پلے بوائے سیاست
ایک معروف سیاستدان نے کہا ’’اُس نے ایسا چھکا مارا کہ گیند گم کردی، لیکن گیند ڈھونڈنے والے ماہرین نے گیند اپنی کورٹ میں پھینک کر اس طرح سے کھیلا کہ سارا کھیل بحال ہو گیا‘‘۔ ہمارے ہاں اگر سیاست کے مطالب و مقاصد پر غور کیا جائے تو یہ عوام کی خدمت کے نام پر عوام کی مرمت یعنی پھینٹی ہے، پلے بوائے سیاست ایک نیا اضافہ ہے اور اس نے سب کچھ اپنے مطابق کرنے کے شوق میں قومی سیاسی آوا یعنی آئین کے مرتبے و منزلت کو بھی روند ڈالا، دریا میں رہنا اور مگرمچھوں سے بیر رکھنا کسی نازک اندام مچھلی کے لیے خطرناک ہوتا ہے۔ آئین و قانون اس دریا کے بہائو کا نام ہے جسے اگر سمجھ لیا جائے تو ہر مخلوق بڑے آرام سے دریا میں رہ سکتی ہے، ایک پلے بوائے سیاستدان نے آخر شب ایک سہانا خواب دیکھا، صبح ہوتے ہی سجدے میں گر گیا اور خواب کی تعبیر ہنگامہ خیز بنیادوں پر شروع کردی، اپنے اردگرد سیاسی دھول کا ہالہ بنا لیا، اس دھول میں اسے ہر چیز اپنی نظر آنے لگی، قصہ کوتاہ کہ پرانے کھلاڑیوں نے اناڑیوں کو پہلے اچھی طرح دیکھا، پرکھا پھر اس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا مگر اس نے ہاتھ جھٹک دیا، اللہ بھلا کرے گیند ڈھونڈ کر لانے والوں کا کہ آج آئین بھی ہے آئینہ بھی، سیاست درحقیقت قوم کے ہر طبقے کو صحیح سمت میں رواں دواں رکھنے کو کہتے ہیں لیکن اس ملک میں ہر راستہ اہلِ سیاست کے گھروں سے ہو کر جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ قوم جسمانی طور پر زندہ رہتی ہے اور ذہنی لحاظ سے نیم مردہ، ایسے میں پہلی بار پلے بوائے سیاست کی انٹری نے ہمارا نیم زندہ نیم مردہ اسٹیٹس بھی ہم سے چھین لیا، کچھ اچھے افراد نے اس طرزِ سیاست کو قوم کی مکمل بھلائی سمجھا، مگر تھوڑی دور ساتھ چل کر ساتھ چھوڑ دیا، یہ ہے وہ کہانی جو اکثر نے مانی اور کسی نے نہ جانی۔
٭٭٭٭
حسنِ اخلاق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
ہماری باقی ترقیوں کا احوال تو سب نے جان لیا، مگر زوال کی شناخت کھو دینے والوں نے روٹی کے ساتھ حسنِ اخلاق بھی ہم سے چھین لیا، سچ تو یہ ہے کہ اب وہ جو اخلاق سے پیش آتے تھے بداخلاقی سے بداخلاقی پر تبرا پڑھتے ہیں، ہم نے مگرمچھوں کو برا کہہ کر اپنے 74برس اور مانگے ہوئے سارے قرضے بھی ضائع کردیے، بداخلاقی ترقی کی ضد ہے، کوئی لیڈر ہتھیار کے ساتھ جنگ نہیں جیت سکتا، اقبال نے ہمیں ایک گُر بتایا تھا کہ ؎
صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے، پا بہ گِل بھی ہے
اِنہی پابندیوں میں حاصل آزادی کو تُو کر لے
