• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قارئین کرام! زیر بحث موضوع پر عدالتی فیصلہ جوبھی ہے جیسا اور جتنا بھی ہے سرآنکھوں پر، لیکن بڑی بڑی سیاسی جماعتوں اور طاقتور ریاستی اداروں کے مقابل حکمران جماعت پی ٹی آئی کے اٹھارہ بیس منحرف اراکین اور چار اتحادیوں کے باوجود اراکین اسمبلی کی مشترکہ طاقت خود حکومت اور وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک متحدہ اپوزیشن (پی ڈی ایم) سے بھی زیادہ ہے۔ حکمران جماعت جو سپریم کورٹ کے سوموٹو پر اپوزیشن بننے والی ہے، کی باغی اتحادیوں اور منحرفین کی قومی اسمبلی میں کل نشستیں بتیس چونتیس ہی ہیں لیکن ان ہی محدود نشستوں کے اشتراک سے پی ٹی آئی حکمران جماعت بنی اور ان کی حکومتی شراکت سے نکلنے پر اب وہ حکومت گنوانے کو ہے۔ پی ڈی ایم نے اپنے قیام سے تحریک عدم اعتماد تک پر منحرفین اور اتحادیوں کو حکومتی پارلیمانی باڈی کے مین پارٹنر (پی ٹی آئی ) سے بغاوت پر آمادہ کرنے تک حکومت کو ختم کرنا تو دور کی بات اسے کمزور کرنے اور احتسابی عمل سے باز رہنے کے دس جتن کئے، پھر جلسے جلوسوں کے جارحانہ ملک گیر پروگرام کئے، دھرنے دیئے، احتجاجی ریلیاں نکالیں، ضمنی انتخابات میں سرگرمی سے حصہ لیا، اکثر انتخاب جیتے لیکن اپوزیشن اتحاد حکومت کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکا۔ بگاڑا تب جب پی ٹی آئی کے اتحادیوں اور منحرفین کو فلور کراسنگ پر آمادہ کرلیا۔ یہ الگ بات ہے کہ خریدا یا حکومت سے فاصلے کا فائدہ اٹھا کر فلور کراسنگ (المعروف ہارس ٹریڈنگ) جو آئین کی آرٹیکل 63-Aکی روح سے متصادم ہے لیکن پھربھی وزیر اعظم یا چیف منسٹر کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے آنے پر حکمران جماعت کے اپنے منحرف ارکان اسمبلی یا اتحادی فلور کراس کرکے تحریک کے محرک (اپوزیشن) کے فلور پر جاکر اپنی حکومتی جماعت کے خلاف ووٹ دے سکتے ہیں۔ تاہم بھرے ایوان میں اس غیر اخلاقی، غیر جمہوری اقدام (تحریک عدم اعتماد کی حمایت میں ووٹ) کے بعد ان کا دیا ووٹ تو گنتی میں شمار ہوگا لیکن کمیشن کو آرٹیکل 63-A میں ’’امین‘‘ اور اس کی روح سے متصادم ہو جانے (فلور کراسنگ) پر اسمبلی کی سے رکنیت معطل کرانے کیلئے حکومت بعد از ووٹ ہی بذریعہ ا سپیکر الیکشن کمیشن کو ریفرنس بھجوا سکتی ہے۔ کتنی مضحکہ خیز آئینی گنجائش ہے کہ ایک رکن خود کو خود ہی خائن ثابت کرنے کی آئینی گنجائش (تحریک پر ووٹ دینے) کے بعد ہی اپنے خلاف کارروائی کا ملزم بن سکتا ہے۔گویا حکومتی اتحاد میں شامل اراکین کا ایک قلیل گروپ کسی بھی وقت وزیر اعظم کو ’’سولی پر لٹکا سکتا ہے‘‘۔ حکومت ختم کر سکتا ہے، جیسےبنا بھی سکتا ہے اور حکومت کو ہر وقت اپنی فرمائشوں اور جائز و ناجائز مطالبوں کے حوالے سے مسلسل دبائو میں رکھ سکتا ہے۔ یہ اتحادی حکومتوں کے اتحادیوں اور منحرفین کی مسلسل بلیک میلنگ نہیں؟ اور حکومت گرانے کی آئینی چھوٹ بھی،گویا قلیل منحرفین اور اتحادیوں کی یہ پارلیمانی طاقت ملک میں مسلسل عدم استحکام پیدا کرنے کا آئینی و سیاسی ذریعہ اور موثر ٹول ہے۔

