• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں

ہم نے تو ساری زندگی سب کو یہ کہہ کر تسلی دی کہ اللہ کی مرضی تھی، اب صبر کریں اور چپکے سے زندگی سے لطف اٹھائیں اور اکثر متاثرین کو قرار آ ہی گیا۔ آج اگرچہ ملک میں بظاہرہا ہا کار مچی ہوئی ہے مگر کوئی ایسی انہونی یا ناکردنی کہیں سے نہیں ہوئی، پانی کا بہائو ہے، پانی نے اپنا راستہ تو بہرحال بنانا ہے۔ بہتر ہے کہ ہر کام کو منطقی انجام تک پہنچنے دیا جائے۔ یہ دنیا ہے پیارے یہاں کبھی کچھ بھی ہو سکتا ہے اور یہ سچ ہے کہ ہر ناکامی یا ناگہانی مصیبت پر ہم اپنی شامت بھی خدا کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں:

دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں

روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں

لاالہٰ کی بنیاد پر ہمیں جنت نظیر وطن ملا مگر ہم نے اس کی قدر نہ کی، اسے بنانے سنوارنے کے بجائے اسے نیلام گھر بنا دیا اور سارے جہاں میں آج شہرت ہماری نااہلیوں کی ہے، مشہور مقولہ ہے کہ اپنے کیے کا کوئی علاج نہیں، ممکن ہے ہم اپنی طرف سے کچھ اچھا کرنا چاہتے ہوں مگر ہمیں اس کا صحیح طریقہ معلوم نہ ہو۔ ایک فارسی شعر مع ترجمہ پیش ہے، آپ سب کچھ جان جائیں گے؎

آں کہ دانا میگند نادان ہم میکند

ولیکن بعد از خرابیٔ بسیار

(جو دانا کرتا ہے وہ نادان بھی کرتا ہے لیکن بڑی خرابی کے بعد)

٭٭٭٭

طوطیا من موتیا توں ایس گلی ناں جا

نانی نے نواسے کو بہت سمجھایا کہ ؎

طوطیا من موتیا توں ایس گلی ناں جا

ایسی گلی دے لوکی بھیڑے لیندے پھائیاں پا

مگر نواسے کو ضد تھی کہ وہ ضرور جائے گا، نانی تو دنیا سے چلی گئی، اس کی نصیحت بھی ساتھ گئی، اب نواسا جسے نانی پیار سے طوطا من موتا کہتی تھی ممنوعہ گلی میں گھس گیا، پھر کیا تھا نانی کی نصیحت زندہ ہو گئی، قصہ کوتاہ گلی میں نواسا شور مچانے لگا، بچائو بچائو میری جان کو خطرہ ہے، حالانکہ گلی والے اچھے تھے، ان کا کوئی برا ارادہ بھی نہ تھا، مگر نواسے نے نانی کے قول کی عزت رکھنے کے لیے یہ شور مچا دیا، جبکہ سب کچھ معمول اور قانونی کے مطاق چل رہا تھا، ضدی لاڈلے بڑے ہوکر ایسا ہی کرتے ہیں؎

اے عشق وی بڑا کچھ دے جاندا

جے پیار کرن دا ول ہووے

اشرف المخلوقات کی پہلی پہچان یہ ہے کہ وہ حسن اخلاق کا مالک ہوتا ہے، چاہے وہ کتنا ہی پڑھا لکھا اور مخلص ہو، اس کی بدزبانی اسے ڈبو دیتی ہے۔ بدزبانی سے بے زبانی لاکھ درجے بہتر کہ ؎

بے زبانی زباں نہ ہو جائے

رازِ الفت عیاں نہ ہو جائے

دریا میں رہتے ہوئے مگر مچھوں سے دشمنی نہیں کی جا سکتی، بس دھیرے دھیرے اپنے اندر مگرمچھ جتنی طاقت پیدا کرنا پڑتی ہے، مگر اس کی کسی مگر مچھ کو خبر نہیں ہونی چاہیے، پاکستان اللہ کا دیا تحفہ ہے، اسے خوش عملی اور خوش کلامی سے سنبھال کر رکھنا ہوگا۔ جب ہنوز بھیڑیا آیا ہی نہیں تو چرواہے کو بھیڑیا آیا کی رٹ نہیں لگانی چاہیے، کہیں وہ سچ مچ نہ آ جائے۔

