• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک وقت وہ تھا، جب انسان منڈیوں میں بیچ دیے جاتے۔ ایک آج کا دن ہے، جب دنیا کا ہر آدمی آزاد ہے۔ اس آزادی پہ مگر کچھ روشنی ڈالنے کی ضرورت ہے۔

سوکلومیٹر کی رفتار سے بھاگتی ہوئی گاڑی میں نوٹیفیکیشن کی آواز آنے پر چونک کرہم اپنے موبائل کی طرف دیکھنے پر مجبور ہیں۔ ہمسائے کے Statusپر اس کی شادی کی ساتویں سالگرہ کی تصاویر دیکھتا ہوا آدمی کھمبے سے بغل گیر ہو کر شہادت پاجاتا ہے۔ جو مرنے سے بچ جاتے ہیں، ان کی گردنیں مڑ چکیں۔ سر کندھوں سے دو انچ آگے نکل گیا ہے۔ طبی اصطلاح میں اسے کہتے ہیں Forward Head Posture۔ سر کا نارمل وزن پانچ کلو ہے۔ جب سر کندھوں سے ایک انچ آگے نکل جائے تو دس کلو ہو جاتا ہے۔ دو انچ پہ پندرہ کلو۔ ہماری گردن اور کندھے پندرہ کلو وزن اٹھانے کے لیے نہیں بنے۔ وہ بری طرح دکھنے لگتے ہیں۔ دماغ کو خون کی سپلائی متاثر ہوتی ہے۔ آج ہر بچے کا سر اور گردن مڑ رہی ہے۔ ہماری اولاد نشئیوں کی طرح موبائل استعمال کر تی ہے۔ ہم کچھ نہیں کرسکتے۔ اس کے باوجود ہم آزاد ہیں۔ رات کو جب دماغ منتیں کر رہا ہوتا ہے تو زبردستی ہم جاگتے اور دن کو سوتے ہیں۔ یہ کیسی آزادی ہے۔ گھر کا ہر فرد اپنے وقت پر اپنے کمرے میں لیپ ٹاپ استعمال کرتے ہوئے وہ کھانا کھاتا ہے، جو ڈلیوری بوائے دے گیا تھا۔ سب کا وزن بڑھ چکا ہے۔ سب بلڈ پریشر، شوگر اور دل کے مریض ہیں۔

آج سوشل میڈیا پہ ہماری ایک ایک حرکت مانیٹر کی جا رہی ہے۔ ہم اپنے اسمارٹ فونز کے قیدی ہیں، جنہیں ہر قیمت پر زندہ رکھنا ہماری مجبوری ہے۔ ہم ڈرائیونگ کے دوران بار باردیکھتے ہیں کہ فون چارج ہو رہا ہے یا نہیں؟ ہماری زندگی اور موبائل کے درمیان ایک جنگ مسلسل جاری ہے۔ اگلی گاڑی بہت ہی سست روی سے چل رہی ہوتی ہے کہ اس کا ڈرائیور موبائل استعمال کر رہا ہوتاہے۔ ہم صرف دانت ہی پیس سکتے ہیں۔ کچھ دیر بعد ہم سے پچھلی گاڑی والا بھی دانت پیس رہا ہوتا ہے۔ ایک دوسرے کے Statusچاٹنا اورپورا دن چاٹتے رہنا اب ہماری مجبوری بن چکی ہے۔

ڈرائیونگ کے دوران آدھی توجہ اچھا میوزک سننے پر اور باقی آدھی موبائل کی چارجنگ، فیس بک اور واٹس ایپ پر موصول ہونے والے لطیفوں اور وڈیوز کو دیکھنے پر۔ چند گھنٹوں کے ایک کام کے دوران، جو عرق ریزی کا تقاضا کرتا ہے، درجنوں نوٹیفیکیشن موصول ہوتے ہیں۔ ایک لمحے کے لیے بھی دماغ یکسو نہیں ہو پاتا۔

