• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ کیسا اوور ہے کہ جس کی آخری بال بار بار کیے جانے کے باوجود یہ اوورختم ہونے کو نہیں آرہا۔ لگتا ہے سیاسی خود کش اوور ابھی چلے گا کرکٹ تو شرمندہ ہوئی ہی تھی۔

اب سیاست اور آئین کی عملداری کی خیر نہ رہی۔ کیا تو وہ وقت تھا جب ایک اسپیکر اسمبلی مولوی تمیزالدین آئین ساز اسمبلی کی بحالی کے لیے داد رسی کے لیے عدالت گیا تھا اور اس کے ہاتھ میں ’’نظریہ ضرورت‘‘ کا پھرا پکڑا دیا گیا تھا اور مملکتِ خداداد مسلسل آئین کی حکمرانی سے بار بار محروم کی جاتی رہی۔ 

اور کیا یہ وقت بھی خیر سے آیا ہے کہ عدالتِ عظمیٰ نے آئین کی سربلندی کو ہر طرح کی لغزش سے پاک کرتے ہوئے آئین کی دفعہ 95 کی ڈپٹی اسپیکر کے ہاتھوں خلاف ورزی کو اِس کے مضمرات کیساتھ اٹھا کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا ہے جبکہ بیرونی مداخلت کی طفلانہ کہانی کی بے پرکی دلیلوں، آئین اور مملکت سے وفاداری کی شق 5 کے بے جا استعمال کو بھی قابل اعتنا نہ سمجھا۔ 

آئین شکنی پہ عدالت عظمیٰ کا آئینی گھونسہ پڑنے پہ بھی ہمارے انصافیان کو چین نصیب نہ ہوا۔ تادم تحریر قومی اسمبلی کا خصوصی اجلاس عدالت عظمیٰ کے حکم پہ شروع ہوچکا ہے، لیکن عدالتی حکم کی رسمی تعمیل کے باوجود عدم اعتماد کی قرارداد پہ ووٹنگ کرانے کی آئینی ذمہ داری کو بلا چوں و چراں پورا کر نے کے باب میں لیت و لعل سے کام لیا جارہا ہے۔

اس سب غیر آئینی و غیر پارلیمانی تسلسل سے ظاہر ہے کہ اقتدار سے نکلتی تحریک انصاف اور اس کے قائد کو پارلیمانی نظام کی حرمت سے کوئی سروکار نہیں۔ اس کے وزیرداخلہ تو ’’جھاڑو پھرنے‘‘ کی امید لیے دہشتگردوں کی آمد کی سہولت کاری سے بھی شاید باز نہ آئیں۔ 

معاملہ فقط آئین کی پاسداری کا نہ تھا، بلکہ پارلیمانی نظام کی اندرونی جمہوری عملداری کو تلپٹ کرنے کا ہے جس کے طفیل عمران خان اپنی جماعت کی اکثریت نہ ہونے کے باوجود اتحادی جماعتوں کی مدد سے ایک منحنی اکثریت حاصل کر کے وزیراعظم کے منصب پر براجمان ہوپائے تھے۔ 

بالکل اسی جمہوری میکانزم کے تحت اکثریت حاصل کرنے پر متحدہ حزب اختلاف نے عدم اعتماد کی قرارداد پہ مطلوبہ آئینی شق اور قومی اسمبلی کے رولز کے تحت قومی اسمبلی میں رائے شماری کا مطالبہ کیا تھا۔ لیکن جب ہائوس کا محافظ اسپیکر اور اس کا ڈپٹی ہی پارلیمنٹ کی خود مختاری اور اراکین کے استحقاق کو پائوں تلے روند ڈالے اور اس پر عدالتی مداخلت پہ شور مچائے تو تحریک انصاف کے پلے کیا جمہوری و آئینی وصف باقی رہ جاتا ہے؟ اب عدالتی انصاف بھی قبول نہیں تو انصافیوں کی انصاف کی دہائی منافقانہ مکاری کے سوا کیا رہ جاتی ہے؟ 

وزیراعظم کے گزشتہ شب کے قوم سے اعصاب شکن خطاب سے ظاہر ہے کہ وہ قومی اسمبلی کے ایوان میں جمہوری شکست کو قبول کر نے کے لیے تیار نہیں ہوں گے اور اگلی منتخب حکومت کو تسلیم نہیں کریں گے اور سڑکوں پر بھوکےعوام کی روٹی کی مانگ پر جواب دینے کی بجائے انہیں خودداری پہ اکسا کر بغاوت پہ آمادہ کریں گے۔ بدقسمتی سے عمران خان کو سر پر چڑھانے والوں نے انہیں اتنا خود پسند بنادیا ہے کہ ان کی ’’مَیں‘‘ مملکت، آئین اور عوام الناس سے بڑی ہوگئی ہے۔

