• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

منگل اور بدھ کی درمیانی شب متحدہ اپوزیشن اور ایم کیو ایم کے درمیان 27نکاتی معاہدہ طے پانے کی ٹیلی ویژن چینلز پر چیختی چنگاڑتی خبر نے ملکی سیاست میں کھلبلی مچا دی۔ 

ایم کیو ایم نے متحدہ اپوزیشن کی حمایت کرنے کا فیصلہ کرکے عمران حکومت کو اکثریت سے محروم کر دیا۔ اسی طرح جمعرات کو منعقد ہونے والے اجلاس میں اپوزیشن کے 175ارکان کی حاضری یقینی بنا کر عملاً وزیراعظم عمران خان پر عدم اعتماد کر دیا گیا۔ 

ایم کیو ایم کی حکومتی اتحاد سے علیحدگی حکومت کے لیے بہت بڑا دھچکا ہے۔ وزیراعظم نے ایم کیو ایم کی منت و سماجت بھی کی لیکن بڑے فیصلوں میں حکومت کی جانب سے کی جانے والی تاخیر نے ایم کیو ایم کو حکومت سے الگ ہونے کا جواز فراہم کردیا۔ 

’’کپتان‘‘ سیاسی کھیل کو کرکٹ ہی سمجھتے رہے۔ دوسری طرف آصف علی زرداری، شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن ان کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے ایک ایک رکن قومی اسمبلی کا دروازہ کھٹکاتے رہے۔ وزیراعظم تحریکِ عدم اعتماد کے لیے دعائیں مانگتے تھے بالآخر ان کی دعا قبول ہو گئی مگر انہوں نے اب خود کو اقتدار سے ہٹانے کی بین الاقوامی سازش کا راگ الاپنا شروع کر دیا ہے۔ 

اس سلسلے میں انہوں نے پریڈ گرائونڈ میں تحریک انصاف کے جلسے میں ایک پُراسرار خط لہرا کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ انہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔ دو گھنٹے کی تقریر میں سرپرائز ان کا یہ ایک خط تھا۔ ان کا استدلال ہے کہ ان کو آزاد خارجہ پالیسی اختیار کرنے پر سزا دی جا رہی ہے۔ 

انہوں نے اسلام آباد کے پریڈ گرائونڈ میں ایک بڑا جلسہ ضرور کیا، انہوں نے 10لاکھ مجمع اکٹھا کرنے کا دعویٰ کیا لیکن محتاط اندازے کے مطابق تمام تر وسائل استعمال کرکے بھی 30ہزار لوگوں کو ہی اکٹھا کیا جا سکا۔ یہ جلسے ’’طاقت ور‘‘ حلقوں کو مرعوب کرنے کی کوشش تھی۔ متحدہ اپوزیشن نے بھی بڑا جلسہ کر کے تحریک انصاف کے جلسہ کے تاثر کو زائل کرنے کی کوشش کی۔ 

آصف علی زرداری جنہیں ایک جہاں دیدہ سیاست دان کہا جا سکتا ہے، نے حکومتی اتحاد میں نقب لگا کر حکومت کی پارلیمانی قوت کو منتشر کر دیا۔ انہوں نےدیکھتے ہی دیکھتے 177کی گنتی پوری کر دکھائی گویا ایک بار پھر ایک زرداری سب پہ بھاری ثابت کر دکھایا۔ 

انہوں نے ایم کیو ایم کے ساتھ معاہدے سے ایک روز قبل چوہدری برادران کو بھی رام کر لیا تھا اور نواز شریف کو چوہدری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ پنجاب بنانے پر رضا مند کر لیا تھا لیکن اچانک کیا ہوا کہ چوہدری پرویز الٰہی وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کے لیے گئے اور وہاں سے وزیراعلیٰ پنجاب کے لیے نامزد ہو کر آگئے۔ وزیراعظم عمران خان نے اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے عثمان بزدار کی قربانی دے دی۔ 

وزیراعظم پچھلے پونے چار سال سے عثمان بزدار کو ہر قیمت پر وزارتِ اعلیٰ کے منصب پر دیکھنا چاہتے تھے لیکن جب انہوں نے اپنے اقتدار کا ’’سنگھاسن‘‘ ڈولتے دیکھا تو انہوں نے سب سے پہلے اپنے محبوب عثمان بزدار سے استعفیٰ طلب کر لیا، یہ استعفیٰ گورنر پنجاب نے منظور کر لیا ہے۔ 

اپوزیشن کے حلقوں کا موقف ہے کہ ایک روز قبل متحدہ اپوزیشن نے چوہدری شجاعت حسین کی خواہش پر چوہدری پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ بنانے کا فیصلہ کر لیا تھا، اس سلسلے میں نواز شریف کو بھی آمادہ کر لیا تھا، چوہدری شجاعت حسین سمیت 20افراد کی موجودگی میں چوہدری پرویز الٰہی نے وزارتِ اعلیٰ قبول کی۔ 

