• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سوال سمجھیے یا عرض، اگر آصف علی زرداری یا میاں نواز شریف اپنی تقریر میں بھارتی خودمختاری کی ایسے تعریف کرتے جس طرح عمران خان نے اپنی وزارتِ عظمیٰ کی ’’آخری‘‘ تقریر میں کی ہے، تو دوستوں کا ردِعمل کس قدر شدید اور عمران خان کا کس قدر ٹاکسک ہوتا؟

عرض اپنی جگہ، معصوم سی یاد انگڑائی لیتی ہے تو سامنے نظر آتا ہے کہ جہاز بھر بھر کر جہانگیر ترین ممبر لاتے تھے کہ پنجاب میں کسی نہ کسی طرح پی ٹی آئی کی حکومت بن جائے، پھر صاف دکھائی دیتا ہے کہ علیم خان سر توڑ کوشش کر رہے تھے کہ بس تحریک انصاف اوکھے سوکھے نکیل اقتدار تک پہنچ جائے کہ جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے! چوہدری سرور نون لیگ کی گورنری چھوڑ کر تحریک انصاف تک پہنچے اور اپنی لاتعداد ناکامیوں کے باوجود ان کی جیب میں ایک کامیابی تھی کہ یورپی یونین سے بطورِ خاص فوائد سمیٹ کر حکومتی جھولی میں ڈالے۔ عمرانی خیالاتِ عالیہ کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ تینوں بھی یقیناً امریکہ کے ہاتھ چڑھ گئے۔ ٹھہریے! علیم و ترین تو تحریکِ عدم اعتماد مارکیٹ میں آنے سے قبل کے قبلہ سے نالاں تھے۔ آپس کا پیار سیاسی مار دھاڑ تک وسعت اختیار کر گیا، پھر اپنے ہی متعدد لوگ ناراض ہو گئے جنہوں نے منحرف سے غدار تک کے لقب پائے، کبھی کبھی تو لگتا ہے منیر نیازی نے کم از کم یہ مصرع تو جیسے واجب الاحترام عمران احمد خان نیازی ہی کیلئے کہا ہو: ’’میں جسے پیار کرتا ہوں اسی کو مار دیتا ہوں!‘‘

بہرحال، اگلی پچھلی کڑیاں ملائیں تو حاضر سروس مرشد کی حالیہ اور سابقہ گفتگوؤں سے گیس لائٹنگ کی بو آتی ہے، ویسی ہی گیس لائٹنگ (Gaslighting) جو ڈونلڈ ٹرمپ کے ہم نواؤں کے سیاسی کھیل کا حصہ تھی۔ گیس لائٹنگ کا اختصاری بیان ہے ’’جھوٹ اس قدر بولو کہ آخر کار سچ کا گمان ہونے لگے‘‘۔ کہتے ہیں حضرت یوسف علیہ السّلام نے جب اپنے مخالفین کی یکے بعد دیگرے پیش گوئیوں کو غلط ثابت کیا، پھر بھی وہ آخر دم تک نئی بات تراشتے رہے ،اس کے باوجودسب باتیں پیوند خاک ہوئیں۔ تاریخ کہتی ہے بالآخر یوسف علیہ السلام نے ان سے پوچھا کہ آپ اس قدر بےبنیاد کیوں بولتے رہے تو ان کا کہنا تھا، ہم نے اتنی کثرت سے ادھر ادھر کی ماریں کہ ہم خود بھی اپنے ہی فریب میں گرفتار ہو گئے۔ گویا گیس لائٹنگ بھی دلفریب ٹھہری جس کے سہارے ٹرمپ کے اقتدار کو آکسیجن ملتی رہی لیکن یہاں تو معاملہ ہی مختلف ہے، اتحادی بےوفائی کی تاب نہ لاتے ہوئے علیحدگی اختیار کر گئے، بلوچستان عوامی پارٹی، ایم کیو ایم، آزاد اراکین اور دیگر بےاعتنائی اور جگ ہنسائی کی تاب نہ لا سکے مگر سرکار کہتے ہیں امریکی سازش ہے، کون کہتا ہے ایم کیو ایم اور بلوچستان عوامی پارٹی جیسی سیاسی جماعتیں ’’اپنوں‘‘ کو چھوڑ کر امریکہ کی جانب لپکنے کی جرات کر سکتی ہیں، اتنی بھی دور کی کوڑی نہ لائیے کہ دم ہی نکل جائے۔ پھر اندر پڑا نواز شریف بھی خطرناک، باہر بھیجیں تو وہ امریکہ سے ساز باز کی صلاحیت رکھتا ہو، یہ اپنی پہلی حالت دکھا رہے ہو یا شریفوں کی عالمی سیاست چمکا رہے ہو؟ یہ بھی زیادہ لمبی نہیں چھوڑ دی گئی؟ کیا اپنا اٹارنی جنرل بھی خط کی زلف کا اسیر ہوا جو محبت میں لیٹر گیٹ پکارا جانے لگا ہے؟

کوئی بتلائے تو عمران خان کون سی لینڈ سلائیڈ وکٹری سے آئے؟ کون سا بم اور میزائل بنا ڈالا یا چلا ڈالا کہ شرق و غرب خطرے سے دوچار ہو گئے؟ کون سا پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنا دیا کہ امریکی معیشت زیرِعتاب آگئی؟ عالم یہ کہ سی پیک تک پر کام رُکا ہوا ہے۔ کوئی جنگی جنون کی شہادت تک نہیں بلکہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے متعلق تو خان نے واضح کہا تھا کہ مودی الیکشن جیت کر آئے گا تو مسئلہ کشمیر حل ہو جائے گا۔ یہ ایک قسم کی قبل از انتخابات بالواسطہ اور بلاواسطہ سپورٹ تھی! اور محبت کیا ہوتی ہے؟آزاد جموں و کشمیر حکومت اور مقبوضہ کشمیر کے عوام نے وزیر اعظم سے سن لیا ہو گا کہ بھارت بڑی خوددار ریاست ہے اور اپنی خود داری کا یہ عالم کہ کٹورا اُٹھا کر پوری دنیا ہم گھومے، یہاں تک کہ افغانستان سے بھی امداد لی، اسٹیٹ بینک کو عالمی اداروں کے رحم و کرم پر چھوڑا، آئی ایم ایف کی شرائط کے سامنے سر تسلیم خمکیا، پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں!

قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو، آئین کی دھجیاں بکھیر دیں، اخلاقیات پامال کردیں، روز روشن کی طرح واضح اپوزیشن کی اکثریتی تحریک عدم اعتماد کا سامنا غیر جمہوری اور غیر قانونی و غیر آئینی سلیقے سے کریں، سپریم کورٹ کے فیصلے کا کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ غیر آئینی تھی، سامنا غیر اخلاقی و غیر حقیقی سلیقے سے کریں، حالانکہ عدالت نے تو فیصلہ قانون اور آئین کے تحت ہی کرنا تھا، سیاسی و سماجی یا مخصوص خواہش کی بنیاد پر نہیں۔ پھر بھی طمطراق اور طنطنے والے طریقے سے دھاڑتے پھریں، اور نمبرداری اور تیس مار خانی کیا ہوتی ہے؟ الا ماشاء اللہ اوپر سے تاثر دیں کہ پورا عالم ایک طرف اور عمران خان ایک طرف، اس بات میں لطافت تو نظر آتی ہے مگر صداقت نہیں! کمال نہیں یہ گیس لائٹنگ کا، تو کیا ہے؟

دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ

تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین