• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانی سیاست کایہ عجیب المیہ رہا ہے کہ یہ جب بھی دو قدم آگے چلتی ہے تو کوئی ناگہانی قوت اسے چار قدم پیچھے دھکیل دیتی ہے، یہ سلسلہ پچھلے چوہتر سال سے مختلف صورتوں میں جاری ہے۔ آئین نہ صرف ہر ملک کا ایک بنیادی قانون ہوتا ہے بلکہ ہر سماج کی عمارت آئین پر ہی کھڑی ہوتی ہے۔ آئین ملک کے سیاسی ڈھانچے اور اقتدار کی تبدیلی کا طریقہ کار بھی واضح کرتا ہے۔ حکومت آئین کے ذریعے ہی اپنی جائز قانونی حیثیت حاصل کرتی ہے گو کہ پاکستان میں کئی دفعہ آئین کو منسوخ کر کے اور کئی دفعہ آئینی ضوابط کو نظر انداز کر کے حکومتیں مسلط کی گئیں اور سپریم کورٹ نے نظریہ ضرورت کے تحت مارشل لاء کو حق بجانب بھی قرار دیا تاہم 1973کے آئین کے نفاذاور اٹھارویں ترمیم کے بعدیہ خیال کیا جارہا تھا کہ پاکستان میں جمہوریت، آئین کی پاسداری اور ایک میچیور سیاسی کلچر اپنی جڑیں مضبوط کر سکے گا، لیکن عمران خان نے اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کو جس طرح اسپیکر کے ذریعے غیر آئینی قرار دلوایا، اس کی مثال پاکستان کی چوہتر سالہ سیاسی تاریخ میں نہیں ملتی۔ ان کے اس غیر آئینی اقدام نے ملک کو ایک غیر معمولی اور غیر فطری صورتحال سے دوچار کر دیا ہے اور اس صورت حال سے نکلنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ سپریم کورٹ جلد از جلد پاکستانی جمہوریت کو آئین کے راستے پر واپس ڈال دے، ورنہ مستقبل میں کسی بھی وزیر اعظم کے خلاف کسی قسم کی عدم اعتماد کی تحریک پیش نہیں ہو سکتی اور ہر حکومت آئین کے آرٹیکل 5Aکے تحت اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کوکسی نہ کسی غیر ملکی قوت کی سازش قرار دے دے گی اور ایک ایسا کلچر پروان چڑھےگا جس کے بعد جمہوریت اپنی پٹڑی پر کبھی واپس نہ آسکےگی۔واضح رہے کہ آئین کی پاسداری کے بغیر نہ تو بنیادی انسانیحقوق حاصل کئے جا سکتے ہیں اور نہ ہی قانون کی حکمرانی کو جلا بخشی جا سکتی ہے۔

مشہور کرکٹر رمیز راجا نے ایک دفعہ کہا تھا کہ جب عمران خان کپتان ہوتے تھے تو وہ بیک وقت ٹیم کے منیجر اور سیلیکٹر بھی ہوا کرتے تھے۔ یہ اس بات کی غماضی کرتاہے کہ عمران خان شروع سے ہی خود پسند تھے اور جمہوری اقدار کی پاسداری انکاشیوا نہ تھا۔ ایک اچھا کرکٹر ہونا اور ایک اچھا سیاست دان ہونا دو بالکل الگ الگ چیزیں ہیں۔ عمران خان کسی طور بھی سیاست کے میدان کے کھلاڑی نہیں ہیں۔ ان کے چار سالہ دور میںپاکستان دیوالیہ ہو گیا اور مہنگائی نے عام آدمی کی زندگی کوابتر کر دیا عمران خان کے خلاف حزب اختلاف نے تحریک عدم اعتماد جمع کرائی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ تحریک عدم اعتماد کوآئینی طریقے سے نبٹایا جاتا، لیکن انہوں نے خود پسندی اور غیر سیاسی روش کا مظاہرہ کرتے ہوئے آئین ہی کو پامال کر دیاجیسا کہ یہ کہہ رہے ہوں کہ کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ سیاست، سیاست دانوں کو ہی کرنی چاہئے کیونکہ ایک مریض کا آپریشن ایک سرجن ہی کر سکتا ہے اور جب کوئی نائی یا موچی اس کا آپریشن کرے گا تو مریض کا حال ابترہی رہے گا۔تاہم دانشور سیاسی پارٹیوں کو بھی ان حالات کاذمہ دار قرار دیتے ہوئے سمجھتے ہیں کہ سیاسی پارٹیوں کا اصل مقصد ہر صورت میں اقتدار حاصل کرنااور مقتدرہ قوتوں سے تعلقات بنانا ہوتا ہے۔آج وقت کی اہم ضرورت ہے کہ سیاسی پارٹیاں ایسے شعور کی آبیاری کریں تاکہ الیکٹ ایبلز سے جان چھڑائی جا سکے۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ وہی سیاسی پارٹیاں کر سکتی ہیں جن کے دونوں پائوں زمین پر ہوں اورجنکا محور عوام کی زندگیوں کو بہتر کرنا ہو۔آج سیاسی پارٹیوں کو اپنی حکمت عملی شخصیات سے ہٹا کر ایسے اداروں کوبنانے میں صرف کرنی چاہئے جو وسیع تر جمہوری عمل کی نگہبان ہوں تاکہ سیاسی ادارے پروان چڑھ سکیں سیاسی پارٹیاں ملک میں غربت، بیماری، ناخواندگی اور ناانصافی کو تفتیش اور تحقیق کے ذریعے ختم کریں۔

پاکستان کے جمہوریت پسند دانشوروں کا خیال ہے کہ سپریم کورٹ نے بہت احسن طریقے اور باریک بینی سے اس آئینی بحران کے حل پر توجہ مرکوزکی، اب پی ڈی ایم اور حزب اختلاف کی پارٹیوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ جلد از جلد دور رس اقدامات کریں تاکہ الیکشن کی چوری کسی کیلئے بھی ممکن نہ رہے۔ آخر ہندوستان میں بھی چوہتر سال سے الیکشن ہو رہے ہیں، وہاں کسی نے الیکشن چوری کے الزامات نہیں لگائے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی شدید ضرورت ہے کہ حزب اختلاف کی پارٹیاں عوام کے معاشی مسائل کے حل کو اپنی بنیاد بنائیں، اور مستقبل کا ایسا لائحہ عمل بنائیں کہ کوئی سیاسی معاملات میں مداخلت نہ کرسکے۔

تازہ ترین