• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نہ جانے وہ کون لوگ ہیں جو امریکہ اور کینیڈا کی امیگریشن کے لئے ہلکان ہوئے جاتے ہیں ،اپنے بہنوئیوں کی بنک سٹیٹمنٹ پر اپنا نام لکھ کر ویزا حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ،کسی کافر حسینہ سے کاغذی شادی رچانے کا ڈرامہ کرکے باہر سیٹل ہونے کی کوشش کرتے ہیں ،خود کو مظلو م ظاہر کر کے سیاسی پناہ کی درخواست دیتے ہیں اور پھر با لآخر ان غیر اسلامی ممالک میں بیٹھ کر پاکستان میں اسلامی نظام رائج نہ ہونے پر بیئر کا جگ منہ سے لگا کر زار و قطار روتے ہیں۔خدا کو جان دینی ہے ، جو سہولتیں ہمیں اپنے ملک میں حاصل ہیں ”باہر والے“خواب میں بھی ان کا تصور نہیں کر سکتے۔ پاکستانی شہریت کے فائدے اتنے زیادہ ہیں کہ اگر لکھنے بیٹھوں تو سات سمندروں کے پانی کے برابر سیاہی کم پڑ جائے اس لئے سیاہی کے سمندر ضائع کرنے کی بجائے میں چیدہ چیدہ فوائد یہاں بیان کئے دیتا ہوں ،باقی فائدے آپ خود ایکسپلور کر لیں :
ْْْْْ1۔ قتل کی آزادی: ہمارے ملک میں قتل کرنے کی آزادی دو قسموں کی ہے ،پہلی قسم وہ ہے جس میں قاتل باآسانی دیت کی رقم دے کر بچ نکلتا ہے ،اس چھوٹ کو حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ آپ کے والد صاحب کے پاس تیس چالیس کروڑ روپیہ فالتو ہو اور تمام تر تما ش بینی کے باوجود پیسہ ختم ہونے کا نام نہ لے ،ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ مقتول پارٹی زیادہ با اثر نہ ہو۔اگر آپ کو یہ حالات میسر ہیں تو آپ بلا دھڑک دن دہاڑے اپنی بندوق چیک کرنے کے بہانے بھی بندہ پھڑکا سکتے ہیں، آپ کا بال بھی بیکا نہیں ہوگا۔ہمارے اس قانون کو بیرون ممالک میں کام کرنے والے مافیا ز رشک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ،خاص طور سے روسی مافیا کے سربراہ نے تو حالیہ سالانہ اجلاس میں اپنے پیر صاحب سے دعا بھی کروائی کہ خدا ولادی میر پوٹن کو عقل دے کہ وہ رشین فیڈریشن میں یہ قانون نافذ کرے تاکہ مافیا کے ہاتھوں قتل ہونے والے لواحقین یوں بے یارو مدد گار نہ رہیں بلکہ ا ن کے ورثا کو معاوضے کے طور معقول رقم ادا کی جا سکے ۔قتل کرنے کی دوسری آزادی وہ ہے جو ہمارے ہاں چند مخصوص گروہوں کو مذہب کی آڑ میں حاصل ہے ،حاسدین اسے فرقہ وارانہ تشدد اور انتہا پسندی کا نام بھی دیتے ہیں مگر سچ تو یہ ہے کہ جو قتل مذہب کے نام پر کیا جاتا ہے ،آج تک کسی عدالت کو اسے سزا دینے اور انتظامیہ کواس پر عمل درآمد کروانے کی ہمت نہیں ہوئی۔ان تمام جملہ آزادیوں کے باوجود اگر آپ کے کسی عزیز کو نالائق وکیل کی وجہ سے پھانسی کی سزا ہو جائے تو بھی فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ،پاکستان میں سزائے موت پر عمل درآمد روکنے کا اختیار صدر مملکت کے پاس ہے مگر اس اختیار کی ڈور اب کہیں اور سے ہلتی ہے، اس ڈور کو ہلانے کے لئے کسی درویش صفت انسان کو تلاش کیجئے جو مدرسے میں قیام پذیر ہواور جس کا براہ راست تعلق وزیرستان سے ہو،وہ فقط کاغذ کے ایک ٹکڑے پر حکم نامہ جاری کرکے سزائے موت رکوا دے گا۔ہے کوئی دنیا کا ملک جو ہماری برابری کر سکے !