دعائے خیر کے ساتھ ’’مٹھائی‘‘ بھی کھا لی تھی کہ اگلے روز وزیراعظم نے ان کو وزیراعلیٰ پنجاب نامزد کرکے ترپ کا پتہ پھینکا لیکن چوہدری پرویز الٰہی کے بعد ایم کیو ایم اور نہ ہی ’’باپ‘‘ نے اپوزیشن کیساتھ شامل ہونے کا فیصلہ کیا بلکہ ان کی اپنی جماعت ہی تقسیم کا شکار ہو گئی۔ 

طارق بشیر چیمہ جو مسلم لیگ (ق) کے سیکرٹری جنرل ہیں اور عمران خان کابینہ میں وزیر ہائوسنگ و ورکس تھے، نے نہ صرف وزارت سے استعفیٰ دیا بلکہ کھل کر یہ اعلان کیا کہ وہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں ووٹ دیں گے۔ مسلم لیگ (ق)، جس کے قومی اسمبلی میں 5اور پنجاب اسمبلی میں 10اراکین ہیں، منقسم ہو گئی ہے۔ 

چوہدری شجاعت حسین شرافت کا مجسمہ اور جہاندیدہ شخصیت ہیں، انہوں نے چوہدری پرویز الٰہی کے سیاسی کھیل سے پیدا ہونے والی بد مزگی کو نہ صرف ختم کرنے کی کوشش کی بلکہ چوہدری پرویز الٰہی کی اخلاقی و سیاسی حمایت کرکے یہ پیغام دیا کہ چوہدری برادران میں کوئی تقسیم نہیں۔ 

چوہدری پرویز الٰہی کا موقف ہے کہ اگرچہ متحدہ اپوزیشن کی جماعتیں ان کو پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ دینے کے لیے تیار تھیں لیکن مریم نواز کو اس فیصلے پر تحفظات تھے، اس لیے انہوں نے حکومت کی پیشکش منظور کر لی جب کہ مریم نواز نے کہا ہے ان کی جماعت نے چوہدری پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ پنجاب کے طور پر قبول کر لیا تھا۔ 

عمران خان کے طرز عمل نے نواز شریف اور آصف علی زرداری کو اس حد تک قریب کر دیا ہے کہ نواز شریف چوہدری پرویز الٰہی کو پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ دینے پر آمادہ ہو گئے تھے حالانکہ نواز شریف یہ سمجھتے تھے کہ چوہدری پرویز الٰہی بہت جلد پورے پنجاب کی سیاست پر اپنی گرفت مضبوط کر لیں گے اور وہ پنجاب سے مسلم لیگ (ن) کو دیس نکالا دلوا دیں گے لیکن آصف علی زرداری نے چوہدری پرویز الٰہی کے عمران خان کیمپ میں چلے جانے کا ازالہ ایم کیو ایم کے تمام مطالبات تسلیم کر کے اور سیاست کا پانسہ پلٹ کے کردیا۔

انہوں نےایم کیو ایم کو ’’سادہ کاغذ‘‘ پر مطالبات لکھ کر دینے کی پیش کش کرکے اپنے دام میں پھنسا لیا اور منگل اور بدھ کی درمیانی شب ایم کیو ایم کے ساتھ معاہدہ کر کے عمران خان کو سرپرائز دیا۔ وہ تو شہباز شریف پر اس حد مہربان ہو گئے کہ انہیں متحدہ اپوزیشن کے اجلاسوں میں ’’مسٹر پرائم منسٹر‘‘ کہہ کر مخاطب کرنے لگے۔ 

متحدہ اپوزیشن کے سندھ ہائوس میں عشائیہ میں 199اراکین کی شرکت سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ عمران خان اکثریت کی حمایت سے محروم ہو گئے ہیں۔ اس عشائیہ میں پی ٹی آئی کے بائیس اراکین نے شرکت کی۔ عمران خان کو اب صرف 142اراکین کی حمایت حاصل ہے۔ 

اس دوران وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن سے ’’محفوظ راستہ‘‘ مانگا اور تحریک عدم اعتماد واپس لینے کی صورت میں قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی پیشکش کی لیکن اپوزیشن نے مستعفی ہونے سے کم کوئی بات قبول کرنے سے انکار کر دیاہے۔ 

دو روز قبل وزیراعظم عمران خان نے قوم سے خطاب میں مجوزہ خط کے بارے میں بتایا کہ یہ امریکہ سے آیا ہے لیکن جب ان کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو انہوں نے کہا کہ یہ خط کسی اور ملک کا تھا بہرحال آج ووٹنگ ہے اور عمران خان نے آخری گیند تک لڑنے کا اعلان کررکھا ہے۔

تازہ ترین