• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیراعظم نواز شریف نے12ستمبر2013ء کو پی آئی اے کے26 فیصد حصص فروخت کر کے اس اہم قومی ادارے کا انتظام مکمل طور پر اس نئے سرمایہ کار کے سپرد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سے قبل 9/اگست کو وزیر خزانہ اور گورنر اسٹیٹ بینک کے دستخطوں سے 2013-14ء سے 3 برسوں کیلئے آئی ایم ایف کو پیش کی گئی معاشی اور مالیاتی پالیسیوں کی یادداشت میں کہا گیا ہے کہ 65 حکومتی شعبے کے اداروں کی نجکاری وغیرہ کے ضمن میں مشترکہ مفادات کونسل کی منظوری حاصل کر لی گئی ہے۔ یادداشت میں مزید کہا گیا ہے کہ دسمبر 2013ء تک پی آئی اے کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے گا۔ اس کا دوسرا حصہ پی آئی اے 2 ہو گا جس میں اس ادارے کے خراب حصے (قرضے اور فاضل عملہ) منتقل کر دیئے جائیں گے تاکہ ان ملازمین کو فارغ کیا جا سکے۔ آخرکار جون2014ء تک خطیر رقوم کی ادائیگی کے بعد اس ادارے کو تحلیل کر دیا جائے گا۔ پی آئی اے کے پہلے حصے کو کامیابی سے چلانے کیلئے حکومت اس ادارے میں مزید سرمایہ کاری کرے گی مگر اس اہم اور قیمتی ادارے کو بھی جون 2014ء تک نجی شعبے کے حوالے کر دیا جائے گا۔ قوم حکومت سے یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہو گی کہ ایک منفعت بخش ادارے کی نجکاری آخر کیوں کی جا رہی ہے؟ پاکستان اسٹیل ملز جسے تمام صنعتوں کی ماں کہا جاتا ہے اور پی آئی اے جیسے اہم قومی اداروں کی نجکاری قومی المیہ ہو گی۔
حکومت پاکستان نے 9/اگست 2013ء کو آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کو ایک خط لکھا تھا جس کے ساتھ معاشی و مالیاتی پالیسیوں کی یادداشت بھی منسلک کی گئی تھی۔ اس خط میں یہ بات دہرائی گئی تھی کہ ان پالیسیوں بشمول نجکاری پروگرام کو صوبائی حکومتوں کی بھی زبردست تائید حاصل ہے کیونکہ مشترکہ مفادات کونسل نے ان پالیسیوں کی منظوری دے دی ہے۔ اس کے برخلاف پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی نے پی آئی اے کی نجکاری کی پرزور مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ 18ویں ترمیم کے تحت پی آئی اے کی نجکاری کیلئے مشترکہ مفادات کونسل کی باضابطہ منظوری لازمی ہے۔ سندھ کے وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ نے اس ادارے کی نجکاری کے فیصلے پر اپنی پارٹی کی تنقید کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب اس ادارے کی نجکاری کا معاملہ مشترکہ مفادات کونسل کے سامنے منظوری کیلئے پیش ہو گا تو وہ اس معاملے کو دیکھیں گے۔ ہم پوری ذمہ داری سے یہ سمجھتے ہیں کہ ری اسٹرکچرنگ کے بعد اگر پی آئی اے کو پیشہ ورانہ اصولوں کے مطابق چلایا جائے تو یہ یقیناً منافع میں آ جائے گی۔ اس پر مسلم لیگ (ن) کے ایک رہنما نے 14ستمبر 2013ء کو یہ موٴقف اختیار کیا کہ خدشہ ہے کہ اگر5 برس بعد پیپلز پارٹی دوبارہ برسراقتدار آ گئی تو وہ اس ادارے کو پھر نقصان پہنچائے گی چنانچہ نجکاری ضروری ہے۔