2۔ریپ کی آزادی:جب سے میں پیدا ہوا ہوں ایک واقعہ سن سن کر میرے کان پک گئے ہیں ،قصہ یہ ہے کہ ایک دفعہ امریکہ میں دو منٹ کے لئے بجلی کا بریک ڈاؤن ہو گیا تو ان دو منٹوں کے دوران نہ جانے کتنے ہزار لڑکیاں ریپ کردی گئیں ۔امر واقعہ یہ ہے کہ بجلی دو منٹ کے لئے نہیں بلکہ کئی گھنٹوں کے لئے بند ہو ئی تھی اوراس دوران دکانوں کی لوٹ مار کے واقعات رپورٹ ہوئے تھے ، کہیں کہیں ریپ بھی ہوئے ہوں گے مگر جو ہوشربا اعداد و شمار سیسہ پگھلا کر بچپن سے ہمارے کانوں میں ڈالے گئے ہیں ان کا کہیں ثبوت نہیں ملتا۔لعنت بھیجئے امریکہ پر ،بجلی جائے نہ جائے ،ریپ تو وہاں ہوتے ہی رہتے ہیں ،اور ریپ کے ملزمان کو جیل کی ہوا بھی کھانی پڑ جاتی ہے ۔اپنے ملک میں واپس آئیے، اگر ماضی کی مثالیں دیکھیں تو ہمارے ملک میں ریپ کرنے والوں کو قرار واقعی سزائیں نہیں دی جاسکیں اس لئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہاں ریپ کی جو سہولت میسر ہے اس کا مقابلہ کوئی اور ملک نہیں کرسکتا، اس سہولت کے تحت اگر کوئی شخص کسی عورت کا ریپ کر لے اور وہ عورت بعد میں اس شخص کے خلاف چار گواہ پیش نہ کرسکے تو ایسی عورت کیلئے ہمارے ایک مذہبی رہنما کا مشورہ ریکارڈ پر ہے کہ پھر وہ صبر کرکے گھربیٹھ جائے، معاشرے میں انتشار نہ پھیلائے۔ اب بتائیے بھلا کون پاگل ہو گا جو چوراہے میں کھڑا ہو کے ریپ کرے گا کہ وہاں چار گواہ اسے دیکھیں اور اس کے بعد وہ گواہ عورت کی مدد کے جذبے سے سرشار ہو کر عدالت میں گواہی دینے بھی پہنچ جائیں ۔ریپ کے لئے ایسا آئیڈیل ماحول اور ایسے ”لبرل“ علما ء صرف وطن عزیز میں ہی دستیاب ہیں، کسی اسلامی ملک میں بھی اس کی مثال نہیں ملتی ۔
3۔ریاست کو بندوق کی نوک پر جھکانے کی آزادی: ایک آدھ قتل کرنے کے بعد بچ نکلنے کی آزادی تو اپنے ملک میں ہے مگر اس آزادی سے صرف امیر اور با اثر طبقہ ہی فائدہ اٹھا سکتا ہے ،اگر آپ کا تعلق اس طبقے سے نہیں تو پھر ریاست نے یہاں ایک اور سہولت مہیا کر رکھی ہے ،اس سہولت کے تحت اگرکوئی شخص کسی ایسے گروہ سے وابستہ ہو جائے جو ریاست کے خلاف مسلح جدو جہد کر رہاہو اور اس عمل میں اس گروہ نے چالیس ہزار سے زائد معصوم اور بے گناہ افراد کی جان لی ہو تو بھی ریاست ان افراد کو ”اپنے لوگوں“ کا خطاب دے کر نہایت عزت سے مخاطب کرے گی اورمنت ترلے کرتے ہوئے گاہے بگاہے یک طرفہ طور پر عام معافی کا اعلان کرتی رہے گی۔ذرا اندازہ لگایئے عیاشی کا،اٹھارہ کروڑ آبادی کا ملک،ساڑھے سات لاکھ فوج،ایٹمی قوت ،اسلام کا قلعہ …لیکن اگر کوئی بندوق کی نوک پر چند ہزار لوگوں کے ساتھ مل کر اس ریاست کی ناک مروڑنا چاہے تو ریاست اس وقت موم کی ناک آگے کر ے گی۔ ہم سا ہو تو سامنے آئے!
