• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عالمی افق پر ایک لیڈر ڈوب رہا ہے ایک لیڈر ابھر رہا ہے۔ تاریخ کے حادثات امریکہ خون آشام، سفید ریچھ امن کا متلاشی۔جنرل ثناء اللہ نیازی کی شہادت ایک خونچکاں اور دل دہلا دینے والا واقعہ ہی تو ہے۔ میانوالی کے بہادری افشاں، خوبرو جرنیل نے جامِ شہادت ایسے نوش کیا کہ دہشت گردوں کے خلاف اگلے مورچوں کا معائنہ کر کے واپسی کا عمل شروع تھا۔ نوجوانوں کی ایسی حوصلہ افزائی کا متحمل پاک فوج کا جنرل ہی ہو سکتا تھاپاک فوج تیری عظمت کو سلام ۔بدنصیبی کہ مٹھی بھر دہشت گردوں نے ملک کے طول و عرض میں اَت مچا رکھی ہے قلع قمع تو مشکل بس اتنا ہی معلوم ہو جائے کہ پشت پناہی پر کون ہے؟ اسلحہ بارودکا سپلائر کون ہے ؟
پروفیسرمائیکل چاوسڈو سکی کی معرکة الآرء کتاب ”مسلمانوں کی تذلیل اور تیل کی جنگ “کا حاصل کلام بس اتنا کہ” امریکہ نے اسلام کو دہشت گردی کا ہم پلہ بنادیا اور عالمِ اسلام پر پل پڑا۔شروعات تو دہشت گردی کے خلاف جنگ اورامریکی سرزمین کو محفوظ بنانا تھاعملاًآج یہ جنگ مذہبوں کی جنگ یا تہذیبوں کی جنگ بن چکی۔ مطلق العنانیت ،خانہ جنگی ،پتلی تماشہ گھر،اسلامی معاشرے میں روزمرہ کا معمول بنا دو(سنجیاں ہو جان گلیاں تے وچ امریکہ یارپھرے)اثاثوں پراجارہ داری بشمول مسلمان اور اسلام کی تذلیل جیو پولیٹکل اور اقتصادی ضرورت۔ آج گلوبل طول وعرض میں دہشت گرد کا مطلب مسلمان اور دہشت گردی اسلام کا جزولاینفک جبکہ مسلمانوں کا حکومتی نظم و نسق ، ادارے ، تہذیب ، تمدن ، روایات، معاشرت ، اقتصادیات کا شیرازہ بکھر چکا“۔
مسلمان بھائیو! آپ کے حکمران امریکہ کے ”کانے“ بننے پر مجبور۔ان کے نعرے سب جھوٹ اور مکر۔
برٹش سابقہ وزیر مائیکل میچر(Michael Meacher) نے گارڈین (ستمبر2003 ) میں کیا لکھاکہ ”وارآن ٹریر ایک جھوٹ ، فراڈ اورامریکی گلوبل تسلط کوقائم کرنے کی مکروہ سازش کے سوا کچھ نہیں۔ اس کا سکرپٹ ستمبر2000 میں ہی تیارتھا جبکہ سکرپٹ کے لکھاری ”پروجیکٹ فار دی نیو امریکن سنچری (PNAC) “۔ اس پلان کے مطابق سنٹرل ایشیا اور مشرقِ وسطی کا ملٹری کنٹرول لینا اصل ٹارگٹ، اسامہ بن لادن ، القاعدہ یا صدام حسین کا وجود یا عدمِ وجودغیر اہم، اپنے ہی صدر کینڈی کو محض اس لیے مثال بنایا کہ آنے والے امریکی صدور فقط خوں باری سے ہی امن قائم کرنے کے پابند ہوں۔ انتہائی شرمناک امن نوبل پرائز یافتہ اوباماجنگ کا ڈھول پیٹ رہا ہے۔
تین ماہ پہلے اپنے کالم میں امریکہ کے شام پر ہونے والے حملے کااحاطہ کیا تھا۔ ”کیا امریکہ اور اتحادیوں کو معلوم نہیں کہ شام لیبیا نہیں۔ شام کی خانہ جنگی اور بربادی پورے مشرقِ وسطی کوبرباد کرسکتی ہے ۔ علاقے کا نقشہ بدل سکتی ہے ۔فلسطین ، اردن ،لبنان براہ راست زد میں۔ اس میں کوئی باک نہیں کہ بشار الاسد کے نظریاتی اور حکومتی ہتھکنڈوں نے شامی مسلمانوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ اکثریتی سُنی مسلمانوں کا جینا محال ۔جہادی تنگ آمد بجنگ آمدکے مصداق مصروف جنگ۔ جب سے ایران کا شام، لبنان اور فلسطین میں اثرورسوخ بڑھاہے تب سے امریکہ نے شام کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی ٹھان لی ۔کیا شام کی جنگ اور یورپ میں بیلیسٹک ڈیفنس میزائل کی تنصیبات دنیا کو دائمی دارالحرب بنانے کا ساماں باندھ رہی ہیں۔ صدر پیوٹن امریکی نقل و حرکت اور اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ راہ رسم کو خشمگیں نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں جبکہ امریکی دوسرے ملکوں میں افراتفری، سراسمیگی، خانہ جنگی جیسا ماحول پیدا کرنے کے لیے ہمہ وقت ہمہ تن روبہ عمل ہیں۔ اگر امریکہ کی دگرگوں اکانومی امریکی مفادات میں تغیر کا باعث نہ بنی تو پھر نتیجہ ٹھن ٹھن گوپال۔ امریکہ اپنے 110 سال سے طے شدہ ”مستقل مفادات“ کے تحفظ اور حصول کے لیے دنیا کو تیسری ہولناک عالمی جنگ کے دہانے پر پہنچانے پر ڈٹ چکا ہے ۔ کیا روس اور چین اقوام ِ عالم کو آگ اور خون سے بچانے کی ذمہ داری قبول کریں گے؟“(جنگ :26 جون)۔ روس اور چین نے مایوس نہیں کیا جبکہ روس نے تو امریکہ کو ”ٹکے ٹوکری“ کر دیا۔10ستمبر کو اوباما نے اپنی قوم سے کیا واہیات اپیل کی۔ ملاحظہ فرمائیں:
1۔ہم انسانی بنیادوں پر شامی حکومت کے مخالفین کی (اسلحہ ، گولہ و بارود سے )مدد کر رہے تھے تاکہ سیاسی حل نکل سکے۔ 2۔اب صورتِ حال بدل چکی۔ بشارالاسد کی حکومت نے زہریلی گیس استعمال کرکے سینکڑوں بچوں کو ہلاک کر دیا۔ (کہہ کون رہا ہے ؟1992 میں ادویات اور خوراک کی ترسیل پر پابندی لگا کر ہزاروں عراقی بچوں کو موت کے گھاٹ جب اتاراتواس وقت کی وزیر ِخارجہ میڈلین البرائٹ کی شقاوت کہ جنگ میں ایسے نقصانات برداشت کرنا ہوں گے جبکہ آج ڈرون حملوں میں پاکستان اور یمن کے معصوم شہریوں ، بچوں کی ہلاکت کسی شمار میں نہیں)۔ 3 ۔پہلے ایسا کام نازیوں نے کیا تھاکہ بچوں کو بلاتفریق قتل کیاآج شام معصوم شہریوں کو مارکر بنیادی اصولوں کی دھجیاں بکھیر رہا ہے (پاکستان میں ڈرون حملے بنیادی اصولوں کی پاسداری ہی تو ہیں)۔ 4۔ شام بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کا مرتکب چنانچہ ہماری سیکورٹی خطر ے میں۔ 5 ۔اگر اسد حکومت کو سزا نہ دی گئی تو اسرائیل اردن، ترکی مستقل خطرات کا شکار رہیں گے۔ ایران ایٹمی قوت بن کر مزید طاقتور ہو جائے گا۔ 6۔ امریکہ کی سلامتی کا معاملہ ہے چنانچہ میں نے فیصلہ کیا کہ شام پر محدود حملہ کیا جائے ۔کمانڈر انچیف کی حیثیت سے مجھے ایسا اختیار ہے پھربھی میری خواہش کہ امریکی کانگرس اور عوام میرے اس فیصلے کی مخالفت نہ کریں۔
صدر اوباما کی نشری تقریر کے اگلے دن 11ستمبر کو روسی صدر پیوٹن نے جواب آں غزل میں ایک خطیبانہ کالم نیو یارک ٹائمز کی نذر کیا۔روسی صدر نے آئینہ ہی تو دکھایا۔ اوباما کے بھونڈے دلائل کے مقابلے میں ذراصدر پیوٹن کی مدلل تحریر کے نکات۔
1۔اقوام ِ متحدہ کا مقصد کہ جنگوں سے بچنا ہے چنانچہ یہ بات چارٹر میں لکھ دی گئی کہ جنگ متفق علیہ ہی ممکن ۔ سیکورٹی کونسل میں ویٹو کا حق امریکہ نے اسی بناشامل کروایا۔ اقوام متحدہ کو بائی پاس کرناغیر قانونی بھی اور خطرناک بھی۔ 2۔امریکہ کی طرف سے ایسی جنگ کا آغاز بے گناہ شہریوں کے لیے جان لیوا ۔ فلسطین اور اسرائیل بلکہ سارا علاقہ لپیٹ میں،ایسے حالات میں ایران کو ایٹمی قوت بننے سے روکنا مشکل ۔ایسی جنگ پورے خطے کو بھسم کر دے گی۔ 3۔امریکہ شامی اپوزیشن کو جدید اسلحہ سے لیس کر کے پہلے ہی خون آشام تاریخ رقم کر چکاجس نے روس کی علاقے میں امن کوششوں کو خاطر خواہ نقصان پہنچایا۔ 4۔ہم شام کی حکومت کی نہیں بلکہ بین الاقوامی قوانین کی حفاظت کر رہے ہیں اور یہ واحد ذریعہ ہے انارکی اور خانہ جنگی کو روکنے کا ۔ 