• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ خبر میرے لئے ذاتی صدمے سے کم نہ تھی، پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس لاہور کے قائد اعظم ہال سے القاعدہ کے ایک جنگجو کی گرفتاری میرے لئے معمول کی خبر نہ تھی۔ جیسے ہی میڈیا پر یہ خبر نشر ہوئی تو میں سارے کام چھوڑ کر لاہور میں مختلف لوگوں کو فون کرنے لگا۔میرے دل کے کسی کونے میں یہ خواہش تڑپ رہی تھی کہ کاش! یہ خبر غلط نکلے اور اس کی تردید ہوجائے۔ میں سوچ رہا تھا کہ یہ خبر صحیح نکلی تو پوری دنیا میں پھیلے گی ا ور پوری دنیا میں پنجاب یونیورسٹی کے ساتھ ساتھ پاکستان کا نام بھی خراب ہوگا۔افسوس کہ میری یہ خواہش پوری نہ ہوئی اور یہ خبر صحیح نکلی، پھر پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران مختلف ٹی وی چینلز کو انٹرویو دیتے ہوئے نظر آئے۔ وہ پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹلز میں غیر قانونی طور پر مقیم مسلح افراد کی موجودگی کی تصدیق کررہے تھے۔ ڈاکٹر مجاہد کامران کے اعتراضات سن کر میں ماضی کے دریچوں میں جھانکنے لگا۔
پنجاب یونیورسٹی کے نیو کیمپس کے ساتھ میرا تعلق بہت پرانا ہے۔ اسی نیو کیمپس میں نہر کے کنارے ادارہ تعلیم و تحقیق(آئی ای آر) واقع ہے۔ اس ادارے میں مستقبل کے اساتذہ کی تربیت کے لئے ایک سکول قائم ہے جسے یونیورسٹی لیبارٹری سکول کہا جاتا ہے۔اس سکول سمیت نیو کیمپس میں قائم اہم عمارتیں اور ہاسٹلز جنرل ایوب خان کے دور میں یو ایس ایڈ کی مدد سے تعمیر کئے گئے۔یہ ایک مڈل سکول تھا جس میں مخلوط تعلیم تھی۔ میں نے آٹھ سال تک اسی سکول میں تعلیم حاصل کی ،جس عمارت میں یہ سکول قائم ہے کافی سال پہلے اسی عمارت کے تیسرے فلور پر شعبہ صحافت ہوا کرتا تھا جو بعد میں شعبہ ابلاغیات بن گیا۔میرے والد پروفیسر وارث میر اسی شعبے میں استاد تھے۔ اب یہ انسٹی ٹیوٹ آف کمیونی کیشن سٹڈیز بن چکا ہے اور اس کی نئی عمارت بن چکی ہے۔ میرے والد صاحب نیو کیمپس کے عالمگیر ہال(ہاسٹل نمبر سات) صلح الدین ایوبی ہال(ہاسٹل نمبر گیارہ) اور سلطان ٹیپو ہال(ہاسٹل نمبر آٹھ) کے نگران بھی رہے۔ قائد اعظم ہال کو ہاسٹل نمبر ایک کہا جاتا ہے۔ بچپن میں میرا زیادہ وقت ہاسٹل نمبر ایک کے آس پاس گزرتا تھا۔ ہاسٹل نمبر ایک کے سامنے سوئمنگ پول ہے اور میں گرمیوں میں اکثر دوپہر کو والدین سے چھپ کر اس سوئمنگ پول میں جاگھستا تھا۔ ہاسٹل نمبر ایک کے بالکل بائیں ہاتھ پر ہاکی اور فٹ بال کے گراؤنڈز ہیں۔ اس ہاکی گراؤنڈ میں اپنی عمر سے بڑے کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے میں نے ایک دفعہ اپنی ٹانگ بھی تڑوائی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پنجاب یونیورسٹی لاہور میں رائٹ اور لیفٹ کی سیاست ہوتی تھی۔ ہمیں بچپن میں ہی پتہ چل گیا کہ”سرخ ہے سرخ ہے ایشیاء سرخ ہے“ کا نعرہ لگانے والے سوشلسٹ اور کمیونسٹ ہوتے ہیں جبکہ ”ایشیاء سبز ہے“ کا نعرہ لگانے والے اسلامی انقلاب کے داعی ہیں۔ سرخوں اور سبزوں میں اکثر لڑائی مارکٹائی بھی ہوا کرتی تھی۔ لاہور کے ایک مشہور صحافی اس زمانے میں ایک طلبہ تنظیم سے وابستہ تھے۔
ایک دن ٹیپو ہال کے سامنے میں اپنے بھائیوں کے ساتھ کرکٹ کھیل رہا تھا کہ یہ صاحب اپنے دو ساتھیوں کے ہمراہ بھاگتے ہوئے آئے اور ہاسٹل نمبر نو میں گھس گئے۔کچھ ہی دیر میں شور مچا اور میں بھی شور کی جانب لپکا۔ ابھی ہاسٹل نمبر نو کے دروازے سے اندر داخل ہوا تھا کہ کاربین سے فائر ہوا۔ کارتوس کا ایک چھرا میرے چہرے پر آکر لگا اور میں خون میں لت پت ہوگیا۔ فائر کرنے والے صاحب بھاگ کر میرے پاس آئے اور اظہار افسوس کرنے لگے لیکن اس دوران انہیں پتہ چلا کہ ان کے فائر نے ایک مخالف نوجوان کو مار ڈالا ہے لہٰذا وہ ایک نمبر ہاسٹل کی طرف بھاگ گئے۔بعد میں پتہ چلا کہ نوجوان کی موت کارتوس کے چھرے لگنے سے نہیں ہوئی تھی بلکہ اسے خنجر مارے گئے۔ بہرحال میں زخمی ہو کر ہسپتال پہنچ گیا اور اللہ کا شکر ہے کہ زخم گہرا نہ تھا۔ اس واقعے کے بعد ہاسٹل نمبر ایک میرے لئے معمہ بن گیا۔
