• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ میرا بنیادی، انسانی، قانونی، آئینی اور جمہوری حق ہے کہ میں کبھی کبھار سچ لکھوں، سچ بولوں، اس سے کسی کا کچھ نہیں بگڑے گا، میرا بھی کچھ نہیں بگڑے گا۔ میرا جتنا کچھ بگڑنا تھا بگڑ چکا ہے، اب بگڑنے کے لئے میرے پاس کچھ نہیں ہے۔ پچھلے چھیاسٹھ برسوں سے میں نے اس ملک میں اس قدر بے تحاشہ سچ سنا اور سچ دیکھا ہے کہ میرا بھی جی کبھی کبھار سچ لکھنے اور سچ بولنے کو مچلتا ہے۔ آخر کو میں بھی انسان ہوں، پتھر نہیں ہوں میں! لہٰذا آج اس قصہ میں آپ سچ پڑھیں گے۔ خالص سچ کے سوا کچھ نہیں پڑھیں گے۔ مجھے ذیابیطس سہی کبھی کبھی کھانے کے بعد میرا من کرتا ہے کچھ میٹھا کھانے کو۔
سیاسی، سماجی، معاشی اور اقتصادی صدمے سہتے سہتے جن بھائی، بہنوں کی یادداشت کمزور پڑ گئی ہے، ان کو یاد دلا دوں کہ میں بہت ہی چھوٹا اور ٹھگنا ہوں۔ مگر میرے ہاتھ بہت لمبے ہیں، صرف آتش جواں نہیں ہوتے تھے۔ میں فقیر بھی کبھی جوان ہوا کرتا تھا۔ میری سوچ بھی جوان ہوا کرتی تھی، تب میں سوچا کرتا تھا کہ اگر کسی خاتون نے مجھ سے آسمان کے تارے توڑ لانے کی فرمائش کی تو میں اپنے لمبے ہاتھ اونچے کر کے خاتون کی جھولی ستاروں سے بھر دوں گا۔ اگر اس نے چاہا تو آسمان سے چاند چرا کر اس کے ماتھے کا جھومر بنا دوں گا مگر ایسی ایک خاتون کا انتظار کرتے کرتے میں بوڑھا ہو گیا۔ میں نے پھر کبھی اپنے لمبے ہاتھوں اور کبھی آسمان پر ٹانکے ہوئے تاروں ستاروں کی طرف دیکھنا چھوڑ دیا۔ دل ٹوٹا تو میں نے سنیاس لے لیا۔ جوگی بن کر بیابانوں میں بھٹکتا رہا۔ ریگستانوں کی خاک چھانتا رہا۔ ایک رات میں ریت کے ٹیلے پر سویا ہوا تھا، ایک درویش میرے خواب میں آئے اور کہا ”لمبے ہاتھوں والے اٹھ جا کر انسانیت کی خدمت کر۔“
انسانیت کی اس سے بڑی خدمت اور کیا ہو سکتی ہے کہ جہاں جہاں مجھے اندھیرا دکھائی دے میں وہاں روشنی پھیلا دوں۔ میں ویرانوں سے اٹھ کر بستیوں کی طرف لوٹ آیا۔ جن آبادیوں میں مجھے اندھیرا دکھائی دیا وہاں میں نے کھڑے کھڑے اپنے لمبے ہاتھوں سے بجلی کی تاروں میں کنڈے لگائے اور اندھیروں میں ڈوبی ہوئی آبادیوں کو روشن کر دیا۔ میری واہ واہ ہو گئی۔ میرا ڈیل ڈول، سر اور داڑھی کے کھچڑی بال دیکھ کر لوگوں نے مجھے بجلی بابا کے لقب سے نوازا۔ میری شہرت کو چار چاند تب لگے جب اسلام آباد سے ایک صاحب مجھ سے ملنے آئے۔ مجھ سے ہاتھ ملاتے ہوئے انہوں نے اپنا نام بتایا۔ ان کا نام سن کر نہ جانے کیوں مجھے رحمن ڈکیت یاد آیا۔ میں نے ان سے پوچھا ”سر! رحمن ڈکیت کو کس نے مارا تھا؟“
انہوں نے تعجب سے میری طرف دیکھا اور کہا ”بجلی بابا آپ جوگی فقیر ہیں، آپ تو جانتے ہوں گے کہ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ رحمن ڈکیت کا دانہ، پانی دنیا میں ختم ہو چکا تھا اس لئے اسے جانا پڑا۔“
اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا، انہوں نے کہا ”میں پریزیڈنٹ کا ایڈوائزر ہوں۔“
میں نے چونک کر کبھی ان کو اور کبھی اپنے پھٹیچر گھر کو دیکھا اور گنگنانے لگا، وہ آئے ہمارے گھر میں خدا کی قدرت ہے۔ میں اس پریزیڈنٹ کا نام آپ کو ہرگز نہیں بتاؤں گا جس کے وہ ایڈوائزر تھے۔ یہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی نئی حکمت عملی ہے۔ میں بڈھا طوطا نئی حکمت عملی سیکھ رہا ہوں۔ پچاس برس پہلے پڑھی اور سیکھی ہوئی حکمت عملی درگزر کرتا جا رہا ہوں۔ میں طائر لاہوتی نہیں کہ رزق سے منکر ہو جاؤں۔ پرواز میں کوتاہی کی مجھے فکر نہیں۔ بس رزق مجھے ملتا رہے۔ پرواز میں کوتاہی کی ذلت میں نے قبول کر لی ہے۔ میں نام لے کر آپ کو کبھی نہیں بتاؤں گا کہ کس خاتون اینکر پرسن کو جان سے مارنے کی دھمکیاں ملی تھیں اور وہ شہر چھوڑ کر چلی گئی تھی۔ میں آپ کو اتنا ہی بتاؤں گا کہ ایک خاتون اینکر پرسن کو دھمکیاں ملی تھیں اور وہ شہر چھوڑ کر چلی گئی تھی۔ میں بڈھا طوطا کمیو نی کیشن ٹیکنالوجی کی نئی حکمت عملی سیکھ رہا ہوں۔ جانتا ہوں رزق کے چکر میں، میں طائر لاہوتی ایک روز گدھ بن جاؤں گا۔ لہٰذا آپ مجھ سے یہ امید مت رکھیں کہ میں آپ کو اس صدر محترم کا نام بتاؤں گا جس کے ایڈوائزر مجھ سے ملنے آئے تھے۔
ایڈوائزر نے کہا ”بجلی بابا، سنا ہے کہ تم اندھیروں میں اجالا کر سکتے ہو!“
”ٹھیک سنا ہے آپ نے“ میں نے کہا۔ ”میں بجلی کی تاروں میں کنڈے لگا کر اندھیروں میں ڈوبے ہوئے گھروں کو روشن کر دیتا ہوں۔“
”پریزیڈنٹ ہاؤس کی بجلی اچانک غائب ہو جاتی ہے، تب جنریٹر بھی نہیں چلتے۔ ایمرجنسی لائٹیں بھی نہیں جلتیں۔“ ایڈوائزر نے کہا ”تھوڑی دیر بعد بجلی آ جاتی ہے اور پھر اچانک غائب ہو جاتی ہے۔“
میں نے ایڈوائزر سے پوچھا ”ایسے میں آپ لوگ موم بتیاں کیوں نہیں جلاتے؟“
ایڈوائزر نے کہا ”موم بتی کی لو سے دیواروں پر بننے والے سایوں سے صدر صاحب کو ڈر لگتا ہے۔“
میں نے ایڈوائزر سے پوچھا ”صدر صاحب کو سایوں سے سچ مچ ڈر لگتا ہے یا مبینہ طور پر ڈر لگتا ہے؟“
ایڈوائزر نے حیرت سے پوچھا ”یہ مبینہ کیا ہے؟“
”یہ جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی کی اصطلاح ہے۔“ میں نے کہا۔ ”ایک صدر صاحب کو مبینہ طور پر جھینگر یعنی کاکروچ سے ڈر لگتا ہے۔ ایک صدر صاحب کو مبینہ طور پر چھپکلی سے ڈر لگتا ہے۔ ایک صدر صاحب کو مبینہ طور پر شک تھا کہ انہیں کھانے میں زہر ملا کر مار دیا جائے گا۔ لہٰذا وہ مبینہ طور پر اپنے سامنے خانسامہ، بیروں اور اردلیوں کو اپنے ڈونگوں سے کھانا کھاتے ہوئے دیکھتے تھے پھر خود کھانا کھاتے تھے۔“
”میں تمہاری بات سمجھ گیا ہوں بجلی بابا“ ایڈوائزر نے کہا۔ ”صدر صاحب کو سچ مچ سایوں سے ڈر لگتا ہے۔“
”یہ آپ کہہ سکتے ہیں، میں نہیں“ میں نے کہا۔ ”جدید انفارمیشن محاورے کے مطابق میں کہوں گا کہ صدر صاحب کو مبینہ طور پر سایوں سے ڈر لگتا ہے۔“
”بجلی بابا تم جو چاہو کہو“ ایڈوائزر نے کہا ۔ ”تم ایوان صدر سے بجلی کے آنے جانے کا مسئلہ حل کر دو۔“
کیا میں نے مبینہ طور پر ایوان صدر کی روشنیاں بحال کر دیں؟ اور مبینہ طور پر میرے لمبے ہاتھ کس طرح میرے کام آئے، یہ باتیں میں آپ کو مبینہ طور پر اگلے ہفتے بتاؤں گا۔
تازہ ترین