وطن عزیز میں نجکاری کا عمل متنازع، غیر شفاف اور کرپشن و اقربا پروری کا بڑا ذریعہ رہا ہے۔ گزشتہ تقریباً 23 برسوں میں بہت سے اہم، حساس، قیمتی اور سال بہ سال منافع بڑھاتے چلے جانے والے ادارے کوڑیوں کے مول من پسند افراد اور اداروں بشمول غیر ملکیوں کے ہاتھ فروخت کر دیئے گئے جو کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور کی یاد دلاتی ہے۔ بہت سے ادارے نجکاری کے بعد بدعنوانی اور نااہلی کے باعث بند ہو گئے جبکہ کچھ دوسرے اداروں نے اپنی خدمات اور مصنوعات کی قیمتوں میں زبردست اضافہ کیا۔ نجکاری کے بعد ہزاروں افراد اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ اثاثوں و آمدنی کی تقسیم مزید غیر منصفانہ ہو گئی۔ منفعت بخش اداروں کو غیر ملکیوں کے ہاتھ فروخت کرتے وقت یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہئے کہ یہ ادارے منافع ملکی کرنسی میں کمائیں گے جبکہ غیرملکی خریدار اپنے منافع کی رقم غیرمعینہ مدت تک بیرونی کرنسی میں ملک سے باہر لے جائیں گی جس سے زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ پڑے گا۔ اس خدشے کو بھی ذہن میں رکھنا چاہئے کہ جو اہم ادارے ہم غیرملکیوں کو فروخت کر رہے ہیں وہ ادارے (علاوہ بینکوں کے) آنے والے برسوں میں ایک مربوط حکمت عملی یا سازش کے تحت ہمارے دشمن ممالک کے سرمایہ کار ان غیر ملکیوں سے خرید سکتے ہیں جو کہ تباہ کن ہو گا۔ عالمی بینک کے ایک سابق چیف اکنامسٹ کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں نجکاری کے عمل کی ناکامی کی مثالیں بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ پاکستان میں166 قومی اداروں کی نجکاری ہو چکی ہے جن میں تقریباً 80 فیصد کی کارکردگی خراب ہوئی یا کوئی بہتری نہیں آئی۔ یہ سب اور بہت کچھ وطن عزیز میں نجکاری کے عمل کی ناکامی کا مظہر ہیں۔
پاکستان میں یہ دعوے تواتر سے کئے جا رہے ہیں کہ نجی شعبے کو منتقل کئے گئے بینکوں نے شاندار کارکردگی دکھائی ہے حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ دراصل بینکوں نے اجارہ داری قائم کی ہے۔ چند حقائق اور اعداد و شمار پیش ہیں:(1) 2001ء میں پاکستان میں کام کرنے والے بینکوں نے صرف 1100 ملین روپے کا منافع دکھایا تھا۔ 2012ء میں ان بینکوں کا منافع حیرت انگیز طور پر بڑھ کر 1,87,000 ملین روپے ہو گیا۔ دنیا بھر میں حالیہ برسوں میں ٹیکس سے قبل منافع میں ایسے زبردست اضافے کی مثال نہیں ملتی۔ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ نفع و نقصان میں شراکت کی بنیاد پر کھولے گئے کھاتوں پر دی جانے والی شرح منافع گرا کر بینکوں نے اپنا منافع بڑھانا شروع کر دیا جو کہ کھاتے داروں کے ساتھ معاہدے کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ اسٹیٹ بینک نے یہ کہہ کر زخم پر نمک چھڑکا کہ کھاتے دار بھی ذمہ دار ہیں کیونکہ انہوں نے شور نہیں مچایا۔ اندازہ ہے کہ اس مدت میں بینکوں نے کھاتے داروں کو 2001ء کی حقیقی شرح کے مقابلے میں 1200 ارب روپے منافع کی مد میں اس رقم سے کم ادا کئے جو ان کا حق تھا۔
(2) نجی شعبے کو منتقل کئے گئے حبیب بینک نے 2004ء اور 2009ء کے درمیان 40/ارب روپے اور یونائیٹڈ بینک نے 45/ارب روپے کے قرضے معاف کئے۔ اس کے مقابلے میں حکومتی شعبے کے نیشنل بینک نے اسی مدت میں صرف 19/ارب روپے کے قرضے معاف کئے تھے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان دونوں بینکوں کو سستے داموں اس لئے بھی فروخت کیا گیا تھا کہ طاقتور طبقوں کے بینکوں کے قرضے معاف کرائے جا سکیں۔
مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں ہم اپنی یہ تجویز دہرائیں گے کہ ماہرین پر مشتمل ایک کمیشن بنایا جائے جو گزشتہ 20 برسوں کے نجکاری کے عمل اور نجی شعبے کو منتقل کئے گئے بڑے اداروں کی کارکردگی کا جائزہ لے کر رپورٹ پیش کرے۔ اس وقت تک نجکاری کا عمل شروع نہ کیا جائے۔
تازہ ترین