5۔ یقینا زہریلی گیس استعمال ہوئی لیکن قوی امکان اور شواہد کہ فوج مخالف گروپس نے استعمال کی۔ خدشہ ہے کہ معاملے کو مزید بگاڑنے کے لیے ڈرامہ کے طور پر اسرائیل کے خلاف دہشت گردی ہو تاکہ شام پر حملہ کا جواز ملے ۔ 6۔بدقسمتی کہ آج کی دنیا امریکہ کو جمہوری ماڈل کی بجائے جنگی مجنوں کی حیثیت سے جان رہی ہے۔ 7۔ دنیا پوچھ رہی ہے کہ اب جبکہ بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑ چکیں کمزوروں کی حفاظت کیسے ہوگی؟ 8۔ امریکہ کایہ کہنا کہ ”اگر تم ہمارے ساتھ نہیں تو پھرہمار ے مخالف ہو“۔رعونت اور تکبر کا انوکھا مظاہرہ ہے۔ 9۔آج افغانستان تار تار، عراق خانہ جنگی میں غرق، لیبیا قبیلوں اور گروہوں میں تقسیم میدانِ کارزار ۔ معصوم امریکی اپنی قیادت سے پوچھ رہے ہیں کہ ہم سبق کب سیکھیں گے؟ حماقتیں کب بند ہو ں گی؟ 10۔اوباما کا یہ کہنا کہ ہمیں باقی ملکوں اور قوموں پر ترجیح حاصل ہے ۔ خطرناک بھی اور اقوامِ عالم کی توہین بھی۔ ہم جب خدا سے رحمت کے طلب گار ہوتے ہیں تو ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ خدا نے تمام انسانوں کو برابر پیدا کیا ۔
پیوٹن کی تحریر نے اوباما کو پسپا کیا،امریکہ کو ہلا دیا،اقوام عالم کو چونکا دیا۔سابق صدارتی امید وار جان مکین کا تبصرہ کہ اوباما نے ذلیل کروا دیاہم پسپا ہو گئے ۔پوری دنیا کے طول وعرض میں پیوٹن کی واہ واہ اور اوباما پر لعن طعن۔ امریکہ کی ساکھ متاثر۔ایک رائے یہ بھی کہ پیوٹن نے اوباما کو جنگ سے بچنے کا باعزت راستہ دیا۔ یقینا امریکی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچابالکل ایسے ہی جیسے افغانستان سے بے آبرو ہو کر نکلنا۔ تفریح طبع کے لیے کہ اگلے دن صدر اوباما نے نیویارک ٹائمز میں ایک جوابی مضمون میں روسی صدر اور روس پر رکیک حملے کرتے ہوئے گندی زبان استعمال کی۔ صاف معلوم ہوتا تھاکہ صدر پیوٹن کا مضمون عزت خراب کر چکا۔ تکلیف کی بلبلاہٹ مضمون میں نمایاں۔تنگی کی وجہ سے اوباما کے شکست آمیز مزاحیہ کالم کی تفصیل پیش کرنے سے قاصر۔ اچھی خبر کہ روسی صدر کے جارحانہ اسلوب سے جنگ کے گہرے بادل چھٹ گئے۔گو کہ پیوٹن کا موجودہ رول انتہائی مدبرانہ اور صلح جومگر بدقسمتی کہ روسی صدر کے ہاتھ بھی چیچن مسلمانوں کے خون سے رنگے ہیں ۔ خیر کا پہلو اتنا کہ آج روس انگڑائی لے رہا، منوا رہا ہے۔واحد سپر پاور کا تجربہ انتہائی تلخ اور تکلیف پر مبنی۔اس کے ساتھ ایک چھوٹی سی کہانی کہ فروری 2003 میں صدر پیوٹن نے سابقہ KGB چیف و وزیراعظم پریماکوف کو خفیہ مشن پر عراق بھیجا کہ براہ راست صدر صدام کو مل کر سمجھاؤ کہ اگر تم اقتدار چھوڑدو تو نہ صرف بعث پارٹی کو مقتدر رکھاجائے گا آپ بعث پارٹی کے صدر بھی رہیں گے اور یہ امریکہ کو حملے سے روکنے کا آخری طریقہ۔ صدرصدام نے پریما کوف کو تھپکی دی اور یہ جملہ کہہ کر اٹھ گئے کہ ہماری تاریخ روسی دھوکوں سے بھری ہے ۔ مجھے آپ کی کسی بات پر اعتبار نہیں۔ بقول Yevgeny Primakov یوں صدام عراق کی بربادی میں بڑا حصہ دار بن گیا۔ کیا صدر پیوٹن نے ایسا مشورہ اور محفوظ راستہ شامی صدر بشارالاسدکو بھی دیا ہے کہ اقتدار سے علیحدہ ہو جاؤ۔ اپوزیشن سے مذکرات اورعوام کی خواہشات کا احترام ہی امریکی حملوں کو روکنے کی اصل ضمانت ہے۔کاش مسلمان حکمران خصوصاًشام دیوار پر لکھا پڑھ کر اپنی رعایا پر رحم فرمائیں۔
تازہ ترین