وزیر اعظم کے خلاف پی ڈی ایم کی تحریک عدم اعتماد سے پیدا ہوا آئینی بحران، سپریم کورٹ کے سوموٹو، تیز ترین سماعت، گھر گھر زیر بحث آنے والے فیصلے، اس پر عملدرآمد میں سپیکر کی گھنٹوں کی ٹال مٹول، بالآخر تعمیل اور تبدیلی حکومت کا مرحلہ شروع ہونے پر بھی ختم تو کیا ہوتا اور شدت سے بڑھ گیا۔ عمران خان کے بطور وزیراعظم قوم سے آخری مختصر خطاب میں عدالتی فیصلے کو مایوسی کے ساتھ تسلیم کرنے لیکن تحریک عدم اتحاد کو بیرونی، مقامی سازش کا شاخسانہ قرار دیتے عدم اعتماد کی تحریک کے خلاف عوام سے اتوار کی شام احتجاجی مظاہرےکرنے کی اپیل کرتے ہوئے عمران خان شدید مایوس اور مکمل تنہا معلوم دیے۔ یہ ہی تاثر ان کی تقریر کے مندرجات پر مکمل غالب تھا اس کے فالو اپ میں اسلام آباد سے مین سٹریم میڈیا کی روایتی نیوز کوریج اور اس کے متوازی عوامی جذبات سے مغلوب جو انٹرنیشنل لیول کا کمیونیکیشن فلو، پاکستان کے شدت سے جاری آئینی بحران پر تیزی سے تیار ہو رہا تھا، اس میں ناچیز کو بطور اسٹوڈنٹ آف کمیونیکیشن سائنس، وزارت عظمیٰ سے فارغ ہوتے عمران خان کی لو پروفائل میں کی گئی اپیل کا کوئی خاص اثر نہ ہونے کا ہی اندازہ ہوا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب خان اعظم کے پرزور حامیوں کی یہ رائے تبدیل ہونا شروع ہو گئی تھی کہ پی ٹی آئی کو تحریک عدم اعتماد کے خلاف، عدالتی فیصلے کے باوجود، ایوان میں ٹف ٹائم دینا چاہیے اور سپیکر پی ٹی آئی اراکین اور بچے کھچے اتحادیوں کو ’’ان اے وے‘‘ پارلیمانی مزاحمت جاری رکھنی چاہیے۔ جیسے ہی مین سٹریم میڈیا سے اور کچھ کچھ ابہام کے ساتھ سوشل میڈیا سے بھی رات گئے سپریم کورٹ، اسلام آباد ہائیکورٹ کھلنے جج صاحبان اور عملے کے پہنچنے اور عدالتوں کےباہر قیدیوں کی وینز پہنچنے کی باتصویر کوریج ہونے لگی توسپیکر کو جری رویے میں لچک پیدا کرکے ووٹنگ کروانے کی سوچ پیدا ہونے لگی پھر یہ سماجی رابطوں میں پرو پی ٹی آئی ناظرین و سامعین کی تبدیل ہوتی رائے عامہ کے طور واضح طور پر محسوس ہوئی۔ سحری تک مایوسی کا یہ عالم تھا کہ اگلے روز ٹوٹتے عمران خان کی کمزور سی اپیل، جسے پی ٹی آئی کے میڈیا سیل کی بھی کوئی منظم کمیونیکیشن سپورٹ نظر نہ آئی رائیگاں جانے کا ہی اندازہ ہوا۔
قارئین کرام !آج زیر نظر کالم تحریر کرتے بڑی خبر اور اس سے زیادہ ناچیز کا اکیڈیمک نوٹس یہ ہے کہ گزشتہ بارہ اٹھارہ گھنٹے میں دنیا بھر کے میڈیا اینڈ کمیونیکیشن اسکالرز، ریسرچرز، سوشل سائنٹسٹس، تھنک ٹینکس گڈگورننس والی حکومتوں اور ماس کمیونیکیشن (خصوصاًپبلک اوپینیئن کی سپیلائزیشنز کے پی ایچ ڈی اور ایم فل سکالرز) کی گہری علمی، سیاسی، انتظامی اور مطالعاتی ضرورتوں اور دلچسپی کی حامل کمیونیکیشن باڈی آف نالج کی حیرت انگیز کیس سٹڈی پاکستان میں جاری آئینی بحران کے حوالے سے تیار ہوئی۔ تاریخ ساز، تحقیق کے لیے بڑا حوالہ کئی تحقیقاتی موضوعات کا حامل یہ سوال ہے کہ کسی کمزور ترین انداز میں کی گئی سیاسی اپیل کے نتیجے کا اثر گھنٹوں میں ملک گیر ہی نہیں انٹرنیشنل لیول پر بے حد گہرا یکجا، یکساں انداز کے بلند ترین درجے کے ساتھ پبلک رسپانس( لبیک) میں تبدیل ہو سکتا ہے ؟ پاکستانی قوم کے ایک بڑے حصے اور بیرون ملک ایک کروڑ حجم کے پاکستانی ڈائیس پورنے اس کا ناقابل تردید جواب دیا ہے، ہو سکتا ہے ؟ جواب بھی اتنی ناقابل تردید شہادتوں کے ساتھ ان کا جمع کرنا محال ہے، اس کے لیے ایک الگ پراجیکٹ بنانے کی ضرورت ہے جس کی سکت موجودہ پی ٹی آئی میں تو نہیں ہے۔ سوال، آخر ایسا کیا ہو گیا؟کیسے ہوا، کب ہوا؟جواب ہے۔انتہائی خاموشی اور مایوس کن لٹریسی ریٹ والی پاکستانی قوم نے پاکستانی جاری آئینی بحران میں مین سٹریم میڈیا پر ہونے و الے تجزیوں، عدالتی فیصلے اور پیشہ ورانہ رویے، خان اعظم کی تنہائی پر حوصلہ افزا اور حوصلہ شکن آراء تبصروں کو ایک طرف رکھتے، پاکستان بھر اور بیرون ملک لاکھوں پاکستانی، مایوسی میں غرق عمران خاں کی نحیف سی اپیل پر بعداز افطار و مغرب (اپنے اپنے اوقات کے مطابق ) گھروں سے باہر نکل آئے اور مصروف بازاروں، شاہرائوں اور چوراہوں پر لیڈر لیس احتجاجی ویکجہتی ریلیوں جلوسوں میں جاری بحران کے ریاستی فیصلوں، پاور فل پبلک اوپنئین پر مبنی اپنا فیصلہ دے دیا اس کے خلاف جانا، سپیکر کی طرح اس فیصلے کو نظرانداز کرکے عوامی جذبات و احساسات تجزیوں و تبصروں و آرا کے خلاف مزاحمت یا اس سے روپوشی بحران کو سنگین بنا دے گی۔
سوال ہے کہ ایسا کیا ہوا، جواب ہے کہ، عمران خان کے حق میں اور پی ڈی ایم کے جینریٹ کئے گئے، گٹھ جوڑ پر مبنی سیاسی عمل کے استرداد میں کیا نہیں ہوا۔ عمران کی عالم مایوسی میں کی گئی انتہائی مختصر اپیل قومی اور بین الاقوامی سطح کے پرزور لبیک میں تبدیل ہو گئی افطار و مغرب کے بعد ملک کے تمام بڑے شہروں، قصبوں، چھوٹے شہروں اور دور افتادہ دیہات تک میں رائے عامہ کا گھروں سے نکلا کارکنوں کا نہیں فیمیلیز، نوجوان لڑکے لڑکیوں خواتین و بزرگوں کا جم غفیر رات گئے تک سونامی میں تبدیل ہو چکا تھا۔ اپیل کو حاصل بغیر کسی مطلوب مزید ابلاغی معاونت کے کونسا صوبہ اور ریجن، ضلع اور تحصیل ہے جہاں شدید عوامی جذبات اور بیداری کی لہریں کمال وقارکے ساتھ نہیں پہنچیں۔ سونامی جتنا طاقتور ہوتا ہے اس کی لہروں کی پہنچ اتنی ہی آگے سے آگے ہوتی جاتی ہے یہ ہی گزری رات ہوا جس کی تصدیق سوشل میڈیا پر بکھری ان گنت شہادتوں سے ہوئی۔
اس پس منظر میں پی ڈی ایم کے تمام اکابرین سے مکمل خلوص نیت اور اپنے تئیں فقط قومی سوچ کے ساتھ باادب درخواست ہے کہ وہ غور فرمائیں کہ کیا فقط سپریم کورٹ کے فیصلے، نارواں ’’مزاحمت‘‘ سے ہی سہی، اس پر عملدرآمد سے کیا بحران ختم ہو گیا ہے؟