• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جلیلہ حیدر ہزارہ برادری کی خاتون وکیل اور انسانی حقوق کی معروف کارکن ہیں، وہ بیان کرتی ہیں کہ جب ہزارہ برادری جنازے رکھے احتجاج کر رہی تھی تو اس وقت شیخ رشید ان کے ایک وفد سے ملے ۔وفد کے ایک شخص نے اپنے خالص فارسی لہجے میں شیخ صاحب کو مخاطب کر کے کہا کہ اے صاحب، تو شیخ صاحب نے رعونت بھرے لہجے میں دھتکارتے ہوئے کہا کہ مجھ سے جاہلوں کی زبان میں بات مت کرو جو پاکستان میں بسنے والی کثیر لسانی اقوام کو، خاص کر ان کو، جن کے سامنے ان کے اپنوں کے لاشے پڑے ہوں، کی استدعا کو جاہلوں کا لہجہ کہے، ان کے لیڈر عمران خان جنازے پر کھڑی معصوم بچیوں کو بلیک میلر کہیں اور جنازوں پر پہنچنے سے انکار کر دیں، وہ آج جگہ جگہ پہنچنے کے باوجود خود دھتکارے ہوئے بن چکے ہیں اور کوشش کر رہے ہیں کہ اس دھتکار کو ایک نیا رنگ دے سکیں اور پاکستان میں موجود امریکا مخالف جذبات کو اپنے حق میں استعمال کرکے ایک نیا رنگ دینے کی حکمتِ عملی پر گامزن بھی ہیں۔ چاہے اس کے نتیجے میں پاکستان کے لیے سفارتی مشکلات میں غیرمعمولی اضافہ ہی کیوں نہ ہوجائے جیسے اس وقت امریکا میں پاکستان کے سفیر مسعود خان کو پاکستان کے لیے امریکا میں لابنگ کرنے میں شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیوں کہ ان سے یہی سوال کیا جا رہا ہے کہ عمران خان ان کے ملک کے خلاف جذبات کیوں بھڑ کا رہے ہیں اور مسعود خان کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے ۔ لیکن ان کا یہ رویہ صرف ابھی ہاتھ پاؤں مارنے تک محدود نہیں ہے بلکہ ان کے اقتدار میں آنے کے وقت سے لے کر ہی ان کی دو بڑی ناکامیاں تیزی سے سامنے آنا شروع ہوگئی تھیں ایک تو معاشی میدان میں ،ان کی معاشی ٹیم نے جھوٹے وعدے اور دعوے کیے تھے جب کہ جان بوجھ کر چین سے تعلقات کو خراب کرنے کےلئے سی پیک کو نقصان پہنچایا گیا اور بے سمت خارجہ پالیسی کا طریقہ کار اختیار کیا گیا ۔ یہ بات یقینی طور پر بہت افسوسناک ہے کہ یورپی سفیروں نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا کھلا خط تحریر کیا مگر اس کی وجہ تلاش کرنی چاہیے کیونکہ عمران حکومت کے قیام سے قبل پاکستان کی تاریخ میں کبھی کسی کو ایسی جرأت نہ ہو سکی تو اب کیوں ہوئی ؟ صرف یہ ایک ہی واقعہ کافی ہے یہ ثابت کرنے کے لئے کہ ہم ان گزشتہ تقریبا چار سال میں خارجہ محاذ پر کس حد تک کمزوری کا شکار ہو چکے ہیں اور اس کا ہم نے شکار ہونا ہی تھا جب ہم نے اپنے عزیز ترین دوست چین کو خود سے دور کر لیا ۔سی پیک کو جان بوجھ کر سست روی کا شکار کر دیا گیا ،جے سی سی جو سی پیک پر فیصلہ ساز ادارہ ہے اس کے اجلاس منعقد نہ کیے گئے بلکہ اس میں روڑے اٹکائے گئے ۔ ایم ایل ون منصوبہ صرف آج بھی کاغذوں میں موجود ہے خود عمران کی کابینہ کے ایک رکن نے کہا کہ گزشتہ تین سال سے سی پیک پر کوئی کام نہیں ہوا جب کہ ایک صاحب تو کھلے عام سی پیک کو منجمد کرنے کی باتیں کر رہے تھے۔ بھیانک غلطیاں صرف چین کے معاملے میں ہی نہیں ہوئیں بلکہ ایسے دعوے کیے جانے لگے کہ میں عالم اسلام کا لیڈر بن چکا ہوں اور اب میں ایک علیحدہ گروپ تشکیل دوں گا ۔ یہ کوئی مذاق ہے کہ جو منہ میں آیا، کہہ دیا ۔ دو برادر مسلمان ملک کے ساتھ ایک اجلاس کے لئے تاریخ بھی مقرر کر دی مگر جب ایک دوسرے برادر مسلمان ملک نے ناراضی کا اظہار کیا تو اجلاس ہی ترک کردیا کیونکہ یہ ڈرامہ تیار کرتے وقت بڑھکیں ہی بڑھکيں تھیں۔ کوئی حکمتِ عملی ، نفع و نقصان کے پہلو سامنے نہیں رکھے گئے تھے لہٰذا ان ممالک سے تعلقات کو نچلی سطح پر لانے اور شک و شبہ کے بادل برسا نے کے عمل کا حصہ بن گئے۔ امریکا کی مخالفت کو حکومت کی رخصتی بیان کرنے والوں کے دور میں امریکا کو اپنے سے ہٹ کر افغان طالبان تک رسائی دی جس کے بعد ہم بہت سارے معاملات میں سوتیلے ہوگئے۔ امریکا کو سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ وہ افغانستان سے اپنے فوجیوں اور آلاتِ حرب کا مکمل تحفظ کے ساتھ انخلا چاہتا تھا ۔ اس میں بھرپور تعاون کیا گیا ہر طرح کا ناز نخرہ اٹھایا گیا مگر جواب میں ہم ابھی تک ایف اے ٹی ایف کے معاملات بھگت رہے ہیں اور گرے لسٹ میں ہیں ۔ عافیہ صدیقی اسی طرح قید کاٹ رہی ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ دوسرے ملکوں سے مداخلت کا یہ عالم ہے کہ ایک برادر مسلمان ملک سے براہ راست مدد کی اپیل کی گئی کہ وہ تحریکِ عدم اعتماد کو ناکام بنانے کےلئے متحرک ہو ۔ شنید ہے کہ کرپشن کرپشن کا نعرہ لگانے والوں نے ناصرف سرکاری افسروں کی تعیناتی کے لیے باقاعدہ ریٹ مقرر کر رکھے تھے بلکہ ان کے ساتھ غیر ملکی دوروں پر جانے والے اس حد تک کرپشن میں سنجیدہ تھے کہ اپنے میزبانوں کو بھی یہ سکھانے لگے تو میزبانوں نے بھری میٹنگ سے اٹھا دیا کہ یہ شخص ناقابلِ برداشت ہے مگر پھر بھی وہ عمران خان کا ابھی تک رائٹ ہینڈ ہے ۔ ان تمام نقصانات کے نتائج معاشی میدان میں سامنے آتے ہیں اور مہنگائی عوام کی کمر توڑ دیتی ہے ۔ اس لئے نئی حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہئے کہ معاشی میدان میں منزل حاصل کرنے کے لیے کمر کس لے کیونکہ ہر مشکل کی یہی چابی ہے ۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ بغیر کسی تاخیر کے اسحاق ڈار کے ذمے ملک کے معاشی اہداف کا حصول لگا دیا جائے کیونکہ ماضی گواہ ہے کہ اسحاق ڈار کی کارکردگی ڈالر کی قیمت کو ایک حد میں رکھنے ، مہنگائی کو کنٹرول کرنے اور ٹیکس کلیکشن میں سب سے زیادہ شاندار رہی ہے کیونکہ معاشی کامیابیاں ہی دوبارہ بے گناہ بچوں کو جنازوں کے ساتھ دھرنا دینے سے محفوظ رکھ سکتی ہیں ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین