• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فرض کریں کہ شدید گرمی میں آپ اپنی چمچماتی ائیرکنڈیشنڈ گاڑی میں باہر نکلیں۔ سامنے ایک خانہ بدوش خاندان گدھا گاڑی پہ لو کے تھپیڑے کھاتا نظر آئے۔ آپ کو کتنا ترس آئے گا۔ ہر زمانے کا انسان اپنے سے پہلے والوں پہ ترس کھاتا آیا ہے۔ ایک زمانہ تھا، جب جانورپہ کاٹھی ڈالنے والے دنیا کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ لوگ تھے۔ پھر یہ ہنر عام ہو گیا۔ جن لوگوں نے سب سے پہلے پہیہ ایجاد کیا، وہ دنیا کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ لوگ تھے۔ آج یہ پہیہ غریب سے غریب شخص کی دسترس میں ہے۔ انجن جب ایجاد ہوا تو موٹرسائیکل رئیسوں کی سواری تھی۔ آج غریب سے غریب شخص موٹرسائیکل پہ سوار ہے۔ ایک زمانہ تھا، جب دنیا کا بڑے سے بڑا بادشاہ گھوڑے پہ سفر کرنے پہ مجبور تھا۔ آج غریب سے غریب شخص بس میں سفر کرتاہے۔ بجلی اور اس سے چلنے والا پنکھا کب کسی غریب نے دیکھا تھا۔ ٹی وی اور کمپیوٹر امرا کی عیاشیاں تھیں۔ ظہیر الدین بابر کتنا بڑا بادشاہ تھا لیکن اس کے پاس موٹرسائیکل نہیں تھی۔ اس لیے کہ ایجاد ہی نہیں ہوئی تھی۔ جب ایک چیز ایجاد ہی نہیں ہوئی تو اسے پانے کی حسرت کیسی۔ ماضی کے انسان کو بجلی، گاڑی، ٹی وی، اسمارٹ فون اور اے سی حاصل کرنے کی کوئی حسرت نہیں تھی۔

وہ لوگ غار میں رہتے تھے۔ ان کے پاس گاڑی نہیں تھی اورنہ فریج، اے سی، اوون، موبائل فون، انٹرنیٹ اور ہوائی جہاز۔ فرض کریں، ایک ایسی ٹائم مشین ایجاد ہو جائے، جس میں آدمی ماضی کا سفر کر سکے۔ یوں حال اور ماضی کے انسانوں کی آپس میں ملاقات ممکن ہو۔ ہزاروں سال پہلے کے انسانوں سے ہماری یہ ملاقات کیسی ہو گی۔ اس موضوع پر ہالی ووڈ کی ایک فلم بن سکتی ہے۔ جدید ترقی یافتہ انسان اپنی لینڈ کروزر سے باہر نکل کر ان بھوکے ننگوں سے ہاتھ ملائے گا توبڑی نازک صورتِ حال درپیش ہوگی۔ ترقی کی معراج پر بیٹھے ہوئے، اکیسویں صدی کے ترقی یافتہ آدمی نے اپنے جسم کے اندر چالیس کلو اضافی چربی اٹھائی ہوئی ہوگی۔ اس وزن سے اس کے گھٹنوں میں درد ہو رہا ہوگا۔موبائل استعمال کر کر کے سر کندھوں سے دو انچ آگے جا چکا ہوگا۔ سرجب کندھوں سے آگے نکلتاہے تو ہر اضافی انچ کے ساتھ سر کا وزن پانچ کلو بڑھ جاتا ہے۔ اس غیر متوازن وزن سے کئی تکالیف جنم لیتی ہیں۔ گردن اور کندھے مستقل درد کرنے لگتے ہیں اور سانس لینے میں دقت ہونے لگتی ہے۔ فارورڈ ہیڈ پوسچر کا نتیجہ یہ ہے کہ چند قدم چلتے ہی انسان بری طرح سے تھک جاتاہے اور بے اختیار اس کا دل کرتاہے کہ کمر کے مسلز کو آرام دینے کے لیے آگے جھک جائے یا نیچے بیٹھ جائے۔ سیڑھاں چڑھنا اس کے لیے ایک بے انتہا مشکل کام بن جاتا ہے۔ بے پناہ موٹاپے کا شکار اور جسمانی تگ و دو نہ کرنے والا شخص بالآخر ایک ڈیڑھ عشرے میں شوگر، بلڈ پریشر اوردل کے امراض کا شکار ہوجاتا ہے۔

