• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم غریبوں نے مفروضہ گھڑ رکھا ہے کہ امیر لوگوںکو طرح طرح کی بیماریاں لاحق ہوتی ہیں ۔ وہ ڈاکٹروں کی ہدایت کے مطابق انتہائی پرہیزی اور پھیکا سا کھانا کھانے پر مجبور ہیں اور اللہ کی نعمتوں سے مستفید نہیں ہو سکتے ۔ نیز دولت کی پریشانیوں کے سبب انہیں نیند نہیں آتی اور وہ خواب آور گولیاں کھا کر بھی رات بھر بے چینی سے کروٹیں بدلتے ہیں ۔ جبکہ اس کے مقابلے میں غریب آدمی صحت مند ہوتا ہے ،وہ جو چاہے کھا سکتا ہے اور پر سکون نیند سوتا ہے ۔ یہ بالکل بکواس مفروضہ ہے ۔ دولت ہاتھوں کی میل نہیں ، دنیا کی مسلمہ حقیقت ہے اور باقی باتیں کتابی افسانے ۔ متمول لوگ ہر گز بیماریوں کا گڑھ نہیں ہوتے ۔ وہ صحت مند اور چاق و چوبند ہوتے ہیں ، جنہیں معمولی دانت درد کے لئے بھی اندرون و بیرون ملک جدید ترین علاج کی سہولتیں حاصل ہوتی ہیں۔ جبکہ ’’صحت مند‘‘ غریب آدمی کی رسائی سرکاری اسپتال تک ہے ، جہاں اسے دو نمبر اسپرین بھی دھکے کھا کر میسر آتی ہے ۔ خود فریبی کا شکار یہ غریب اور سفید پوش جب تنگ دستی کی بنا پر اپنے بچے کا بڑے پرائیویٹ اسپتال سے علاج نہیں کر اسکتے تو مفروضہ گھڑتے ہیں کہ بڑے ڈاکٹر ڈھیر ساری گرم دوائیں لکھ دیتے ہیں ، جو مریض کا کباڑا کر دیتی ہیں ۔ حقیقت میں امیر لوگ پھیکا کھانا نہیں بلکہ غذائیت اور وٹامنز سے بھرپور اللہ کی نعمتوں سے صحیح معنوں میں مستفید ہوتے ہیں ، جن کے دستر خوان پر ایک دن کے لئے چنی گئی ان نعمتوں کی مالیت غریب کے کچن کے مہینے بھر کے بجٹ سے زیادہ ہوتی ہے ۔ یہ بھی فریب ہے کہ غریب جو چاہے کھا سکتا ہے ۔ وہ جو چاہے دیکھ تو سکتا ہے مگر کھا صرف روکھی سوکھی ہی سکتا ہے ، وہ بھی ملاوٹ زدہ ۔ جہاں تک پرسکون نیند کا تعلق ہے تو اس سے بھی فقط متمول لوگ ہی اپنے لگژری بیڈ رومز میں لطف اندوز ہوتے ہیں ، جن کے گھر ،دفتر اور گاڑیاں تک ایئر کنڈیشنڈ ہوتی ہیں ۔ اس کے مقابلے میں غریب اور لوئر مڈل کلاسیئے دن کو آگ برساتے سورج تلے مزدوری کرتے ہیں اور رات لوڈ شیڈنگ میں گرمی اور مچھروں سے حالت جنگ میں جاگ کر اپنے بلبلاتے بچوں کو دستی پنکھے جھلتے گزارتے ہیں ۔ ان سادہ دلوں کے فرشتوں کو بھی خبر نہیں کہ صحت ، تعلیم ، علاج معالجہ ، موج میلہ ، عیاشی اور پرسکون نیند کن بلائوں کے نام ہیں ؟کسی امیر آدمی کے تروتازہ اور غریب کے پر مژدہ چہرے پر ایک نظر ڈالنے ہی سے اس مفروضے کی مٹی پلید ہو جاتی ہے ۔ پس ہم غریبوں کو بھی اس لغو مفروضے کی دُم کے سہارے اکڑنے کی بجائے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر امیر بننے کی کوشش کرنی چاہئے۔
آئے روز ٹریفک کے حادثات میں کئی لوگ مرتے ہیں ۔ مفروضہ ہم نے گھڑ رکھا ہے کہ مرنے والی کی تقدیر یونہی لکھی تھی ، لہذا قاتل ڈرائیور کو فی سبیل اللہ معاف کر دیا جاتا ہے ۔ بجا ، لیکن سوال یہ ہے کہ جن ملکوں میں ٹریفک قوانین کی پابندی کی جاتی ہے وہاں تقدیر تھوک کے حساب سے لوگو ں کو کیوں نہیں نگلتی ؟ حادثات کے عینی شاہدین کہتے ہیں کہ یوں محسوس ہوا ، جیسے مرنے والے کی موٹر سائیکل کو کسی نادیدہ طاقت نے اٹھا کر عین ٹرک کے سامنے ڈال دیا۔ یہ بالکل بودا مفروضہ ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ حادثہ ہمیشہ مرنے یا مارنے والے کی غفلت ، لا پروائی ، تیز رفتاری ،بد معاشی اور ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کی بنا پر ہوتا ہے ۔ اگر ڈسپلن اور قانون کی عملداری ہو ، ان پڑھ اور بلا لائسنس ڈرائیوروں کو ڈرائیونگ سے روک دیا جائے اور ڈرائیونگ لائسنس صرف تربیت یافتہ ( اس میں ڈرائیونگ کے علاوہ انسانیت کی تربیت بھی شامل ہے ) لوگوں کو جاری کئے جائیں تو تقدیر کا رخ موڑا جا سکتا ہے۔ اگر کوئی گھامڑ رانگ سائیڈ سے گاڑی کو کراس کر رہا ہے یا ایک ہاتھ سے موٹر سائیکل چلاتے ہوئے ، دوسرے ہاتھ میں پکڑا موبائل کان سے لگائے ’’ ہور سنا فیر‘‘ کا ورد کرتے حادثے کا شکار ہو جاتا ہے تو اس میں تقدیر کا کیا دوش ؟