سہارا لیا بھی ہے تو ’’بیرونی سازش کا اور اپوزیشن کو غداری‘‘ کے کٹہرے میں کھڑا کر کے۔ ان کے تئیں اب قومی اسمبلی کی اکثریت اور ان کے سابقہ اتحادی بھی’’غدار وطن‘‘ ہیں۔ ان کی ’’آزاد خارجہ پالیسی‘‘ کے پلے روس کے ایک بے وقت دورے کی حماقت کے سوا ہے بھی کیا۔ 

ٹرمپ سے ملاقات کے بعد وہ امریکہ نوازی میں اتنے آپے سے باہر ہوئے تھے کہ اپنی امریکہ یاترا کو انہوں نے ’’ورلڈ کپ‘‘ جیتنے جیسی کامیابی قرار دیا تھا اور او آئی سی کے اجلاس کے بعد 24 مارچ کو امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری آف اسٹیٹ سے اپنی ملاقات میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پاک امریکہ تعلقات کے شادیانے بجائے تھے۔ 

پھر 27 مارچ کے جلسے میں اچانک وزیراعظم نے وہ پراسرار خط لہرایا تھا جس کے راز سے وہ سیاسی ضرورت کے تحت پردہ اٹھاتے رہتے ہیں کہ ان کے پرانے پٹے پٹائے بیانیے کو نئی آتش مہیا کی جاسکے۔ 

ضرورت تھی کہ کابینہ کی قومی سلامتی کی کمیٹی کے اجلاس میں خفیہ و سلامتی کے اداروں کی تحقیق کے حوالے سے بریفنگ سے ’’بیرونی سازش‘‘ کی طفلانہ کہانی کو ٹھنڈا کردیا جاتا۔ محض رائٹرز اور باوثوق ذرائع کے حوالے سے دی گئی وضاحتوں سے ریاستوں کے درمیان تعلقات کو پہنچنے والے نقصانات کا ازالہ نہیں ہوجاتا۔ 

اس کے لیے ایک واضح ریاستی سطح کے بیان کی ضرورت ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر اب پارلیمنٹ کو اس پر اپنا ایک ان کیمرہ اجلاس کر کے اس معاملے کی تحقیق کر کے کوئی واضح نتیجہ اخذ کرنا چاہیے۔ وگرنہ معیشت اور ملکی سلامتی پہ اس کے گمراہ کن سائے نت نئی مشکلات پیدا کرتے رہیں گے۔

اب آئینی تقاضہ ہے کہ نیا وزیراعظم جمہوری و آئینی طریقے سے چنا جائے۔ نئی مخلوط حکومت کو اور آئندہ وزیراعظم کیلئے ضروری ہے کہ وہ پانچ فوری فیصلے کرے۔ 

اول: پاکستانی سفیر کے خط پر ان کیمرہ اجلاس اور پارلیمنٹ کی حتمی رائے۔ 

دوم: آزادانہ، منصفانہ اور غیر متنازعہ انتخابات کیلئے انتخابی اصلاحات کا بل۔ 

سوم: انتخابات کے اسی سال انعقاد کا شیڈول تاکہ الیکشن کمشن 7 ماہ کے اندر اپنی تیاری مکمل کرسکے۔ 

چہارم: معاشی بحران کو حل کرنے کیلئے فوری اقدامات اور عوام کو ریلیف۔ 

پنجم: اس عبوری حکومت کا 100 روزہ ایجنڈہ۔ 

تحریک انصاف کی حکومت نے تو 43 مہینے کی حکومت کے دوران ایک روز بھی حزب اختلاف کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کی بجائے مسلسل دیوار سے لگائے رکھا اور پارلیمانی نظام کی بے توقیری میں کوئی کسرنہیں چھوڑی تھی۔ لیکن اگلی حکومت کو تحریک انصاف کی اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔ بدقسمتی سے لگتا ہے کہ عمران خان اقتدار سے نکلنے کے بعد ان کے دعویٰ کے مطابق زیادہ خطرناک ثابت ہوں گے۔ 

ان کی مہم جوئی اور خوفناک بیانیے کا توڑ تلاش کیا جانا ضروری ہے۔ اور اس کیلئے رائے عامہ کو ہموار کرنے کیلئے ایک متبادل جمہوری و عوامی بیانیہ ضروری ہے۔ اب تک تو اپوزیشن جانے کیوں اتنی دفاعی پوزیشن میں پھنسی ہوئی تھی۔ لیکن جوں جوں عمران خان آپے سے باہر ہوتے جائیں گے ان کا اینٹی کلائمیکس شروع ہوجائے گا۔ 

اپنی اسمارٹ، مختصر اور بہتر حکومت کے ذریعہ نئی حکومت یقینا عمران خان کے فسطائی غبارے سے ہوا نکال سکتی ہے بشرطیکہ یہ اپنے مختصر مینڈیٹ تک محدود رہتے ہوئے اگلے پانچ برس کیلئے ایک ایسا پائیدار اور عوام دوست ایجنڈا دے جسے عوام الناس کی قبولیت حاصل ہو۔ اگلے چند ماہ جمہوری تسلسل اور معاشی گرداب سے نکلنے کیلئے بہت اہم ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ نئی حکومت کیا کرتی ہے؟

تازہ ترین