• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک دل خوش کن تحریر نظر سے گزری، آپ نے بھی دیکھی ہوگی ، دیواروں پہ لکھی ہے، عام سی ، دیواروں پہ جیسے نعرے لکھے جاتے ہیں۔ یہ مگر مختلف ہے۔ ایک پیغام ہے اس میں، توجہ کا طالب، ایک جذبہ کا اظہار، ایک خواہش، ایک درد مند دل کی آواز۔ اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں، روشنی کی ایک کرن، یہ خواہش جگاتی کہ نور کی یہ کرنیں ہر طرف پھیل جائیں ۔ ان ہی دیواروں پر دل دہلا دینے والے نعرے کافی عرصے سے لکھے جا رہے ہیں، ایک دوسرے کے خلاف، اپنی کسی سیاسی یا مذہبی جماعت یا تنظیم کے حق میں۔بار بار ان دیواروں کو پوت دیا جاتا ہے، نعرے مگرپھر لکھ دئے جاتے ہیں، اِس کے خلاف یا اُس کے خلاف نفرتیں بونے کیلئے۔ یہ نعرہ کس نے لکھا ہے؟مثبت سوچ کی یہ لہر کہاں سے آئی ہے؟یہ جستجو ضروری نہیں۔دیوار پر لکھے گئے تین الفاظ اتنے اہم ہیں کہ کسی اور جانب توجہ جاتی ہی نہیں۔ ضرورت بھی نہیں ہے کچھ اور سوچنے کی۔ جو لکھا ہے اسی پر غور کرنا چاہئے۔اس سے بہتر کیا ہو سکتا ہے؟ شیعہ سنی اتحاد۔ کس نے یہ کوشش کی ہے؟ کس کی یہ خواہش ہے، کس کے دل میں اللہ نے امّت کا درد ڈالا؟ اس کی کیا اہمیت ۔ نیک نیتی ان تین الفاظ سے جھلک رہی ہے۔روشنی کی کرنیں۔ پہلے بھی یہ کوششیں ہوتی ہوں گی۔کبھی کامیاب کبھی ناکام کہ سازشی اپنی کارروائیاں کرتے ہی رہتے ہیں۔1985کی بات ہے، کراچی میں بڑا فساد ہوا۔بہت نقصان ہوا،جانی اور مالی۔کئی دن کرفیو لگا رہا۔ پھر زندگی آہستہ آہستہ معمول پر آگئی۔ کراچی میں اس کے بعد کبھی شیعہ سنی فساد نہیں ہوئے۔ نقصان یقینا اس کے بعد بھی ہوتا رہا، کہ انتہا پسندوں نے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ مسجدوں اور امام بارگاہوں کو نشانہ بنایا گیا، علماء قتل کئے گئے،ڈاکٹر مارے گئے اور وکیل اور اساتذہ۔ عام لوگ مگر ان جھگڑوں سے الگ رہے، اس طرح نہیں ہوا کہ محلّوں محلّوں جھگڑے ہوئے ہوں ، ایک دوسرے کی املاک کو نقصان پہنچایا گیا ہو، گھر جلائے گئے ہوں۔ یوں نہیں ہوا۔ امت مسلمہ کا نقصان اگرچہ کیا جاتا رہا۔چند ایک علاقوں میں حالات بدتر ہوتے گئے۔کوئٹہ ،پارہ چنار اور ہنگو میں بھی حالات خراب ہوتے رہتے ہیں، کئے جاتے ہیں، انسان مرتے رہے ،اپنی کسی شناخت کے ساتھ۔ مارنے والوں کی بھی اپنی کوئی شناخت ہوگی، ایک شناخت توانتہا پسندی اور بر بریت کی ہے۔سب ہی کچھ ہوتا رہا۔ایک طویل عرصے سے ہو رہا ہے۔مگر اب آگے کی طرف دیکھیں۔وقت کی ضرورت اتحاد ہی ہے، پہلے بھی تھا، اب اور زیادہ ہے۔ساری قوم کا اتحاد ۔ایسے میں کسی نے اگر شیعہ سنی اتحاد کی بات کی ہے تو اسے آگے بڑھانا چاہئے۔ یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ یہ دونوں بھی دوسروں کی طرح ہمیشہ سے ساتھ ساتھ رہتے آئے ہیں۔ ہر گلی ہر محلے میں ان سب کے گھر پاس پاس ہوتے ہیں ، آنا جانا،تعلقات، لین دین ، خوشی غمی، سب ہی مشترکہ ہوتے ہیں۔ جب کراچی آیا تو ساجد رضوی نے اپنے گھر کی چھت فراہم کی۔ ساجد ایران اورپھر لندن چلا گیا۔ اس کے گھر رہتا رہا۔ امّاں ساجد کی جگہ سمجھتی تھیں۔ بھابھی یہی کہہ کر تعارف کراتی تھیں، یہ میرا دیور ہے۔ ساجد کے ساتھ انہیں رخصت کرا کے لائے تھے۔ دنیا سے رخصت کرتے وقت بھائی جان کے ساتھ کندھا انہیں د یا۔ ایسے اور بھی بہت سے لوگ ہیں،ہر چیز سے بالاتر، ہر نفرت سے ماورا،صرف انسانیت کے ناتے ایک دوسرے کا خیال رکھنا ان کا شیوہ۔اقبال جعفری صاحب بی بی سی سمیت کئی اداروں کے لئے کام کرتے تھے۔ان کا دفتر شام کو ظفر عباس کے ساتھ اپنے کام کے لئے استعمال کرتے۔ ٹیلیکس مشین سے انڈیا خبریں بھیجنا ہو یا فون پر اسلام آباد خبریں لکھوانا،ان کا اصرار ہوتا یہیں سے بھیج دیں، یہیں سے لکھوادیں، اس وقت فون بہت مہنگا تھا۔ان کا کہنا ہمیشہ مگر یہی ہوتا،کوئی فرق نہیں پڑتا۔ایسے رویے ہوں ،اور یہ اکثریت کے رویے ہیں، تو کیا اتحاد مشکل ہے؟ خیالات اور نظریات مختلف ہو سکتے ہیں، ہوتے ہیں۔ انہیں نفرت کی بنیاد نہیں بنانا چاہئے،بلکہ اگر بن رہے ہوں تو ان کی راہ میں رکاوٹ بن جانا چاہئے، یہ آپ کی، میری اور ہم سب کی ضرورت ہے۔ گڑ بڑ کہاں سے شروع ہوتی ہے؟ سب ہی جانتے ہیں، دنیا بھر کا طے شدہ اصول ہے،آپ کے خیالات آپ کی حد تک رہنے چاہئیں۔ آپ کی آزادی وہاں ختم ہو جاتی ہے جہاں سے میری ناک شروع ہوتی ہے۔ اس اصول پر عمل کیا جاسکتا ہے۔ نفرتوں کو ہوا دینے کی بجائے، محبتوں کے پھول کھلائے جاسکتے ہیں۔ حالات اسی طرح بہتر ہو سکتے ہیں۔ آپ اپنی آزادی کا استعمال کریں۔
ساتھ ہی دوسروں کے جذبات اور احساسات کا بھی خیال رکھیں۔ یہ دیکھ لیں کہ آپ کسی کا دل تو نہیں دُکھا رہے، کسی کے جذبات تو مجروح نہیں ہو رہے۔ ایک ذرا سی کوشش سے وہ آگ ٹھنڈی کی جاسکتی ہے جسے دوسرے اپنے فائدے کے لئے بھڑکائے رکھنا چاہتے ہیں۔ اتحاد کا مقصد حاصل کرنے کے اور بھی کئی راستے ہیں، اللہ اور رسول اکرم ﷺ نے جو بتا دئے ہیں، ابدالآباد تک کے لئے۔ کہیں سے بھی شروع ہو سکتا ہے، کیا جاسکتا ہے۔ فروعات کوفی الحال ایک طرف اٹھا رکھیں، بہت سے بہت انہیں اپنی ذات تک محدود کر لیں۔ اختلافات پر زور ذرا کم، متفقہ باتوں کو زیادہ اہمیت دی جائے۔ یہ امت تو اس لئے بھی بہت خوش قسمت ہے کہ اس کے پاس قرآن ہے اور اُسوہ ٴ حَسنہ۔ اپنے سارے معاملات ان کی روشنی میں دیکھیں اورپرکھیں۔ کھرے اور کھوٹے کو جانچنے کی یہ بہترین کسوٹیاں آپ کے پاس ہیں، اور رہنمائی کے لئے روشنی کے یہ بے بدل مینار۔ یہ معیار سب کے لئے ہیں، سب ہی کو ان سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔
ایک ذرا غور کریں تو کچھ ذمہ داریاں علماء پر بھی عائد ہوتی ہیں۔اپنے اپنے دائروں سے وہ باہر نکلیں، تھوڑے تھوڑے ہی صحیح، ابتدا میں، دوسروں کی دلجوئی کی کوشش کریں۔ مثلاً یہ ہوسکتا ہے کہ شیعہ علماء سنیوں کی مذہبی تقریبات میں شریک ہوں،خلفائے راشدین کے دن مل کر منائیں۔ ابھی چند برس پہلے کی بات ہے، علامہ رشید ترابی، خالقدینا ہال میں محرم کی مجالس پڑھا کرتے تھے۔ ایک بڑا اجتماع ہوتا تھا۔ مقرر وہ بلا کے تھے، سب ہی انہیں سننے آتے، شیعہ تو ہوتے ہی تھے، سنیوں کی بھی ایک بہت بڑی تعداد محرم کے دسوں دن ان کی مجلس میں شریک ہوتی۔ کبھی شیعوں نے انہیں منع نہیں کیا، انہیں خود کبھی اس مشترکہ غم سے الگ ہونے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔یہ اتحاد کی ایک علامت تھی، ابھی چند برس پہلے تک۔ اسے تھوڑا اور وسیع کر لیں۔ کئی سنی علماء اب بھی شیعوں کی مجلس میں جاتے ہیں، شیعہ علماء اور عام لوگ بھی سنیوں کی تقریبات میں جانے لگیں تو بازو مزید کھل جائیں گے، دل مزید مل جائیں گے،نفرتیں کم کرنے کے لئے کام کریں۔ کہتے ہیں: دل بدست آور کہ حج اکبر است۔
تازہ ترین