• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صدر زرداری کومہذبانہ انداز سے ایوان صدر سے رخصت کیا گیا۔ وزیر اعظم جناب میاں نواز شریف نے انتہائی دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کے اعزاز میں ظہرانہ دیا اور ان کی جمہوریت کے لئے کی گئی خدمات کو سراہا۔ اس پر کچھ لوگ چراغ پا ہیں اور کہتے ہیں کہ اتنے بدنام صدر (ان کے خیال میں) کو رخصت کرنے کے انداز سے ایک بار پھر ثابت ہو گیا ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) آپس میں’مک مکا‘ کی سیاست کرتی رہی ہیں اور کر رہی ہیں۔ یہ الزام ایک حد تک درست بھی ہے کیونکہ جمہوری سیاست ہوتی ہی افہام و تفہیم سے ہے جسے ہمارے ہاں مک مکا کی سیاست کہہ کر بدنام کیا جاتا ہے۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ جس انداز سے صدر کو رخصت کیا گیا وہ ایک شخص کی نہیں بلکہ اس عہدے کی تعظیم تھی جس پر وہ شخص متمکن تھا۔ ملک کے دوسرے بڑے ادارے بھی جب اپنے سربراہ کو رخصت کرتے ہیں تو اس کی تعظیم و تکریم میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے۔جنرل مشرف کو بھی توپوں کی سلامی میں رخصت کیا گیا تھا حتیٰ کہ ملک کو دولخت کرنے کا سبب بننے والے جنرل یحییٰ خان کی موت پر بھی توپوں کی سلامی دی گئی تھی۔ اسی طرح غالب امکان ہے کہ چیف جسٹس کو بھی نہایت معززانہ انداز میں رخصت کیا جائے گا۔ اگر ریاست کا ہر بڑا ادارہ اپنے جانے والے سربراہ کو نہایت خوش آئند انداز میں رخصت کرتا ہے تو سیاسی ادارہ یہ کیوں نہ کرے۔ اگر ایک شخص آئینی طرز عمل سے پاکستانی ریاست کا پانچ سال سربراہ رہا تو سیاسی ادارے پر لازم ہے کہ وہ اسے پُروقار طریقے سے الوداع کہے۔ دنیا کی تمام جمہوریتوں کا یہی طرز عمل ہے۔ امریکہ ہو یا کوئی یورپی ملک سب اپنے سربراہوں (صدر یا وزیراعظم) کو عزت اور تکریم سے رخصت کرتے ہیں۔ ان میں ایسے بھی سربراہ ہوتے ہیں جو بہت ہی غیر مقبول یا بدنام ہو چکے ہوتے ہیں اور ان میں کچھ کے خلاف بدعنوانی کے الزامات بھی ہوتے ہیں لیکن ان کے عہدے کے وقار کے پیش نظر ان کو رخصت باوقار طریقے سے ہی کیا جاتا ہے۔ اگر انہوں نے اپنے دور اقتدار میں غیر قانونی سرگرمیاں کی ہوں تو ملک کے احتسابی ادارے ان پر مقدمات چلاتے ہیں۔ پاکستان میں یہی کچھ ہونا چاہئے کہ اگر صدر زرداری یا کسی وزیر اعظم نے بد عنوانیوں کا ارتکاب کیا ہے تو ان کا احتساب ہو لیکن ان کے آئینی عہدے کے وقار کو مجروح کرنا عاقبت نا اندیشی ہے کیونکہ اس سے سیاسی ادارے کمزور ہوتے ہیں۔اگر سیاست دان ہی آئینی عہدوں کی عزت و تکریم نہیں کریں گے تو دوسرے ادارے ان کو کمتر حیثیت دیتے رہیں گے۔صدر زرداری اور ان کی پارٹی کی گورننس نہایت کمزور تھی اور اسی بنا پر وہ کافی غیر مقبول بھی تھے لیکن اس کی سزا ان کو انتخابات میں خود عوام دے چکے ہیں۔ ان کی پارٹی ملک کی سب سے بڑی پارٹی تھی لیکن وہ پچھلے الیکشن میں صوبہ سندھ کے دیہی علاقوں تک محدود رہ گئی ہے۔ جمہوری عمل کا خاصا ہی یہی ہے کہ وہ عوام کو جزا اور سزا کا اختیار دیتا ہے۔ اگر حکمران احسن طریقے سے اپنے فرائض انجام نہیں دیتے تو عوام انہیں آسمان سے اٹھا کر زمین پر پھینک دیتے ہیں۔ صدر زرداری اور ان کی پارٹی کو یہ سزا مل چکی ہے۔ نئے وزیر اعظم یا صدر کا یہ کام نہیں کہ وہ عوام کے اس فیصلے کے پیش نظر آئینی عہدوں پر فائض رہنماوٴں کی تذلیل کریں۔
جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے کہ جمہوریت کا عمل صرف افہام و تفہیم سے جاری رہ سکتا ہے یعنی کچھ لے اور کچھ دے۔ اگر ایسا نہ ہو تو جمہوریت کی بساط لپیٹ دی جاتی ہے۔ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی سیاسی طاقتوں نے افہام و تفہیم کے بجائے ٹکراوٴ کا رویہ اپنایا تو نتیجے میں سیاسی عمل ہی تباہی کا شکار ہو گیا۔ اگر انیس سو ستر کے الیکشنوں کے بعد شیخ مجیب الرحمن اور ذوالفقار علی بھٹو کسی طرح کا بھی سیاسی ’مک مکا‘ کر لیتے تو شاید پاکستان دو لخت نہ ہوتا۔ اگر انیس سو ستتر میں پاکستان قومی اتحاد اور ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان ’مک مکا‘ ہوجاتا تو ملک جنرل ضیاء کے مارشل لاء کے سیاہ دور کے کرب سے بچ جاتا۔ اگر انیس سو نوے کی دہائی میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف سیاسی سمجھوتہ کر لیتے تو نہ ہی ہر دو ڈھائی سال کے بعد حکومت تبدیل ہوتی اور نہ ہی دونوں رہنماوٴں کو جلا وطنی کی اذیت سے گزرنا پڑتا۔
یہی وجہ ہے کہ دونوں بڑی پارٹیوں کے رہنماوٴں محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف نے اپنے تلخ تجربات سے سبق حاصل کرتے ہوئے معاہدہ لندن کیا۔ یہ معاہدہ پاکستانی جمہوریت کی تاریخ میں سنگ میل ثابت ہوا ہے۔ سیاسی عمل کو جاری و ساری رکھنے کے لئے محترمہ بے نظیر بھٹو نے میاں نواز شریف کو دوہزار سات کے الیکشن میں حصہ لینے کے لئے تیار کیا۔ وہ جانتی تھیں کہ مسلم لیگ (ن) کے الیکشن کے بائیکاٹ سے ان کی پارٹی کو فائدہ ہوگا لیکن وہ یہ بھی جانتی تھیں کہ اس طرح سیاسی عمل ادھورا رہ جائے گا اور جمہوری نظام کی بنیاد کمزور پڑ جائے گی۔ میاں نواز شریف نے بھی عقلمندی کا ثبوت دیتے ہوئے الیکشن میں حصہ لیا اور ان کی پارٹی ملک کی دوسری بڑی پارٹی کے طور پر ابھری۔یہ وہ پس منظر ہے جس میں پیپلز پارٹی دو ہزار سات کے انتخابات کے بعد اقتدار میں آئی اور جناب آصف زرداری صدرمنتخب ہوئے۔
پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دور میں بہت سے مواقع ایسے تھے کہ جمہوریت غیر مستحکم ہو سکتی تھی۔ ان میں سب سے پہلا ٹکراوٴ تو ججوں کی بحالی پر سامنے آیا۔میاں نواز شریف نے اصولی موقف پر قائم رہتے ہوئے آزاد عدلیہ کی تحریک چلائی اور پھر لانگ مارچ کے لئے بسوئے اسلام آباد روانگی کا طبل بجا دیا۔ پیپلز پارٹی نے شروع میں سخت مزاحمت کی اور لانگ مارچ کو بزور طاقت روکنے کی کوشش کی۔اس میں ملک کے سب سے طاقتور ادارے نے بھی شاید نہایت اہم کردار ادا کرتے ہوئے دونوں پارٹیوں کو افہام و تفہیم پر مجبور کیا جس کے نتیجے میں آزاد عدلیہ بحال ہوگی۔ اسی طرح میموگیٹ، اٹھارہویں ترمیم اور دوسرے بہت سے مسائل پر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن)میں ٹکراوٴ کی صورتحال پیدا ہوئی لیکن دونوں پارٹیوں نے اپنے اپنے موقف پر رہتے ہوئے حکومت کو اتنا غیر مستحکم نہیں ہونے دیا کہ کوئی تیسرا ادارہ جمہوری عمل کو ختم کر دے۔ چونکہ پیپلزپارٹی کی گورننس بہت ناقص تھی اور اس پر بدعنوانیوں کے الزامات بھی تھے اس لئے بہت سے حلقے میاں نواز شریف کو اکساتے رہے کہ وہ حکومت کو رد کردیں اور کسی ایسی سازش کا حصہ بن جائیں جس سے حکومت کا تختہ الٹا جا سکے۔ میاں نوازشریف کو علم تھا کہ اس طرح کے عمل سے نوے کی دہائی کی روش لوٹ آئے گی جس سے جمہوری طاقتیں کمزور پڑ جائیں گی لہٰذا انہوں نے کوشش کی کہ پیپلز پارٹی کی حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرے۔ پیپلزپارٹی نے بھی مثبت رویہ قائم رکھتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے رہنماوٴں کو ذاتی طور پر نشانہ نہیں بنایا۔ دونوں پارٹیوں کے افہام و تفہیم کے رویّے کو مک مکا کی سیاست کہا گیا لیکن بنیادی حقیقت تو یہ ہے کہ اگر اس طرح کا ’مک مکا‘ نہ ہوتا تو جمہوریت جانبر نہیں ہو سکتی تھی۔
تازہ ترین