مگر ہم نے اپنے آس پاس کے سارے صنوبر ہی اکھاڑ دیے۔ ہماری خوش اخلاقی نوزائیدگی ہی میں فوت ہو جاتی ہے، عام غریب آدمی اب بھی بااخلاق ہے، اس کے رزق پر ڈاکا ڈالا گیا وہ پھر بھی اللہ کاشکر ادا کرتا ہے، اربابِ سیاست کا رہن سہن دیکھیں، ان کا کروفر دیکھیں اور اقتدار کی ہوس دیکھیں، یوں لگتا ہے سونے کے سارے چمچے ان کے منہ میں اور بندۂ مفلس کے منہ فقط کلمۂ شکر، ہم اپنی امیری، غریبوں کو دکھانے کے لیے حاصل کرتے ہیں، گفتار و رفتار میں ایسا تکبر اور دشنام طرازی کہ عزازیل بھی حیران ہے کہ کن بداخلاقوں کو گناہ کرانے کی ڈیوٹی سونپی گئی ہے، ایک ایسا کلچر پیدا کردیا گیا ہے کہ جس کا پہلا حرف ہی اڑا دیا گیا، انا پرستی غصے کو جنم دیتی ہے اور غصہ گھرتو کیا پورے ملک کو پھونک دیتا ہے۔
٭٭٭٭
پیکا، پھیکا پڑ گیا
وہ کالا قانون جس نے آزادیٔ اظہار بھی چھین لیا تھا بالآخر صحافیوں کی جدو جہد سے پھیکا پڑ گیا، اور اللہ بھلا کرے عدلیہ کا کہ ہمارے بدن سے ایک اور کانٹا بھی نکال دیا، اب ضروری ہے کہ اپنی عدالتوں کو اس قدر سراہیں کہ ان کا حوصلہ بلند ہو اور وہ عدل و انصاف کا میٹھا پھل قوم کو کھلاتے رہیں، دوسرے پھل تو اب غریب عوام کی دسترس ہی میں نہیں رہے۔ پیکا کو کالعدم قرار دے کر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے حقائق تک رسائی کے لیے اظہار کے راستے کھول دیئے، حق گوئی و بیباکی تب ہی ممکن ہے کہ کوئی کلمۂ حق بلند کرے اور اسے پابہ زنجیر ہونے کا خوف نہ ہو، قوم کی زبان بندی کا مقدمہ صحافیوں نے لڑا اور جیتا، تھوڑی دیر کے لیے سوچیں کہ اگر میڈیا آزاد نہ ہو تو ہمیں تو یہ تک پتہ نہ چلے کہ کون ہمارا کان لے گیا، جبکہ ہمیں صرف اپنا کان چیک کرنے کی آزادی ہی حاصل ہو؟ ہمارے ایکبڑے سینئر اور دلیر صحافی نے اس جدوجہد میں وہ مقام بار ہا دیکھا جبکہ وہ کورٹ میں اکیلے کھڑے ہوتے تھے جبکہ یہ معاملہ صرف صحافیوں کا نہیں ساری قوم کے حق پرستوں کا تھا، اب معلومات تک رسائی کا راستہ بھی ہموار ہوگیا ہے تو میڈیا تارے توڑ کر ہمارے دامن میں ڈال سکے گا ، کوئی بات بات پر جیل نہیں جائے، تمام صحافی تنظیموں کو مبارک ہو کہ اب لب آزاد ہیں اس کے۔
٭٭٭٭
آبیل مجھے مار
...o امریکا نے عمران خان کے الزامات پھر مسترد کردیے۔اب بھی ہم گلیوں میں نکل پڑے ہیں کہ آبیل مجھے مار۔
...o فرح خان: سیاست سے تعلق ہے، نہ ہی سرکاری کام میں مداخلت کی۔
اس کے باوجود آپ کی شہرت کو چار چاند لگ گئے، ایسا وظیفہ ہمیں بھی بتا دیں کہ ہمیں بھی مشہور ہونے کا بڑا شوق ہےگویا؎
پھرتے ہیں میرؔ خوار کوئی پوچھتا نہیں
اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی
...o احسن اقبال: عمران میں اسپورٹس مین اسپرٹ نام کی کوئی چیز نہیں۔
آپ نے دانستہ بڑی رعایت سے کام لیا، مان گئے کہ دل بہت بڑا ہے۔
٭٭٭٭
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس
ایپ رائےدیں00923004647998)