٭٭٭٭

خادمِ اعلیٰ اور ناظمِ اعلیٰ

خادم ہو یا ناظم ہم نے قائد کے بعد دیکھا نہیں کہ وہ کیسا ہوتا ہے، البتہ پریشان کن مناظر دیکھتے ہمارے بال سفید ہو گئے اور نئی نسل کا بھی ’’تراہ‘‘ نکل گیا، ایک خادمِ اعلیٰ کی خدمت تو آج بھی یاد ہے کہ مطالبہ ہونے لگا اپنا خادمِ اعلیٰ ہمیں دیدو، بس یہی ایک بات تھی اچھی مرے خادمِ اعلیٰ کی۔ وقت اپنی جگہ جم کر کھڑا ہے اور ہم گزر رہے ہیں وہ ہمارے نمبر اپنی کتاب میں درج کرتا جا رہا ہے۔ ایک فرمانِ نبیؐ پڑھ کر حیرت سے ڈوب گیا کہ ’’لوگو! اللہ فرماتا ہے زمانےکو برا مت کہو کہ میں بھی زمانہ ہوں‘‘ پاکستان اور میں تقریباً ہم عمر ہیں بچپن نکال کر دیکھا تو کچھ قابلِ ذکر نہیں دیکھا کہ شیئر کر سکوں، بہرحال ایک امید ہے، امید گاہ کی جانب سے بندھی ہوئی ہے یہ قائم ہے تو زندگی پرلطف ہے یہ نہیں تو کچھ نہیں، ہر خادمِ اعلیٰ کے اوپر ایک ناظمِ اعلیٰ اور اس کے اوپر اللہ تعالیٰ ہے، جو سب کو مانیٹر کرتا ہے، ہر خیر اسی کی طرف سے اور ہر شر کسی غیر اللہ کی جانب سے مگر ہم اپنی خطا کو قسمت کہہ کر من جانب اللہ قرار دے دیتے ہیں اور وہ اپنی بہت بڑی آنکھ ادھر کرلیتا ہے۔ ایک شخص کو میں نے ہر دور میں مکمل آزاد دیکھا، یہ اپنے مغموم ممدوح کو ایسی تسلی دیتا ہے اور ڈوبنے والا اس کا سہارا ڈھونڈتا ہے، اس کو جس نے پکڑا وہ ڈوب گیا اور یہ پانی کی سطح پر دھواں اڑاتا ہوا تیرتا رہا۔

٭٭٭٭

لفافہ جرنلزم

...oجس نے بھی یہ اصطلاح تراشی اس نے صحافی کو بدنام کرنا چاہا، کیونکہ خبردار کرنے والے کو ہر چور اپنا دشمن سمجھتا ہے، ہم چاہتے ہیں کہ تمام صحافی مل کر اس اصطلاح کی اصلیت بے نقاب کریں اور ان مکروہ چہروں سے پردہ ہٹا کر یہ خبر دیں کہ صاحب خبر کو بدنام کرنے والا اپنے انجام سے کتنا بے خبر ہے، صحافی کے لفافے میں قوم کے نام خبر اس کے خلاف ہوتی ہے جسے وہ حقدار تک پہنچاتا ہے، ہم ہر سیاستدان، حکمران اور ہیچ مدان کو پہلی اور آخری بار یہ بتانا چاہتے ہیں کہ لفافہ جرنلزم کہہ کر صحافت اور صحافی کو بدنام نہ کریں، صحافت کو لفافے سے جوڑنا اسلام کو کفر سے جوڑنے کے مترادف ہے۔ حق سچ کی خبر دینے والے اور پردہ نشینوں کو بے پردہ کرنے والے کو تمام روسیاہ اچھا نہیں جانتے، یہی وجہ ہے کہ مائیک ہو یا قلم، ہر فرعونِ سیاست و حکومت اسے برداشت نہیں کرتا، لفافہ جرنلزم کہنے والے حرافہ میکانزم کے ماہر ہوتے ہیں۔

تازہ ترین