پاکستان ہی نہیں منحرفین اور چھوٹی جماعتوں پر مشتمل یہ پارلیمانی اقلیتی طاقت ہر ڈگمگاتی یا غیر مستحکم نیم جمہوری ریاست میں پائی جاتی ہے لیکن اس کا جو رنگ، فن اور فنکاری ہماری اسلامی جمہوریہ میں ہے وہ کہیں نہیں۔ سیاسی پنڈت ان کی اس خاموش موجودگی پر جمہوری عمل میں ارتقا کا گمان کرتے رہے، لیکن یہ بدگمانی چند روز میں ہی کافور اور عدالتی فیصلے سے یہ چٹان بن گئی، ایسا نہیں، اس عرصے میں 11سال تو مشرف کا ملٹری سول دور رہا۔ اس سے قبل ن لیگ کی دو تہائی اکثریت کی بیس بائیس ماہ حکومت رہی، منظور وٹو نے پی پی کے ساتھ مل کر اپنی محدود سی پارلیمانی طاقت کے زور پر پنجاب کا حکومتی ٹھیکہ لگایا، پس منظر میں چھانگا مانگا،سوات، میں منحرفین اور اتحادیوں نے دیگیں پکا کر موجیں کیں۔ اور ریفرنس پر جانے والی سیاسی کہانیاں لکھیں۔ اب کوئی پندر ہ سترہ سال بعد الیکٹ ایبلز کا طاقتور اقلیتی پارلیمانی گروپ عمران کی تبدیلی حکومت بنوا کر پھر خود اس میں داخل ہوکر اور اب اسے اکھاڑ کر بڑے زور شور سے پاکستانی سیاست میں وارد ہوا ہے۔ اسٹیٹس کو کی پیداوار اور اسے مسلسل بڑھانے والے، عمران حکومت میں عزت گنوانے والوں نے باہر کے مضبوط رابطوں سے ببانگ دہل دیکھتےہی دیکھتے جو اہمیت و حیثیت اختیار کی ہے، کاش وہ کہیں مہنگائی، تھانہ کچہری اور بدستور گلے سڑے نظام میں سسکتے عوام کے بھی کام آتی، لیکن یہ اقلیتی پارلیمانی گروپ اپنی مہنگی مانگ میں اپنی پہلے ہی بھاری بھر کم غرض اغراض کا اسیر ہوگیا اور فقط خریداروں کا ہو کر رہ گیا۔ اور خریدار ان کے، وہ بھی اب مہنگائی کا نام نہیں لے رہے بلکہ خارجی امور میں بگاڑ کے غم کے غلبے نے دال روٹی کی گرانی بالکل ہی بھلا دی۔

قصہ مختصر، منحرفین،باغی اتحادیوں کی روایتی اقلیتی پارلیمانی طاقت جتنی دیر بعد پاکستانی سیاسی منظر پر وارد ہوئی ہے اتنا ہی اس نے اپنا زور دکھا دیا۔ اسٹیٹس کو میں رنگی گئی وہ تبدیلی طاقت جو ن لیگ کے قابو آ رہی تھی نہ پی پی اور مولانا صاحب کی سرپرستی میں پی ڈی ایم کے، اس نے آتے ہی پارے کی طرح ڈگمگاتے پچیس تیس ووٹوں کے زور پر پی ٹی آئی کو دبوچ لیا۔ اور تو اور عمران کے مجاہد پنجاب کو بھی۔ خود سرگرم ہو کر اسٹاک ایکسچینج ٹھنڈا کردیا۔ پاکستان کے چین، روس، امریکہ سے تعلقات میں عدم توازن سےپریشان پی ڈی ایم حکومت کےلیے توازن کی ’’درستی‘‘ کی راہ ہموار کردی۔ کئی شعبوں میں ہوتی ترقی کو بریک لگا دی اور ڈالر آسمان پر ٹانگ دیااور روپیہ مزید رسوا کردیا۔ اور عدالتی فیصلے سے خود بھی سرخرو ہوئی، ناکام پی ڈی ایم کو کامیاب کردیا۔ ان کے منہ گھی شکر سے بھردیئے، روزوں میں بھی دن رات کے جشن کا اہتمام کردیا۔ پی ڈی ایم کو مبارک لیکن مشروط۔ شرط کے بغیر مبارکباد لینی ہے تو کوئی تحریری ضمانت کوئی پکی یقین دہانی جس سے روگردانی گلے پڑ جائے، فاتح پی ڈی ایم کی اِس الیکٹ ایبلز پارلیمانی طاقت کے سہارے ’’فتح‘‘ یہ یقین دہانی کرائے کہ پاکستان میں آئین کے مکمل شہریوں پر قانون کے یکساں نفاذ کا نکتہ آغاز ہوگا۔ احتساب اور انسداد کرپشن ترجیحی ایجنڈا ہوگا اور مہنگائی کا طوفان تھمنے کے وقت و مقدار کی کوئی نوید؟

تازہ ترین