آج ہر انسان کو نشئی بنا دیا گیا ہے۔ آپ ہر دو منٹ بعد بے اختیار اپنی جیب پر ہاتھ مارتے ہیں کہ موبائل نکال کر واٹس ایپ پر دوسروں کے اسٹیٹس دیکھیں یا فیس بک پہ نظر دوڑائیں۔ یکسوئی مفقود ہو چکی ہے۔ ماضی کا انسان بے انتہا یکسو تھا۔

دنیا کی سب سے بڑی عیاشی جذباتی توازن اور ذہنی سکون ہے۔ یہ ذہنی سکون اب کہاں ہے۔ جن کے پیٹ بھرے ہوئے ہیں، وہ سوشل میڈیا پہ چڑھ کے ایک دوسرے کے عقیدے اور سیاسی وابستگی پر فائرنگ کرتے رہتے ہیں اور ویسا ہی جواب پاتے ہیں۔ گزشتہ ایک دہائی سے نون لیگ اور تحریکِ انصاف کے حامی ایک دوسرے کی چھترول کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا عام ہونے کا نتیجہ یہ نکلاہے کہ دنیا کا ہر فرد اپنے نظریات پہ دوسروں کو قائل کرنے کی کوشش میں فی سبیل اللہ ذلیل ہو رہا ہے۔ کیا ایسا ممکن نہیں کہ جس سیاسی جماعت کا میں معترف ہوں، الیکشن کے دن خاموشی سے اسے ووٹ دے آئوں، بجائے اس کی حمایت میں دنیا کے ہر شخص سے لڑنے کے۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ میں اپنے طریقے سے عبادت کر لوں اور دوسروں کو زبردستی نئے سرے سے مسلمان کرنے کی کوشش سے دستبردار ہو جائوں۔ دنیا کی سب سے قیمتی چیز سکون ہے جو علم سے حاصل ہوتی ہے۔ ایسا شخص دورانِ جنگ بھی اپنے حواس سلامت رکھے گاورنہ تو لوگ تنگ جگہ سے اپنی گاڑی پہلے گزارنے کے جھگڑے پر ایک دوسرے کو قتل کر دیتے ہیں۔ ذرا سی رنجش پر دو خاندان اجڑ جاتے ہیں۔ آپ کسی بھی سیاسی لیڈر کوروزانہ بلا ناغہ حریفوں پہ گرجتا ہوا سنتے ہیں تو آپ کا کیا خیال ہے کہ وہ ذہنی سکون کی حالت میں ہیں۔ یہ ان کو ڈیزل کہہ رہے ہیں اور وہ ان کو یہودکا ایجنٹ۔ کیسی کیسی قلابازیاں لگانا پڑتی ہیں۔ شہباز شریف کہا کرتے تھے کہ عمران خا ن کو ووٹ دیا تو زرداری آجائے گا۔ عمران خان کہا کرتے تھے کہ شیخ صاحب کو میں اپنا چپراسی بھی نہ رکھوں۔ ذہنی سکون کی حالت میں تو قائدِ اعظم ہوا کرتے تھے۔ سمجھ یہ نہیں آتی کہ اس قدر جذباتی توازن اور اطمینان کیلئے درکار علم انہیں کیونکر حاصل ہوا۔ وقتی طور پر ہر انسان جذباتی ہوتا ہے لیکن اعتدال کی طرف لوٹنے کی طاقت، آزادی اور صلاحیت کہاں ہے۔ جن لوگوں کو یہ نعمت حاصل ہے، وہ کسمپرسی میں بھی مطمئن ہیں۔

تازہ ترین