• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آجکل اخبار،ٹی وی اورشوشل میڈیا میں سپہ سالاران کے چناؤ کا خاصا چرچا ہے۔ اخبارات کے صفحہ اوّل پر وزیرِاطلاعات کا بیان پڑھ کر جی چاہا کہ میں بھی اس صدقہ جاریہ میں حسب توفیق کچھ حصّہ ڈالوں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ کیا ایسی بحث ادارے یا ملک کے لیے مفید ہے؟ جی نہیں! وجہ یہ کہ ہم نے تاریخ سے اب تک سبق نہیں سیکھا۔ذرا غور کیجیے اگر ہم نے Seniorityکے اصول کو ہی میرٹ تصور کیا ہوتا اور آج ہر ادارے میں باالعموم اور باالخصوص افواج کے سپہ سالاران کے چناؤ میں اسے اہمیت دی ہوتی تو اس بحث و مباحثے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ بدقسمتی سے فوج میں بھی Seniorityجو خاص طور سے اس ادارے کی روح سمجھی جاتی ہے، اسے بری طرح پامال کیا جاتارہا۔ وزیرِاعظم لیاقت علی خان نے ۱۵۹۱ئئمیں جنرل افتخارجو سب سے سینیئرتھے انھیں کمانڈر ان چیف کے لیے نامزد کیا مگر وہ طیارے کے حادثے میں دوسرے نمبر کی سینیارٹی والے جنرل سمیت ہلاک ہو گئے۔ بلیک باکس کی عدم دستیابی نے بہت سے خدشات کو جنم دیا اوریوں جنرل ایوب خان پہلے پاکستانی سپہ سالار تعینات ہوئے۔ ۵۵۹۱ءء میں وزیرِاعظم محمدعلی بوگرانے جنرل ایوب خان کو پہلی ایکسٹینشن دی۔فیروزخان نون جب وزیرِ اعظم بنے تودوسری ایکسٹینشن کی سمری پھر انکے دفترپہنچی جو کافی مدت Pending Trayمیں پڑی رہی۔اس سلسلے میں صدر سکندرمرزا کا کردار خاصا دلچسپ رہا وہ وزیرِاعظم کو ایکسٹینشن نہ دینے کا مشورہ دیتے جبکہ ایوب خان کو اس بارے میں وزیرِ اعظم کی منفی رائے پہنچاتے رہے۔ قصّہ مختصر جون ۸۵۹۱ءء میں موصوف کو دوسری ایکسٹینشن بھی مل گئی مگر ایوب خان نے ان ”سمریوں“ سے خلاصی حاصل کرنے کے لیے اسی سال اکتوبر میں پہلے حکومت کو فارغ کیا اور بعد ازاں صدر کو بھی چلتا کیااور پھر آرام سے سات سال سے زائد سپہ سالار کے علاوہ ملک کے صدر بھی رہے۔ چونکہ سلسلہٴ ایوبیہ چل نکلا تھا اس لیے انہوں نے Seniorityکو ملحوظ خاطر نہ رکھتے ہوئے پہلے جنرل موسٰی کو سربراہ مقررکیاجوآٹھ سال سربراہ رہے اورپھر۶۶۹۱ءء میں جنرل یحییٰ خان کو سربراہ نامزد کیا جنہوں نے پانچ سال میں ملک کا نقشہ ہی بگاڑ دیا۔ ۰۲دسمبر۱۷۹۱ءء کو ملک کے پہلے قائد ِعوام ذوالفقار علی بھٹونے Senior Most جنرل ٹِکاخان کو نظر انداز کر کے لیفٹینینٹ جنرل گل حسن کواسی رینک میں پہلے چیف بنایا پھر اغوا کروایا، پھر استعفیٰ دلوایا اور اس کے بعد جنرل ٹِکاخان کو چیف بنا دیا جنہوں نے اپنی آئینی مدت پوری کرنے کے بعد حکومتی جماعت میں شمولیت اختیارکی اور اسکے سیکرٹری جنرل بھی رہے۔ بھٹو صاحب نے اپنی اعلیٰ ذہانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے Seniority کے سمندر کی تہہ سے” ضیاء“ نامی ایک انمول موتی ڈھونڈ نکالا جس نے انہیں تخت دار پر لٹکایا اور پھر اُنھیں گہرائیوں میں دفن کر ڈالا۔ بعد ازاں یہ مردِ حق بارہ سال فوج اور قوم پر مسلط رہے۔ جنرل ضیاء الحق کے جہاز کے ہوامیں پھٹنے کے بعد وائس چیف آف آرمی سٹاف جنرل اسلم بیگ نے فوج کی سربراہی از خود سنبھالی اور آئینی مدت پوری ہونے کے بعد رخصت ہوئے۔ البتہ جاتے جاتے فوج کو جمہوریت کا میڈل دلواگئے۔ صدر غلام اسحاق خان نے بھی Seniority کے اصول کو نظرانداز کرتے ہوئے جنرل آصف نواز کی تقرری کا اعلان کچھ ماہ پہلے ہی کردیا جو دو سال بعد اللہ کو پیارے ہوئے۔ اس خلاء کو پر کرنے کے لیے صدرمحترم نے جنرل وحید کاکڑ کو سربراہ مقرر کیا جو سینیئر موسٹ نہیں تھے۔ اتفاقاً پوسٹنگ کرنے والا جنرل (Military Secretary GHQ)، لگانے والا (صدر) اور لگنے والا(چیف) ان تینوں کا تعلق ایک ہی لسانی اکائی سے تھا اس لیے شکوک و شبہات نے جنم لیا (اگر جنرل وحید کاکڑ سینیئر موسٹ ہوتے تو یہ شکوک و شبہات نہ ابھرتے)۔ ان کے بعد وزیرِ اعظم نواز شریف نے جنرل جہانگیرکرامت کو سربراہ نامزد کیا جو بظاہر تو سینیئرموسٹ تھے مگر وحید کاکڑ کی ریٹائرمنٹ سے چند روز پہلے خود ریٹائر ہو رہے تھے۔ لہٰذا تکنیکی اعتبار سے وہ بھی سینیئر موسٹ نہ تھے۔ بہرحال نہایت ہی نفیس شخصیت کے مالک تھے اس لیے سیاسی مالک کی تُو تُو مَیں مَیں سے دلبرداشتہ ہو کرمستٰعفی ہو گئے۔ پھر امیرالمومنین نے بھٹو کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جنرل مشرف کو شرف بخشا جنہوں نے اُن ہی کو دس سال شرفو میں رکھا۔ صاحبِ مشرف فقط نو سال ملک کے سب کچھ رہے اور اپنے شرف زدہ دور میں جونیئر کو چیئرمین اور سینیئر کو وائس چیف کے عہدوں سے نوازتے رہے۔البتہ جاتے جاتے پہلی بار Seniorityکی لاج رکھتے ہوئے جنرل طارق مجید کو چیئرمین اور جنرل کیا نی کو وائس چیف اور پھر چیف بناگئے۔ بعدازاں جنرل کیانی کی مدت ملازمت میں توسیع کی وجہ سے ان سے جونیئر کو چیئرمین جوائنٹ چیف بناکر تاریخ کو دہرایا گیا۔ اب جبکہ دونوں سپہ سالاران کی تبدیلی کا وقت قریب آگیا ہے تو جس محفل میں بھی جائیے ہر متعلقہ اور غیر متعلقہ شخص اپنی اپنی پسند کے امیدوار کو یوں پیش کررہا ہوتا ہے جیسے کوئی ضمنی الیکشن ہونے والا ہو۔ اسی لیے شاید وزیرِاطلاعات کو بیان دینا پڑا کہ چیف جسٹس اورCOAS نے نہ تو ایکسٹینشن کی درخواست کی ہے اور نہ ہی یہ معاملہ حکومت کے زیرِغورہے۔قارئین کرام!آپ میں سے جو تاریخ سے زیادہ اس کے خلاصے میں دلچسپی رکھتے ہوں، ان کے لیے عرض ہے کہ ہمارے چودہ سپہ سالاران میں سے فقط چارسینیارٹی کے میرٹ پر نام زد ہوئے اور صرف تین نے اپنی مدت ملازمت پوری کی، باقی سب کے سب ایکسٹینشن کی موج میں رہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ جس نے بھی سینیارٹی کے میرٹ کو چھیڑاوہی ڈسا گیا۔ جو بھی جس کو لایا وہی اس کو لے گیا۔ ہمارا پڑوسی ملک بھارت سینیارٹی کے میرٹ پر ہی عمل پیرارہاجس کی وجہ سے ہمارے چودہ کے برعکس ان کی فوج کے ستائیس سربراہان رہے جن میں سے کسی ایک کو بھی ایکسٹینشن نہ دی گئی حالانکہ ان میں دو فیلڈ مارشل کے رینک سے ریٹائر ہوئے۔ ان کی فوج میں مدت ملازمت ہماری طرح تین سال ہی ہے مگر باسٹھ سال عمر کی حد بھی لاگو ہے جو دونوں میں سے پہلے واقع ہو۔ میری اپنے محب وطن سیاسی قائدین سے موٴدبانہ گذارش ہے کہ تمام ملکی اداروں میں سینیارٹی کے میرٹ کو فروغ دیں اور اگرکسی کمزوری کی وجہ سے یہ ان کے لیے ممکن نہ ہو تو خدارا افواج پاکستان کو اس وبائی مرض سے دور رکھیں اور عدلیہ کی طرح سینیارٹی کے اصول کو اپناتے ہوئے باسٹھ سال کی عمر کو بھی مدت ملازمت کی شرط میں شامل کریں کیونکہ علاقائی، لسانی، ذات برادری اور گروہی سیاست کی بنیاد پر سینیارٹی کی حق تلفی نے ماضی میں ملک، قوم اور افواج پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ ویسے بھی یہ سب کچھ کرنا ہماری دینی تعلیم، قائد کے فرمان اور آئین کی نفی سمجھا جاتا ہے۔
تازہ ترین