ایک دلچسپ مفروضہ ہم نے گھڑ رکھا ہے کہ آج کا پوسٹ گریجویٹ نوجوان علم میں پرانے زمانے کے آٹھ جماعت پاس بزرگ کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ یاد رہے کہ پرانے زمانے کے تعلیم یافتہ سے مراد وہ افراد ہیں ،جنہوں نے ’’پیجن=کبوتر، اُڈن =فلائی ‘‘ جیسے اسلوب سے انگریزی سیکھی تھی اور آج جب انہیں موبائل یا انٹر نیٹ کا شوق چراتا ہے تو پانچویں جماعت کے طالب علم اپنے پوتے کو آواز دے کر کہتے ہیں ’’پتر ! اے مینوں سمجھائیں نا ذرا ‘‘ …کیا احمقانہ مفروضہ ہے صاحب ۔ کیا فقط سات ، آٹھ برس تک اردو ، انگریزی اور حساب کی کتابوں سے کشید کیا گیا علم اتنی بڑی بلا ہے کہ آج کے او لیول ، اے لیول ،انفارمیشن ٹیکنالوجی، کمپیوٹر سائنس ، میڈیکل سائنس ، جیولوجیکل سائنس ،سافٹ ویئر انجینئرنگ ، بائیو انفارمیٹکس، آئی سی ایم اے اور بزنس ایڈمنسٹریشن جیسے لاتعداد محیرالعقول شعبوں کی جدید تعلیم اس کے سامنے ہیچ ہے ؟ جہاں تک اس الزام کا تعلق ہے کہ آج کا گریجویٹ ہاتھ سے درخواست بھی نہیں لکھ سکتا تو گزارش ہے کہ اس ڈیجیٹل عہد میں ہم نے اپنے بوسیدہ نصاب میں فیس معافی کی درخواستوں ، والد کے نام تعلیمی اخراجات کے منی آرڈر بھیجنے جیسے خطوط اور مسخ شدہ تاریخ کو خواہ مخواہ گھسیڑ رکھا ہے ۔ انٹر نیٹ کے عہد میں ایسے ’’ علوم ‘‘قدیم المیعاد ہو چکے ہیں ، جن کا عملی زندگی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ۔ ہمیں ان دیمک زدہ چیزوں کی بجائے اپنے بچوں کو صحیح تاریخ اور جدید سائنسی تعلیم دینے کی کوشش کرنی چاہئے ۔
ایک اور سفاک مفروضہ ہم نے گھڑ رکھا ہے کہ تشدد کے بغیر بچہ علم حاصل نہیں کر سکتا۔ یہ غیر انسانی مفروضہ بڑا قدیم ہے ،جو دیہات میں آج بھی رائج ہے کہ بچے کو کسی جلاد نما ماسٹر یا مولوی کے حوالے کر کے کہا جاتا ہے کہ بچے کی ہڈیاں ہماری اور گوشت تمہارا۔ اس ظالمانہ مفروضے کے تحت میڈیا میں اکثر کسی ا سکول یا مدرسے کے معصوم بچوں کے تشدد زدہ مردہ یا نیم مردہ جسموں کی تصاویر آتی ہیں ۔ یہ مفروضہ ورکشاپوں میں کام یا پبلک ٹرانسپورٹ کی ڈرائیوری سیکھنے پر بھی لاگو کیا جاتا ہے ۔ سمجھا جاتا ہے کہ جب تک استاد شاگرد پر بہیمانہ تشدد نہیں کرے گا، وہ اچھا مکینک یا ڈرائیور نہیں بن سکتا۔ لعنت ایسی استاد ی پر ۔نفسیات کہتی ہے کہ خوف کی فضا میں انسانی دماغ کی صلاحیتیں دب جاتی ہیں ۔ ایسے میں وہ مار کے ڈر سے رَٹا لگا کر کنوئیں کا مینڈک تو بن جاتا ہے لیکن علم حاصل نہیں کر سکتا ۔ دنیا پر حکومت کرنے والے پاگل نہیں کہ جو بچے کے ذہنی رحجان کا پتہ لگاتے ہیں اور پھر خوشگوار اور دوستانہ ماحول میں اسے اس شعبے کی تعلیم دیتے ہیں ۔ اس طریقے سے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جاتا ہے جبکہ مفروضہ ہذا کے تحت تو بچے کے گلے میں ’’ علم‘‘ کی زنجیریں پہنا کر اسے کسی مخصوص کھونٹے ہی سے باندھا جا سکتا ہے ۔ یاد رہے کہ کوئی بھی بچہ پیدائشی طور پر لاتوں کا بھوت نہیں ہوتا، بلکہ گھر ،معاشرتی ماحول اور طریقہ تعلیم اسے انسان سے کسی بھی قسم کا بھوت بنا دیتے ہیں ۔

.
تازہ ترین