• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اب یہ ایک کھلا راز ہے کہ مارچ 1971 کو بنگلہ دیش کی آزادی کے نعرے کی طرف دھکیلے جانے سے بھی کئی برس قبل یہ شیخ مجیب الرحمن یا بنگالی قوم پرست نہیں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ تھی جو ملک کا مشرقی بازو کاٹنے کا فیصلہ کر چکی تھی۔ نیز یہ بھی کہ وہ شیخ مجیب الرحمن، سو سالہ بنگالی قوم پرست نہیں تھے جنہوں نے شیخ مجیب الرحمن کو شیخ مجیب الرحمن بنایا بلکہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور مرکز کے غرور اور جور و ستم نے شیخ مجیب الرحمن کو ایک عام سے سیاستدان سے بنگلہ بندھو اور تب کے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنادیا۔ بقول شخصے جو قوم تاریخ سے سبق نہیں سیکھتی اس کا جغرافیہ ہی تبدیل ہوجاتا ہے۔ تب ہم سابقہ مغربی پاکستان کے اکثر لوگ بنگالی فوبیا کی بیماری میں مبتلا تھے کہ بنگالی بھوکے ، غدار اور ہندو کلچر کے قریب ٹھہرائے جاتے تھے۔ اور ہم سب مسلمان فاتحین کی اولادیں۔ نام کے مسلمان ہونے کے فتوے بنگالی مسلمانوں کے لیے بھی دئیے جاتے تھے جن کا پاکستان بنانے میں سب سے بڑا بڑا ہاتھ تھا وہ مشرقی بنگال کے ہی لوگ تھے۔اس وقت بڑا صوبہ مشرقی بنگال یا مشرقی پاکستان تھا پر وہ بڑا بھائی نہیں تھا۔ آبادی کے اعتبار سے بڑے صوبے سے ہم نے پیئرٹی کا اصول لاگو کر رکھا تھا لیکن مشرقی پاکستان کے جدا ہونے کے بعد پیئرٹی کے اصول کا اطلاق باقیماندہ بڑے بھائی پر نہیں ہوا۔ لیکن اگر وسائل کی بنیاد پر اقتصادی سیاسی و سماجی انصاف پاکستان میں ہوتا تو سب سے زیادہ حقوق بلوچستان کے تسلیم کیے جا چکے ہوتے۔ بلوچ قوم پرست کہتے ہیں کہ سارا جھگڑا ساحل و وسائل کا ہے۔ آج بھی بلوچوں کے ساحل و وسائل کو مال غنیمت کی طرح لوٹا جا رہا ہے۔
بگٹی قبائل کے پرانے لوگوں کے پاس ایک قدیم کہانی تھی کہ ان کے نواب نے سنگسیلا کی پہاڑوں میں چھپے ہوئے ایک خطرناک سانپ کو اس کا سر کچل کر ہلاک کیا تھا اور سانپ کے سر میں سے جو ایک بیش بہا موتی نکلا تھا وہ موتی اسلام آباد میں پاکستان کے بادشاہ کی کرسی میں جڑا ہے اور سارا جھگڑا اسی موتی پر ہے۔ لیکن 1950 کے عشرے کے اوائل سے لیکر سوئی کے علاقے سے قدرتی گیس کے ذخائر دریافت ہوئے لیکن کوئٹہ سمیت بلوچستان میں گیس کے عشروں تک بلوچستان والوں کو کیلئے ایک خواب رہا۔ تانبے، سونے، سنگمرر، تیل و گیس سے ذخائر سے مالامال صوبہ پاکستان کا سب سے پسماندہ اور مفلوک الحال لیکن رقبے میں سب سے بڑا صوبہ رہا۔ بلوچستان کے پہاڑوں کو روئی کی طرح اڑادیا گیا۔ جب نیوکلیئر دھماکہ کیا گیا تو بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کو بھی شاز و نادر ہی اس کا پتہ تھا۔ اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کو بلوچستان سے دلچسپی بس اتنی تھی کہ انہی دنوں جب گوادر کراچی روٹ پر پی آئی کا طیارہ اغوا کیا گیا تو مبینہ طور وزیراعظم کی خواہش اس ہائی جیکروں کے معاونت کار کے طور پر ایف آئی آر میں آصف زرداری کا نام درج کیے جانے کی تھی۔ لیکن پرویز مشرف بلوچوں کیلئے ایسا ثابت ہوا جیسے کردوں کیلئے صدام حسین۔ یہ بھی دلچسپ امر واقعہ ہے کہ انیس سو تہتر میں بلوچوں پر جنرل ٹکا خان کے ذریعے آپریشن کا حکم دینے والے کے داماد آصف علی زرداری نے برائے نام ہی سہی بلوچوں سے وفاق کی طرف سے ہونیوالی زیادتیوں کی معافی مانگی۔ معافی ضیاء الحق نے بھی مانگی تھی۔ وہ ذوالفقاار علی بھٹو کی حکومت کے دوران فریال تالپور کے سسر اور بلوچ قوم پرستوں کے زبرست حامی میر علی بخش تالپور کو بھی حیدرآباد سازش کیس میں قید کر کر سخت ایذیتیں دی گئیں تھیں۔
زرداری عہد صدارت میں تحفظ حقوق بلوچستان کا ڈھنڈھورا تو بہت پیٹا گیا لیکن اسی دور سے لیکر ابتک حکومتی اعداد و شمار بھی اعتراف کرتے ہیں کہ چھ سو سے زائد لوگ بلوچستان سے لاپتہ ہوئے۔ بلوچ وائس آف مسنگ پرسنز چاہے آزاد ذرائع فقط لاتعداد بلوچوں کی تعداد ہزاروں میں سرکاری اعترافی اعداد شمار سے کئی گنا زیادہ بتاتے ہیں۔ا لز ا م ہے کہ اسٹرٹیجک مفادات کے تحت بلوچوں اور ہزارہ کمیونٹی کے شکار کے لائسنس د یے جا تے ہیں یہ یہ اب ختم ہوجانے چاہئیں۔ نہ پاکستان کے ہزارے افغانستان کے شمالی اتحاد کا حصہ ہیں، نہ ہی سب تمام بلوچ لوگ اور سیاستدان و سیاسی کارکن را کے ایجنٹ اور نہ ہی کوئٹہ سمیت بلوچستان میں عشروں برسوں سے بسنے اور آب و دانہ ڈھونڈھنے والے پنجابی سرائیکی لوگ آئی ایس ائی کے ایجنٹ۔ بلوچستان جنگی وڈیو گیم نہیں اور نہ ہی یہ جنگ ستاروں پر لڑی جا رہی ہے۔ نہ ہی بلوچ عسکریت پسند علحدگی پسند اپنی بندوقوں کی نالیوں پر پھول رکھ کر داغ رہے ہیں۔ اتنا بھی نہیں جتنا پاکستانی حکومت کہتی ہے لیکن یہ بھی نہیں کہ ہندوستان بلوچستان میں عسکریت پسند بلوچوں کو بالکل مدد نہیں کر رہا۔ بلوچ عسکریت پسند یا کئی قوم پرست رہنما تو کہتے ہیں کہ وہ بھارت امریکہ روس تو کیا شیطان سے بھی مدد مانگنے کو تیار ہیں۔ نہ ہی پاکستانی فوج و ایف سی وہاں پکنک منانے پہنچی ہوئی ہے۔
صرف کراچی ہی نہیں بلوچستان کو بھی لندن سے ریموٹ کنٹرول دہشت گردی کی طرح چلایا جا رہا ہے۔ واشنگٹن میں بلوچ صحافی اور میرے دوست احمر مستی خان کے بقول اگر ہندوستان پاکستان کے ساتھ امن چاہتا ہے تو اسے بلوچستان میں اپنی ریشہ دوانیوں سے ہاتھ کھینچنا ہوگا اور نیز یہ بھی کہ برطانیہ کے وزیر اعظم گورڈن براؤن کی بلوچستان میں دہشت گردی روکنے ، خطے میں امن کی غرض سے برطاینہ سے بلوچستان میں ریموٹ کنٹرول تخریب کاری کی بیخ کنی میں کاوشیں کارگرکر ہوسکتی ہیں۔ ا لز ا م لگا یا جا تا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے تشکیل دیئے گئے جتھے گمشدہ بلوچوں کو قتل کر کر ان کی مسخ شدہ لاشوں کی جیبوں میں انکے نام اور پاکستان زندہ آباد کی پرچیاں ڈال کر پھینکتے ہیں ا س عمل سے بلوچوں کو حب الوطنی نہیں سکھائی جا سکتی۔ کیا یہ اچھانہ ہوتا اگر ممنون حسین کی جگہ نواز شریف کی نظر انتخاب عطاء اللہ خان مینگل ہوتے تو شاید بلوچوں کے دلوں میں نواز شریف کچھ پوانئٹس اسکور کررہے ہوتے۔ شاید۔ اگر طالبان سے مذاکرات کیے جاسکتے ہیں تو پھر ناراض بلوچوں سے کیونکر نہیں۔ بلوچستان پر بھی تو گرانڈ جرگہ بلایا جا سکتا ہے۔چین بڑا دوست سہی اس کی دوستی ہمالیہ جیسی بلند سہی لیکن مرکز و اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں بلوچوں کو پہنچائے ہوئے دکھوں کے پہاڑ بھی ہمالیہ جتنے ہیں۔
بلو چستا ن کے تر قی پسند یہ کہتے ہیں کہ گوادر کو چین کے حوالے کرنے سے لے کر اکبر بگٹی کی لاش کے بکسے پر چینی تالے لگانے تک بلوچوں کو اپنا دوست نہیں بنایا جا سکتا۔ حال ہی میں میں دہشتگردی پر ملک گیر کانفرنس میں ناراض بلوچوں سے بات چیت کر کے بلوچستان مسئلہ حل کرنے کی کوشش کا گرین سگنل دے دیا گیا ہے تو پھر وزیر اعلی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو اصلی مینڈیٹ بھی ملنا چاہیے۔ یہی66 سالہ تاریخ میں انہی منفی اندھی اور طاقت کے نشے میں مدہوش قوتوں نے بلوچستان کے ساتھ کیا ہے کہ غیر مصد قہ ا طلا عا ت کے مطا بق ا ب صو ر تحا ل یہ ہے کہ نوے فی صد بلوچی علاقوں میں نہ قومی ترانہ پڑھا جاتا ہے نہ کہیں پاکستان کا سبز حلالی پرچم لہرایا جا سکتا ہے۔ بلوچوں کو سوائے ان کی مسخ شدہ لاشوں کے سوا دیا ہی کیا گیا ہے؟
وہ جن کے جوانوں کو قرآن کے حلف پر بات چیت کرنے کا وعدہ کر کے پہاڑوں سے اتار کر ان کے بزرگوں کی آنکھوں کے سامنے پھانسیاں دے دی جائیں وہ ریاست پر اعتبار کریں تو کیوں کر؟لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کھیل معتدل مزاجوں سے انتہاپسندوں کی طرف نکل چکا ہے۔ لیکن امن کیلئے کوششیں کرنے میں ہرج ہی کیا ہے پر اس کی پیشگی شرائط میں گمشدہ بلوچ سیاسی کارکنوں کی آزادی و تمام گمشدگان کا عدالتوں میں ظاہر کیا جانا مذاکرات شروع کرنے سے قبل ضروری ہے۔ ا یک نظر یہ یہ بھی ہے کہ عام معافی بلوچوں کو نہیں ریاست کو مانگنی چاہیے۔ بلوچوں کے ساحل و وسائل زمین پر زمین کے اندر یا ساحل سمندر پر پہلا حق بلوچوں کا تسلیم کرلینا چاہئے کہ اصل بلوچوں کے تاریخی و فطری حق تسلیم کیا جانا ہی تحفظ پاکستان کی گارنٹی ہے۔ریاستی انا وطاقت نہیں۔
تازہ ترین