ہماری سائبر زندگی کی ایک ایک حرکت ریکارڈ کی جا رہی ہے۔ ہماری ٹائم لائن ہمارا نامہ ء اعمال بن چکی۔ رات گئے نوٹیفیکیشن موصول ہوتا ہے کہ آج آپ جہاں گئے تھے، کیسی لگی وہ جگہ آپ کو۔ ہر چیز ریکارڈ ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں میرے ذوق او رسو چ کا بخوبی علم ہے۔ اسی چیز سے متعلق مجھے ہر وقت ویڈیوز‘ اشتہار اور ای میلز دھڑا دھڑ موصول ہوتی ہیں۔وہ مجھے پانچ سال پرانی ایک تصویر بھیج کر اپنی طرف سے احسان کرتے ہیں۔ یہ تصویر مگر اذیت ناک یادیں میرے سامنے دہرانے لگتی ہے۔

سوشل میڈیا پہ ایک ایسے شخص کے ساتھ دوستی کا ایک سال مکمل ہونے پہ مبارک باد کا پیغام موصول ہوتاہے، جسے میں اپنی زندگی سے نکال دینا چاہتا ہوں لیکن یہ ممکن نہیں۔ لوگ کیا کہیں گے کہ مجھ میں برداشت نہیں ؟ ادھر وہ شخص بھی میرے بارے میں یہی جذبات رکھتا ہے۔

آج ہر آدمی حسب ِ توفیق مخالف نظریات والوں کی بے عزتی کر رہا اور اپنی کروا رہا ہے۔ آپ کسی نہ کسی گروہ کا اٹوٹ حصہ ہیں۔ہر ایک نے دوسرے کے تضحیک آمیز نام تخلیق کیے ہیں۔ آپ یوتھیئے ہیں‘ پٹواری ہیں‘ لبرل‘ اور موچی ہیں۔ایک دوسرے کی گوشمالی کے لیے اسٹیج ڈراموں کے فحش لطیفے سنائے جاتے ہیں۔ جو لوگ اس سارے نظام کو چلا رہے ہیں‘ وہ نازک مواقع پر فرقہ وارانہ پوسٹ سوشل میڈیا پہ ڈال کر خود غائب ہو جاتے ہیں۔وہ فساد ہوتاہے کہ الامان الحفیظ۔

ہر طرف تلخی ہی تلخی ہے۔ نوبت یہاں تک آپہنچی کہ ہر کمنٹ کا جواب دینا آپ پہ فرض ہے، خواہ کتنا ہی وقت ضائع ہو۔ ایک آدمی آپ پہ پھبتی کسے گا۔ آپ کے سیاسی و مذہبی نظریات سے اختلاف رکھنے والے اس سے محظوظ ہوں گے۔ مخالف کی بے عزتی کے لیے ہر بندہ ایک جال بچھا رہاہے اور موقعے کی تاک میں ہے۔ ہر انسان کے ایسے دوست اور دشمن بن چکے ہیں‘ جن سے اپنی زندگی میں وہ کبھی نہیں ملا۔ یہ یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ واقعتاً دنیا میں ان کا کوئی وجود ہے بھی یا نہیں۔ نوبت یہاں تک آپہنچی کہ بزرگ نوجوانوں کو بدکردار ثابت کرنے کے لیے ان کے اسکرین شاٹ اٹھائے پھر رہے ہیں۔ جن لوگوں سے کبھی آپ ملے تک نہیں، شام کو آپ اپنی د ن بھر کی سرگرمیوں پر ایک رپورٹ انہیں جاری کرنے کے پابند ہیں۔

99فیصد وقت انسانی دماغ دو بڑی خواہشات‘ دولت کی محبت اور عورت کی محبت کے زیر اثر رہتاہے۔موجودہ صورتِ حال میں کاروبار سوشل میڈیا کی طرف شفٹ ہو رہا ہے۔ ہر طرف حسین چہرے بکھرے ہوئے ہیں۔ یہیں سے کچھ لوگ دوسروں کو ٹریپ کر رہے ہیں۔ ان باکس کے اسکرین شاٹس سامنے آرہے ہیں۔یہ بدنامی کا ایک دور ہے‘ جس میں سے سب لوگ باری باری گزر رہے ہیں۔

کبھی کبھی سمجھ یہ نہیں آتی کہ ان حالات میں خدا کی وہ مدد کہاں ہے‘ جس نے نفس اور شیطان سے انسان کی مدد کرنی ہے؟ سمجھ یہ بھی نہیں آتی کہ یہ کیسی آزادی ہے؟

تازہ ترین