اس واقعے کے بعد مجھے پتہ چلا کہ ہاسٹل نمبر ایک کو مخصوص طلبہ تنظیم کے ہیڈ کوارٹر کی حیثیت حاصل ہے اور ہاسٹل نمبر نو اس تنظیم کے مخالفین کی آماجگاہ تھی۔ یونیورسٹی سکول میں آٹھ سال تک پڑھنے کے بعد میں نے آخر میں ایم اے کے لئے پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات میں داخلہ لے لیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہم اپنے والد کی وفات کے بعد نیو کیمپس چھوڑ چکے تھے لیکن اپنے کلاس فیلوز سے ملنے کے لئے نیو کیمپس کے ہاسٹلز میں آنا جانا رہتا تھا۔ میرے کلاس فیلوز طاہر سرور میراور ظفر منہاس ہاسٹل نمبر16میں مقیم تھے۔
طاہر صاحب کے کمرے میں ان کے دو دوست سہیل ا حمد اور ببو برال بھی رہتے تھے۔ یہ سہیل احمد اب عزیزی کے نام سے مشہور ہیں اور ببو برال مرحوم ہوچکے ہیں۔ یہ دونوں نوجوان فنکار گوجرانوالہ سے قسمت آزمائی کے لئے لاہور آئے تھے اور طاہر سرور میر کی شفقت کے سائے میں غیر قانونی طور پر مقیم تھے کیونکہ دونوں یونیورسٹی کے طالبعلم نہ تھے۔ جب امتحانات قریب آتے تو میں پڑھنے کے لئے ہاسٹل نمبر16میں چلا جاتا تھا لیکن وہاں ان دو فنکاروں کے ساتھ ساری ساری رات قہقہے لگا کر واپس آجاتا۔ یہ قہقہے کبھی کبھی ایک طلبہ تنظیم کی قیادت کو ناگوار گزرتے لیکن ظفر منہاس کے اس تنظیم میں موجود گہرے تعلقات کام آتے اور ہمارے فنکار دوست بے گھر ہونے سے بچ جاتے۔1989ء میں وزیر اعظم بینظیر بھٹو نے تعلیمی اداروں میں طلبہ یونینوں پر پابندی ختم کرکے الیکشن کا اعلان کردیا۔ یہ پنجاب یونیورسٹی میں میرا آخری سال تھا۔ اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے ناظم جہانگیر خان میرے کلاس فیلو تھے اور صدر کا الیکشن لڑرہے تھے لیکن کچھ دوستوں نے جمعیت کے مقابلے پر الیکشن لڑنے کا فیصلہ کرلیا۔
میر باز خان کھتیران کے بھائی میر شاہجان کھتیران پی ایس ایف کی طرف سے صدارتی امیدوار بن گئے۔ شعبہ جاتی الیکشن میں پی ایس ایف نے اکثریت حاصل کی لیکن مرکزی الیکشن میں پی ایس ایف ہار گئی۔ ہارنے کے بعد کھتیران صاحب اور ان کے ساتھیوں کو ایک جھوٹے مقدمے میں ملوث کردیا گیا۔ لاہور کے ایک اور صحافی خالد قیوم کو اغواء کرکے ہاسٹل نمبر ایک لیجایا گیا اور بہت مارا گیا۔ یہ جنرل ضیاء الحق کا دور تھا جب تعلیمی اداروں میں قتل و غارت عروج پر پہنچی تھی۔ بینظیر بھٹو اسے روکنے میں ناکام رہیں۔1990ء میں ان کی حکومت ختم کرنے کے بعد سٹوڈنٹس یونینز پر دوبارہ پابندی لگادی گئی۔ پابندی کے باوجود پنجاب یونیورسٹی سمیت کئی تعلیمی ادارے مختلف طلبہ تنظیموں کے کنٹرول میں رہے۔ ان تنظیموں میں اچھے لوگ بھی ہیں اور برے لوگ بھی ہیں۔ برے لوگوں نے پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹلز میں ایک ایسے کلچر کو فروغ دیا جس کے تحت سہیل احمد اور ببو برال جیسے بے ضرر لوگ بھی ان ہاسٹلز میں غیر قانونی طور پر مقیم رہے اور القاعدہ کے جنگجوؤں نے بھی ان ہاسٹلز کو اپنا مسکن بنائے رکھا۔ پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ پاکستان کی سب سے بڑی یونیورسٹی کے ہاسٹلز میں القاعدہ کے جنگجوؤں کی موجودگی کی ذمہ دار صرف ایک طلبہ تنظیم نہیں بلکہ وہ اساتذہ بھی ہیں جو ان ہاسٹلز کی نگرانی پر مامور ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی کے اساتذہ میں بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو استاد کم اور سیاستدان زیادہ ہیں۔ یہ اساتذہ اپنی سیاست کے لئے طلبہ کو ا ستعمال کرتے ہیں اور ان کی بددیانتی سے وہ بدنامی جنم لیتی ہے جس نے پنجاب یونیورسٹی کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔ کاش کہ آج سے چالیس سال پہلے کوئی وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس کے ہاسٹل نمبر ایک کو مخصوص سیاسی عناصر کے اثر و نفوز سے پاک کردیتا تو آج یہ ہاسٹل نمبر ایک صرف پنجاب یونیورسٹی کے لئے نہیں بلکہ پاکستان کے لئے بدنامی کا ایک دھبہ نہ بنتا۔
تازہ ترین