4۔فتوی ٰ صادر کرنے کی آزادی: آئے دن میڈیا میں جامعہ الازہر کی طرف سے جاری کئے گئے فتوے پڑھنے کو ملتے رہتے ہیں ،اس کے علاوہ کبھی کبھار بھارت کے دار العلوم دیوبند سے بھی فتوے جاری کئے جاتے ہیں مگر فتویٰ جاری کرنے کی جو سہولت ہمارے ملک میں ہے وہ پوری دنیا میں اور کہیں نہیں ۔ہمارے ہاں کوئی بھی شخص، چاہے کسی مدرسے کا فارغ التحصیل ہو یا نہ ہو، سکول کی شکل دیکھی ہو یا نہیں ،اسلامی ارکان اور صوم و صلوٰة کا پابند ہو یا نہ ہو،فتویٰ دینے کا مجاز ہے حتی ٰ کہ ایسا نوجوان جو رات بھر انٹر نیٹ پر فحش ویب سائٹس ان بلاک کرکے ان کا بغور معائنہ کرتا ہو، وہ صبح اٹھ کر کسی بھی دوسرے مسلمان کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دینے کا نہ صرف فتویٰ صادر کرسکتا ہے بلکہ اپنے اس فتویٰ پر عمل درآمد کرنے کی بھی آزادی رکھتا ہے۔ ریاست کی پالیسی اس ضمن میں بھیگی بلی بنے رہنے کی ہے !
5۔کاروبار کی آزادی: نہ جانے کس احمق نے یہ فقرہ کہا ہے کہ America is the land of oppurtunity حالانکہ یہ بات صرف پاکستان کے بارے میں پوری اترتی ہے ۔امریکہ جیسے ملکوں میں تو ٹیکس یا بجلی چوری کرنے کی صورت میں ساری عمر جیلوں میں سڑنا پڑتا ہے ،اپنے ہاں اگر آپ کاروبار کرنا چاہتے ہیں تو اس ضمن میں ریاست آپ کو جو سہولتیں فراہم کرتی ہے ترقی یافتہ ممالک میں ان کا تصور بھی نہیں ۔مثلاً کاروبار کریں اور ٹیکس نہ دیں،یہاں کوئی پوچھنے والا نہیں ،بجلی یا گیس مہنگی ہو جائے تو بھی کوئی مسئلہ نہیں چوری کرنی شرو ع کر دیں ،اور اگر کچھ بھی نہیں کر سکتے تو اشیائے خور دو نوش میں ملاوٹ کرکے بیچنا شروع کر دیں اور دونوں ہاتھوں سے نوٹ سمیٹیں ،اول تو کسی حکومتی اہلکار کے پاس فرصت نہیں کہ آپ کو پوچھتا پھرے اور اگر کوئی بھولا بھٹکا نکل ہی آئے تو اسے اپنا شیئر ہولڈر بنا لیں اور خودباقی زندگی خدا کی یاد میں بسر کردیں۔
نوٹ: یہ تمام آزادیاں صرف مملکت خدادداد پاکستان میں ہی میسر ہیں !
تازہ ترین