• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وطن عزیز پاکستان مسائل کے گرداب کا شکار ہے۔کراچی،قبائلی علاقے اور بلوچستان میں امن بحال کرنے کے حکومتی اقدامات کو عوامی سطح پر پذیرائی ملی ہے۔اندرونی و بیرونی دہشت گردی کے عفریت سے نمٹنے کیلئے کوئی راہ سجھائی نہیں دے رہی تھی۔بالآخر نوازشریف حکومت کے ہاتھ میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کی صورت میں ایک سراآگیا ہے۔پوری پاکستانی قوم نے ایک لمبے عرصے کے بعد سکھ اور چین کا سانس لیا ہے۔اب یہ امید بندھ چلی ہے کہ پاکستان کاامن بحال ہوگااورنام نہاد”امریکی جنگ“سے چھٹکارا حاصل ہوگا۔”آل پارٹیز کانفرنس“کا انعقاد بلاشبہ ایک قابل قدر کاوش ہے۔اے پی سی کو کامیاب بنانے کیلئے اس کی قرارداد پرمن و عن عملدرآمدکی فوری ضرورت ہے۔ وفاقی حکومت خلوص دل کے ساتھ ”آل پارٹیز کانفرنس“کے فیصلوں پر عملدرآمد کویقینی بنائے۔
نائن الیون کے واقعہ کو بارہ سال مکمل ہوچکے ہیں۔ دہشت گردی کے نام پر اس”امریکی جنگ“میں پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑاہے۔پاکستانی معیشت کو100ارب ڈالر کازبردست دھچکا لگا۔40ہزار قیمتی جانیں اس”آگ و خون“کے کھیل میں ضائع ہوئیں۔ پاکستان کی اقتصادی شہ رگ اور عروس البلاد کراچی ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، بوری بند لاشوں اور نوگوایریاز کی وجہ سے شدید متاثر ہوا ہے۔ گزشتہ 25سالوں سے کراچی کا امن تہہ و بالا ہے۔ روشنیوں کا شہر تاریکی اور خوف کا منظر پیش کررہا ہے۔ان حالات میں کراچی میں وفاقی حکومت نے رینجرز اور پولیس کے ذریعے”ٹارگٹڈ آپریشن“کا فیصلہ کرکے بظاہر کراچی کے امن کو بحال کرنے کی طرف سنجیدہ مثبت پیشرفت کی ہے لیکن کراچی کا امن صرف اس صورتحال بحال ہوسکتا ہے کہ کراچی میں ”ٹارگٹڈ آپریشن“ بغیر کسی سیاسی دباؤکے کیا جائے۔ کراچی میں بھتہ مافیا، ٹارگٹ کلنگ اور جرائم کی وارداتوں میں جو لوگ ملوث ہیں ان کے خلاف کسی سیاسی دباؤ میں آئے بغیر آپریشن کیا جائے اور انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔کراچی میں فوجی آپریشن کیلئے فضا ہموار کی گئی تھی۔وفاقی حکومت اور سیاسی جماعتوں کی قیادت نے بالغ نظری اور دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فوجی آپریشن سے احتراز کیا۔”فوجی آپریشن“ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہوتا۔ماضی میں بھی فوجی آپریشنوں کے اچھے نتائج نہیں نکلے۔دلچسپ امر تو یہ ہے کہ اس بار ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے بھی کراچی میں ”فوجی آپریشن“ کی حمایت کی۔ملک کے سنجیدہ قومی و سیاسی حلقوں کو ایم کیو ایم کے فیصلے سے حیرت ہوئی۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ امریکہ نے2014ء میں افغانستان سے ”رخصت“ ہونا ہے۔ امریکی و نیٹو فورسز کو کنٹینرز بحفاظت نکالنے کیلئے محفوظ راستہ چاہئے۔ کراچی کو 2014ء تک فوج کے کنٹرول میں دینے کا پروگرام امریکی ”گیم پلان“ کا حصہ ہے۔ اگرچہ امریکی سفارتخانے نے اپنے 19ہزار کنٹینرزکے چوری ہونے کی تردید کردی ہے لیکن اس کے باوجود کراچی میں پولیس نے انکشاف کیا ہے کہ کراچی میں بھاری تعداد میں امریکی اسلحہ پکڑا گیا ہے۔ ماضی میں نوازشریف حکومت سے ایسی غلطیاں سرزد ہوئیں جن کا خمیازہ انہیں بھگتنا پڑا۔ اس مرتبہ کراچی میں”فوجی آپریشن“کا فیصلہ نہ کرکے وزیراعظم نوازشریف نے فہم و فراست کاثبوت دیا ہے۔ان کے گزشتہ دور حکومت میں فوج کو”میٹرریڈنگ“ کے کام پر لگا دیا گیا۔فوج کوسول حکومت کے کاموں میں حد درجہ شامل کرنے کے نقصانات بالآخر ان کی حکومت کو اٹھانے پڑے۔اس مرتبہ اگر امریکی سی آئی اے کے ”گیم پلان“ پر عملدرآمد کردیا جاتا توجلد یا بدیر سول حکومت کو ایک بار پھر ”جمہوریت“ سے ہاتھ دھونا پڑتے۔ پاکستان کی سول قیادت کے ساتھ ساتھ عسکری قیادت نے بھی کراچی میں ”فوجی آپریشن“ سے گریز کرکے دانشمندنہ بصیرت کا مظاہرہ کیا ہے۔ پاکستان کی عسکری قیادت ملک سے ”امریکی مداخلت“ کا مکمل طور پر خاتمہ چاہتی ہے۔ امریکہ پاک فوج کو قبائلی علاقوں، بلوچستان اور کراچی میں الجھا کراپنے مذموم عزائم کی تکمیل چاہتا ہے۔ وہ افغانستان میں اپنی بدترین شکست کا بدلہ پاکستان کو ناکام ریاست قرار دے کر حاصل کرنا چاہتا ہے۔ وہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو اپنے کنٹرول میں لینا چاہتا ہے۔پاکستان کی سول اور فوجی قیادت امریکہ کے اس ”سازش“سے پوری طرح باخبر ہے۔ حکومت پاکستان کا افغان طالبان کو رہاکرنا اور پاکستانی طالبان سے مذاکرات کاعمل اس بات کی علامت ہے کہ ہماری سول و فوجی قیادت نے مزید امریکی دباؤ قبول کرنے سے انکار کردیا ہے۔اب صرف پاکستان کی پہلی ترجیح ملک میں امن وامان کا قیام ہے۔جب تک امن وامان کا قیام ممکن نہیں ہوتاملکی معیشت کی بحالی بھی نہیں ہوسکتی۔امریکہ اس کا جواز حاصل کرنا چاہتا ہے کہ پاکستان کی سول اور فوجی قیادت مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہیں اور پاکستان کاایٹمی پروگرام محفوظ ہاتھوں میں نہیں ہے۔امریکہ افغانستان سے ”زخمی سانپ“کی مانند جاتے جاتے ہمیں ڈسنا چاہتا ہے۔ اب یہ پاکستان کی سول اور فوجی قیادت کا کڑا امتحان ہے کہ وہ امریکی ”چنگل“ سے نکلے۔ڈرون حملوں کے خلاف آل پارٹیزکانفرنس کی قرارداد کے مطابق سلامتی کونسل سے فوری رجوع کیا جائے۔ طالبان سے مذاکرات صرف اسی صورت کامیاب ہوسکتے ہیں جب پاکستان سے ڈرون حملوں کا مکمل طور پر خاتمہ ہو۔امریکہ کو سرکاری سطح پر یہ واضح پیغام دینا چاہئے کہ اگر ڈرون حملے نہ رکے توپاک فضائیہ ”ڈرون“ گرادے گی۔
دنیا میں قومیں عزت و وقار سے جیتی ہیں۔ امریکی ڈرون حملے ہمارے عزت و وقار اور قومی سلامتی پر حملے کے مترادف ہیں۔مقام حیرت یہ ہے کہ CIA ایجنٹ شکیل آفریدی کو سزادینے پر امریکہ نے پاکستان کی امداد روک دی تھی لیکن ہماری حکومت سیکورٹی رسک قرار دیئے جانے والے امریکی سفارتخانہ کی تعمیر نہیں روک سکی۔ تشویشناک امر یہ ہے کہ وائٹ ہاؤس کا رقبہ 51ایکڑہے لیکن اسلام آباد میں امریکی سفارتخانہ کا رقبہ 56ایکڑ ہے جبکہ زیر زمین کنکریٹ کے بنکرز بھی زیر تعمیر ہے۔ حکومت پاکستان کو اس جانب فوری توجہ مرکوز کرنی چاہئے کہ اسلام آباد کے حساس علاقے میں8منزلہ اونچی عمارت کی تعمیر کی اجازت امریکیوں کو کسی طرح ملی؟ پاکستان میں امریکی اثرورسوخ کوختم کرنے کے لئے ”امریکی سفارتخانے“ کی خفیہ سرگرمیوں کا پاکستانی سول اور فوجی قیادت کو فوری نوٹس لینا چاہئے۔امن و امان کی صورتحال کوبہتر بنانے کے ساتھ نوازشریف حکومت کو انرجی کے بدترین بحران پر بھی اپنی توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔ 11مئی کے بعد نئی حکومت لوڈ شیڈنگ کے بحران کو قابو پانے میں ناکام رہی ہے۔ لوڈشیڈنگ کے بدترین بحران سے انڈسٹری کا پہیہ جام ہوچکا ہے۔ اقتصادی صورتحال بھی بہتر نہیں ہو پار ہی۔ کاروبار زندگی عملاً مفلوج ہوچکا ہے۔رہی سہی کسر سیلاب کی تباہ کاریوں اور انتظامی فقدان نے نکال دی ہے۔پاکستان کو اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے چاروں موسم میسرہیں۔بارشوں کا سیزن بھی بھرپور ہوتا ہے۔تعجب خیز امر یہ ہے کہ ہر سال برسات سے قبل کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں کی جاتی۔گزشتہ سالوں کی طرح اس بار بھی سیلاب سے ہزاروں دیہات زیر آب آگئے، لاکھوں ایکڑ پر فصلیں تباہ و برباد ہوگئیں۔بڑے پیمانے پر افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ہزاروں مویشی سیلابی پانی میں بہہ گئے۔لمحہ فکریہ یہ ہے کہ بھارتی ”آبی جارحیت“کا مقابلہ بھی ہمارے ارباب بست و کشاد نہ کرسکے۔بھارت نے چھوٹے بڑے 62سے زائد ڈیم بنالئے ہیں۔اس نے مستقبل کی اچھی منصوبہ بندی کی ہے۔اس کے برعکس پاکستان نے”ڈیموں“کے سلسلے میں صرف سیاست کی ہے۔ماضی کی کئی حکومتوں نے اس جانب سنجیدگی سے توجہ نہیں دی۔پاکستان میں اب برسراقتدار نواز شریف حکومت کا یہ فرض ہے کہ ڈیموں کے مسئلے کو سنجیدگی سے لیا جائے۔چاروں صوبوں اور آزادکشمیرمیں چھوٹے بڑے ڈیم تعمیر کرکے پانی جیسی نعمت کو ضائع نہ ہونے دیا جائے۔ باران رحمت کو زحمت بننے سے بچایا جائے۔ بھارت سندھ طاس معاہدے کی کھلی خلاف ورزی کا مرتکب ہورہا ہے۔ اس نے پاکستانی دریاؤں پر ڈیم بنا کر ہمارے حصے کے پانی پر بھی”ڈاکہ“ ڈالنا شروع کیا ہے۔ پاکستان کو عالمی عدالت انصاف کا دروازہ کھٹکھٹانا چاہئے۔ 2014ء میں افغانستان سے امریکی و نیٹو فورسز کے انخلا کے بعد پاکستان سمیت جنوبی ایشیاء میں امن بحال ہوگا۔ انشاء اللہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں امن اور افغانستان سے امریکی و نیٹوفورسز کے انخلاء کے حوالے سے خوش آئندتبدیلیوں کے دورکا آغاز ہوگیا ہے۔اس کے اثرات پورے خطے پر پڑیں گے۔ قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں امن سے کراچی کے حالات بھی بہتری کی جانب مائل ہوں گے۔ کراچی کا مسئلہ مقامی حد تک ہے۔وفاقی حکومت کراچی میں ”ٹارگٹڈآپریشن“کو کسی سیاسی دباؤمیں آئے بغیر مکمل کرے اور جرائم پیشہ عناصر کا تعلق کسی سیاسی تنظیم یاپارٹی سے بھی ہواسے بلاامتیاز گرفتار کرکے نشانہ عبرت بنایا جائے، کراچی کی رونقیں دوبارہ لوٹ سکتی ہیں اور کراچی ایک بار پھر روشنیوں کا شہربن سکتا ہے۔
تازہ ترین