٹریشن۔ پلمبر ایئر کنڈیشنڈ کنٹینر میں قیام کرتے تھے۔ جبکہ اسلام آباد میں ایئر کنڈیشنڈ کنٹینر دھرنوں کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ اسلام آباد اور ریکوڈک میں فرق صاف ظاہر ہے۔کام روک دینے سے سب سے زیادہ نقصان مقامی محنت کشوں اور مقامی بازارکا ہوا۔ کووڈ میں اور زیادہ مشکلات پیش آئیں۔ان کے چہروں پر اب پھر ہلکی ہلکی طمانیت ہے۔

میں یہ سب مصدقہ باتیں اس وقت کمپنی میں مامور شکایات آفیسر عیسیٰ طاہر کے حوالے سے کررہا ہوں۔ یہ شعبہ صرف ٹی تھیان کمپنی قائم کرتی ہے۔ اس کی تصدیق انور صالح محمد کراچی میں چلّی کے اعزازی قونصل جنرل بھی کرتے رہے ہیں۔ ٹی تھیان نے چاغی میں ایئرپورٹ بھی بنایا تھا۔ وہ اپنے چھوٹے جہاز سے آتے جاتے تھے۔ عیسیٰ طاہر کا یہ بھی کہنا ہے کہ کمپنی کے افسروں۔ مزدوروں کو اچھی تنخواہیں ملتی تھیں۔ ٹی تھیان کا زور یہ تھا کہ جو چیزیں مقامی مارکیٹ سے ملتی ہیں وہ یہیں سے خریدی جائیں تاکہ یہاں روپے میں لین دین ہو۔میں اپنے آپ سے، اپنے ہم وطنوں سے پوچھ رہا ہوں کہ یہ جو دس گیارہ سال کام رکا رہا۔ الٹا پاکستان پر بھاری جرمانہ ہوگیا۔ اس کے ذمہ داروں کو کوئی سزا ملے گی یا نہیں؟ اس میں تو سزا دینے والے خود ملوث تھے۔ کیا یہ عدل کی فتح تھی۔ جمہور کی جیت تھی۔ ٹیکنالوجی کی بالادستی تھی۔ میں تو نہ ارضیات کا ماہر ہوں نہ قانون کا۔ کیا متعلقہ افراد یا ادارے اس پر تحقیق کریں گے۔ ریکوڈک کا جائزہ عرصہ تو ٹھیک گزرا۔ مگر جب پکی فصل کٹنے کا وقت آیا تو کام روک دیا گیا۔ریکوڈک جتنا اہم ہے اور اس میں جتنے امکانات کے درواز ے ہیں، جو کھلتے چلے جائیں تو ہر پاکستانی خوشحال ہوجائے۔ کیا ہمارے میڈیا کو نہیں چاہئے کہ وہ قوم کے جذباتی رویوں کو ارضی حقائق کی طرف موڑے۔ اس علاقے سے ایم این اے، ایم پی اے کتنا اہم ہوسکتا ہے؟ ہمارے لیے وہ کتنا قابلِ احترام اور قابلِ قدر ہونا چاہئے کہ اس کے انتخابی حلقے میں صرف ووٹر نہیں سونا بھی ہے۔

کیا ہمیں خدائے بزرگ و برتر کا شکریہ ادا نہیں کرنا چاہئے کہ ہمیں 5بلین ڈالر جرمانے اور دوسرے کئی معاملات سے نجات مل گئی۔ کیاہمیں اٹارنی جنرل کے دفتر اور بالخصوص بین الاقوامی تنازعات کے تصفیے کے شعبے کے سربراہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل احمد عرفان اسلم کا ممنون نہیں ہونا چاہئے، جن کی ٹیم نے مسلسل کئی سال کوششیں کرکے اس کمپنی کو ماورائے عدالت تصفیے کے لیے آمادہ کیا۔ اب وہ ہم سے جرمانہ وصول کرنے کی بجائے 10 ارب ڈالر یہاں لگائیں گے۔ وہ ساری مراعات بلکہ اس سے کہیں زیادہ مقامی آبادی کے لیے فراہم کریں گے۔ اسکول، صحت کے مراکز، پینے کے پانی کے انتظامات دوبارہ شروع ہوں گے۔ محمد زئی قبیلے کو سلام اس کے گائوں ہمائی میں پھر رونقیں بحال ہوں گی۔ 50فی صد حصص اس نئے معاہدے کے مطابق بیرک گولڈ کے ہوں گے۔ اتنے ہی وفاقی ،صوبائی حکومت کے ہوں گے اور یہ 55سال کا منصوبہ ہے۔ کتنی حکومتیں آئیں گی جائیں گی۔ کتنے عمران۔ کتنے نواز۔ کتنے بلاول۔ کتنے شہباز۔ ریکوڈک اگر دوبارہ حاسدین اور لالچیوں کا شکار نہ ہوا۔ یہ سب کے لیے فیض جاری رکھے گا۔ گوادر پورٹ اور ایئرپورٹ پر بھی گہما گہمی ہوگی کیونکہ ٹی تھیان کا پروگرام تھا کہ وہ ریکوڈک سے نکلنے والے خام مال کو ایک پائپ لائن سے گوادر پورٹ تک لے جائے گی۔ وہاں سے یہ ریفائنری میں جائے گا۔ 2011 میں دعویٰ کیا گیا کہ ہم اپنی ریفائنری میں یہ خام مال لے جائیں گے۔ وہ ریفائنری تو ابھی تک نہیں لگی۔

آئیے سب مل کر دعا کریں کہ وہ رحیم و کریم اس معاہدے پر عملدرآمد کی توفیق دے اور یہ منصوبہ کسی سیاسی یا فوجی یا عدالتی مداخلت کے بغیر رواں دواں رہے۔ پائپ لائن بخیریت بچھادی جائے۔ پھر وہ دہشت گردی سے بھی محفوظ رہے۔

تازہ ترین