• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چند روز قبل کی بات ہے کہ ایک شخص میرے آفس آیا اور روتے ہوئے کہا کہ میرے بیٹے کے دل میں سوراخ ہے، چلڈرن اسپتال والوں نے پانچ ہزار روپے سی ٹی سکین کیلئے لے لئے ہیں میری تنخواہ صرف نو ہزار روپے ہے اب میرے پاس صرف چار ہزار روپے ہیں بتائیں کہ میں ان چار ہزار روپے میں کیسے گزارہ کروں؟ چار ہزار کو چھوڑیں وہ بے چارہ تو نو ہزار روپے میں بھی اپنا مہینہ نہیں گزار سکتا بچے کے دل کے آپریشن اور دیگر اخراجات کیسے پورے کرے گا۔ پھر ہر سرکاری اسپتال ہر مستحق مریض کو بیت المال اور زکوٰة فنڈکا راستہ دکھاتا ہے وہاں سے کون سے جلدی فنڈز مل جاتے ہیں ،چکر لگوا لگوا کر پیسے دیئے جاتے ہیں۔
دوسرا کیس بھی سن لیں۔ ایک والد ہمارے پاس آیا اس نے بتایا کہ اس کے بیٹے کے دل میں دو سوراخ ہیں۔ اکتوبر 2012ء میں وہ چلڈرن اسپتال گیا ڈاکٹروں نے کہا کہ دو تین ماہ میں تمہارے بچے کا آپریشن کر دیں گے۔ اب 2013 کا اکتوبر آنے والا ہے آپریشن نہیں ہوا۔ دونوں والدین اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ اپنی جیب سے علاج کرا سکیں۔ میاں صاحب آپ ذرا سوچیں یہ بھی کسی کے لعل ہیں ۔ یہ بھی اپنی ماں کی آنکھوں کے تارے ہیں۔ شعبہٴ صحت اور اسپتالوں میں روزانہ سینکڑوں لوگوں کو علاج کے اخراجات برداشت نہ کرنے پر اسپتال والے گھر بھیج دیتے ہیں، جس طرح غریب مریضوں کو اسپتالوں کے اعلیٰ ڈاکٹر خوار کرتے ہیں اگر میں ان کی داستانیں بیان کروں تو سر شرم سے جھک جائیں ۔ آج کل گردوں کے مریض بے چارے جگہ جگہ علاج نہ ملنے پر مظاہرے کر رہے ہیں۔ چھوٹے میاں صاحب آپ راوی کے ساتھ کئی ایکڑ رقبے پر ایک نیا شہر بسانا چاہتے ہیں۔ بڑے میاں صاحب اسلام آباد کے ساتھ ایک نیا شہر بسانا چاہتے ہیں۔ ان نئے شہروں میں لاغر اور بیمار قوم کو بسانے کی بجائے عوام کی صحت کی سہولیات میں اضافہ کریں۔ آپ جو اربوں روپے ان شہروں پر خرچ کریں گے اس کی بجائے اپنے اسپتالوں کو بہتر کریں، جدید آپریشن تھیٹرز بنائیں، بچوں کے اسپتال بنائیں، ہاں بھئی اس کام سے کیا فائدہ؟ دونوں شہر بسائیں گے اس سے کئی لوگوں کو کروڑوں روپے کا فائدہ ہو گا۔ بیورو کریسی اور سیاستدانوں کی کئی نسلیں سنور جائیں گی۔ واسا کو ترکی کے حوالے کر رہے ہیں سارے ملک کے سارے محکمے آپ ترکی کے حوالے کر دیں پھر بھی آپ کا ملک اور لوگ ترکی جیسے نہیں ہوں گے۔ میاں صاحب گستاخی معاف آپ ترکی سے بہت متاثر ہیں نہ تو ترکی کی طرح کے لوگ یہاں ہیں نہ ان کے حکمران، افسر اور سیاستدان ہماری طرح کے ہیں۔ کیا آپ یہ شہر ترکی کے سمندر اور دریاؤں کے کنارے خوبصورت گھروں کی طرح بنا لیں گے ، کبھی نہیں۔ صرف لینڈ مافیا یہاں سے کروڑوں اربوں کمائے گا اور کچھ نہیں ہو گا۔ کوئی بستی ترکی جیسی نہیں بنے گی۔ ایک بہت بڑے بیورو کریٹ کے پاس ہم بیٹھے تھے انہوں نے کہا کہ کبھی بڑے میاں صاحب اور چھوٹے میاں صاحب نے ان بڑے بڑے ناموں والے بیورو کریٹس سے جو منہ بگاڑ بگاڑ کر انگریزی بولتے قمیضوں کے اوپر گیلس چڑھائے ہوتے ہیں، ان سے پوچھا کہ تم نے 67برس میں اس ملک کو کیا دیا؟ جو جس محکمے میں گئے اس کو تباہ کر آئے۔ ریلوے، پی آئی اے، اسٹیل مل، صحت اور تعلیم وغیرہ یہ محکمے کسی کلرک، سپرنٹنڈنٹ نے تباہ نہیں کئے ۔ کیا سی ڈی اے کئی سال پہلے ایک نیا شہر آباد نہیں کر سکتی تھی؟ کہاں ہیں وہ سی ڈی اے کے چیئرمین بیورو کریٹ جو قیمتی کپڑے پہن کر جونکوں کی طرح اس ملک کا خون چوستے رہے ہیں۔ ایک پرائیویٹ شخص نے تو سی ڈی اے سے بہتر بستی بنا دی۔ سی ڈی اے ایسا کیوں نہ کر سکی، کسی نے ان سے پوچھا؟
وزیر اعظم کے گریڈ 19 کے سیکرٹری کیا وزیر اعظم کو یہ بتا سکتے ہیں کہ ان کا بیٹا یو کے اور بیٹی یو ایس اے میں تعلیم کس طرح ذاتی اخراجات پر حاصل کر رہے ہیں؟ یہ سب بیان بازی اور دھوکہ بازی ہے کچھ نہیں ہو گا۔
ہم ہمیشہ جذبات میں آ جاتے ہیں اصل بات کی طرف آتا ہوں پاکستان میں ہر سال 35 ہزار بچے دل میں سوراخ لئے پیدا ہوتے ہیں۔ پورے ملک میں صرف دو چلڈرن اسپتال ہیں جبکہ ہر ٹیچنگ اسپتال میں بچوں کا وارڈ ہے۔ پنجاب کے کسی کارڈیالوجی سنٹر میں بچوں کے دل کی سرجری نہیں ہو رہی سارا بوجھ لاہور چلڈرن اسپتال پر ہے۔ میاں صاحب ایک دن وہاں جائیں گے اور وہاں کے عملے کو معطل کر کے آ جائیں گے۔ چلڈرن اسپتال میں بستر مہیا کرنا، ہارٹ سرجنوں کی تعداد میں اضافہ کرنا وہاں کے میڈیکل ڈائریکٹر کی ذمہ داری نہیں کیونکہ یہ تمام سہولتیں سرکار نے مہیا کرنی ہیں۔ سرکار کی ترجیحات میں وہ کام ہیں جہاں سے کمائی ہو سکے حالانکہ شعبہٴ صحت سے بھی لوگوں نے کروڑوں کمائے اور اب موجیں کر رہے ہیں۔ اسپتال میں بیڈ 250 اور مریض 1400 ہیں اب اس کا تناسب آپ خود بنا لیں۔ پورے ملک میں دل کے مریض بچوں کو بے ہوش کرنے والی صرف ایک ڈاکٹر ہے اور جس طرح اس ڈاکٹر کو ہمارے نظام میں پریشان کیا جا رہا ہے وہ بھی ایک کہانی ہے۔ بچوں کے دل کی سرجری کے لئے تربیت یافتہ نرسوں کی شدید کمی ہے۔ بچوں کے ہارٹ سرجنوں کی بھی انتہائی کمی ہے۔ میاں صاحب ذرا چلڈرن اسپتال میں اپنے ان قابل بیورو کریٹس کو لے کر جائیں جو ریٹائرمنٹ کے بعد یہ ڈینگیں مار رہے ہوتے ہیں کہ جب وہ سیکرٹری تھے تو انہوں نے اس محکمے میں انقلاب برپاکر دیا تھا۔ اس کے جانے کے بعد محکمہ ڈوب گیا۔ تھوڑا سا ذکر سر گنگا رام اسپتال کے گائنی وارڈ کا بھی سن لیں۔ اصل میں میاں صاحب کو آئی ٹی ٹاور اور 90 شاہراہ قائداعظم سے فرصت ہی نہیں اس لئے ان کے نزدیک سب اچھا ہو رہا ہے۔ سر گنگا رام اسپتال کی گائنی وارڈ میں ایک ایک بستر پر چار سے چھ حاملہ عورتیں لیٹی ہوئی ہیں۔ ابھی چند روز قبل گائنی ایمرجنسی میں چار بستروں پر 42 حاملہ خواتین لیٹی ہوئی تھیں۔ اندازہ آپ خود لگا لیں۔ گائنی ایمرجنسی میں جو حاملہ خواتین آتی ہیں ان کو ہیپا ٹائٹس بی/ سی یا کون سی بیماری ہے آپ اس وقت ٹیسٹ نہیں کر سکتے چنانچہ اس حاملہ عورت پر استعمال ہونے والے آلات ڈاکٹرز صرف پانی سے دھو کر دوسری خاتون کو لگا دیتے ہیں۔ آنے والے چند برسوں میں اس میں ہیپاٹائٹس بی اور سی کا طوفان آ جائے گا۔ پھر سرکاری اسپتال کی گائنی ایمرجنسی پر اتنا دباؤ ہوتا ہے کہ ڈاکٹرز اور اسپتال کی انتظامیہ آلات کو جراثیم سے پاک نہیں کر سکتی بس ایک دفعہ آٹوکلیئر کیا اس کے بعد آلات کا استعمال چل سو چل والی بات۔ میاں شہباز شریف صاحب آپ ذرا سر گنگارام اسپتال کی گائنی ایمرجنسی اور گائنی وارڈ میں بھی جا کر دیکھیں، کیا ہو رہا ہے؟ لاہور میں ابھی معصوم بچی کے ساتھ زیادتی کے واقعے پر بات ہو رہی تھی کہ فیصل آباد اور ٹوبہ ٹیک سنگھ میں بھی 2 بچیوں کے ساتھ اور ڈیرہ اسماعیل خان اور قصور میں 2 لڑکوں کے ساتھ زیادتی اور لاہور میں ایک بچی کے ساتھ زیادتی کی کوشش کی گئی اور ہمارے حکمرانوں کا روایتی بیان اور حمزہ شہباز کا یہ بیان کہ ملزموں کو نشان عبرت بنانے کے لئے قانون کو سخت کرنا ہو گا۔ ارے بھائی قانون کب سخت کرو گے جب کئی معصوم بچیوں کے ساتھ ایسے واقعات ہو جائیں گے اور حکمرانوں کا یہ کہنا کہ کڑی سزا دی جائے گی، آپ کے قانون میں زیادتی کی جو سزا درج ہے بس وہی ملے گی۔ یہ کوئی دبئی تو ہے نہیں کہ ہر کیس کا فیصلہ صرف تین ماہ میں کر دیا جائے۔ یہاں تو کیس سالہاسال چلتے ہیں، لوگ مر جاتے ہیں، جج ریٹائر ہوجاتے ہیں پھر بھی کیس چلتے رہتے ہیں۔ ایک وکیل کے بعد اس کا بیٹا وکیل وہی کیس چلاتا رہتا ہے مگر انصاف نہیں ملتا۔ رہا سی سی پی او کا یہ بیان کہ ہم تفتیش کر رہے ہیں صرف ایک روایتی بیان ہے۔ پولیس کے طریقہ کار میں کوئی تبدیلی نہ آئی ہے نہ آئے گی۔ ہمیں اپنے اس بیورو کریٹ دوست کی بات یاد آ جاتی ہے جو اپنے دفتر میں رات گئے پاگلوں کی طرح کام کرتا ہے کہ ان پولیس والوں کو کیا پتہ کہ تفتیش کس چڑیا کا نام ہے۔ یہ نئے نئے افسر تو ہر وقت صرف عہدے، ترقی اور کمائی کے چکر میں رہتے ہیں۔
میاں صاحب اگر ملزم واقعی پکڑے جائیں آپ ایک دفعہ ان مجرموں کو ہاتھی کے پاؤں تلے کچل دیں یا دو گھوڑوں کے ساتھ باندھ کر دونوں گھوڑوں کو مخالف سمت میں بھگائیں پھر دیکھیں کہ اس ملک میں زیادتی کے واقعات کیسے ہوتے ہیں؟ آپ ایک دفعہ ایسا کریں تو سہی پوری قوم آپ کے ساتھ ہو گی۔ لوگوں کو یادہو گا جب شادمان چوک میں پپو کیس کے مجرموں کو سرِ عام پھانسی دی گئی تھی تو کئی ماہ تک بچے کی اغوا اور زیادتی کی وارداتیں رک گئی تھیں۔ میاں صاحب پھر یہ کہوں گا کہ جن لوگوں کے بچوں کے دل میں سوراخ ہیں وہ اتنا مہنگا علاج نہیں کراسکتے خدارا ان لوگوں کے لئے کچھ کریں۔ ایک چلڈرن اسپتال کافی نہیں تمام ٹیچنگ اسپتالوں کے بچہ وارڈز کو اپ گریڈ کریں۔ بچوں کے دل کے سرجن اور بیہوش کرنے والے ڈاکٹروں کی تعداد بڑھائیں۔
تازہ ترین